مریم نواز اور مسلم لیگ (ن)۔


مریم نواز شریف اپنے والد کے بعد مسلم لیگ نون کی دوسری مقبول ترین لیڈر کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ ان کے سخت گیر بیانیے کی وجہ سے مسلم لیگ نون آج اقتدار میں ہے۔ جہاں ان کے مزاحمتی بیانیے کو عوام میں غیرمعمولی پذیرائی ملی، وہیں بعض لوگ ان کے خاندان سے روٹھے بھی رہے۔ مریم نواز جب بڑے بڑے عوامی اجتماعات سے خطاب کیا کرتی تھیں اور بغیر کسی خوف کے کھل کر تنقید کرتی تھیں تو ان کے ناقد خیال کرتے تھے کہ وہ یہ سب کچھ اقتدار کے حصول کے لئے کر رہی ہیں، وہ چونکہ اپنی ذات کے لئے اقتدار چاہتی ہیں اس لئے مقبول مزاحمتی بیانیے کو آگے لے کر چل رہی ہیں تاکہ عوامی مقبولیت کا گراف مزید بلند ہو سکے۔ مگر آج یہ تمام مفروضے دم توڑتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

آج مسلم لیگ نون کو اقتدار میں آئے تقریباً اڑھائی ماہ ہوچکے ہیں۔ وفاق اور مرکز میں حکومت کی تشکیل مکمل ہو چکی ہے۔ مگر مریم نواز کی ذات کہیں نظر نہیں آ رہی۔ اگر ان کو اقتدار کی ہوس ہوتی تو آج پرسکون انداز میں رائیونڈ میں نہ بیٹھی ہوتیں۔ مسلم لیگ نون کے حکومت میں آنے سے ان کی ذاتی زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ آج بھی صبح صبح کافی کا مگ اٹھائے لاہور سے اسلام آباد ہائیکورٹ پیشی کے لئے نکل پڑتی ہیں۔ آئے روز ایسے مقدمات کی پیشیاں بھگت رہی ہیں، جن کے میرٹ سے ہر ذی شعور آگاہ ہے۔ جون کی شدید گرمی اور دوپہر کا وہ وقت جب سورج آگ اگل رہا ہوتا ہے، وہ قانون کے احترام میں وقت سے پہلے عدالت پہنچ جاتی ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وفاق اور پنجاب میں ان کی اپنی حکومت ہے۔ ایسی عاجزی اور حوصلے کی داد دینی چاہیے۔ انہوں نے آج اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ واقعی انہیں اقتدار کی ہوس نہیں تھی۔ وہ جس سویلین بالادستی اور جمہوریت کی مضبوطی کی بات کرتی تھیں اس کا مقصد اقتدار نہیں بلکہ اقدار کی پاسداری تھا۔

مگر آج مریم نواز کو اپنی ہی حکومت کی کامیابی کی خاطر ایک سخت نگراں کا کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ جب کوئی شخص مسند اقتدار پر فائز ہوتا ہے تو ارد گرد کے لوگ اسے سب اچھا کی رپورٹ دیتے ہیں۔ ایسے میں باہر بیٹھے خیر خواہوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ حکومت کی سمت درست کرتے رہیں۔ آج پنجاب حکومت کو اپنی گورننس بہتر کرنے کے حوالے سے آپ کے مشوروں کی اشد ضرورت ہے۔ آپ کی اپنی پارٹی کے وہ لوگ جنہوں نے گزشتہ ساڑھے تین سال نیب اور کوٹ لکھپت جیل کی راہداریوں میں وقت گزارا ہے، ان کو اس حکومت میں خصوصی جگہ دیں۔ مریم نواز اور حمزہ شہباز کی اولین ذمہ داری ہے کہ کسی بھی ایک فرد کو مطلق العنان مت بننے دیں۔ جنوبی پنجاب کے ارکان پارلیمنٹ سے براہ راست رابطہ رکھیں۔

ماضی میں مسلم لیگ نون یہی غلطی کرتی آئی تھی کہ جنوبی پنجاب میں جماعت کے بجائے چند افراد کو مضبوط کیا گیا مگر اب اسی غلطی کو دہرانے سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ جب وہ چند افراد جماعت کو خیر باد کہتے ہیں تو گراؤنڈ پر پارٹی کہیں نظر نہیں آتی۔ دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں کی مضبوطی کا ایک ہی راز ہے کہ وہ اپنی پہلی صف سے زیادہ دوسری صف کو مضبوط کرتی ہیں، تاکہ پہلی صف میں کھڑے افراد پارٹی کو خیر باد بھی کہہ دیں تو دوسری صف کے لوگ جماعت کا بوجھ اٹھا سکیں۔ اور کبھی دوسری صف کو پہلی صف کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاتا بلکہ پارٹی لیڈر شپ دوسری صف کے افراد کے معاملات کو بھی خود دیکھتی ہے۔

جب کہ مرکز کے معاملات میں بھی آپ کو اپنے چچا اور ملک کے وزیراعظم کو مفید مشورے دینے ہوں گے کیونکہ اللہ نے آپ کو جن صلاحیتوں سے نوازا ہے، انہیں بروئے کار لاکر اس حکومت کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کریں۔ آپ چوں کہ ماضی میں میڈیکل ایجوکیشن سے وابستہ رہ چکی ہیں، اس لیے ڈاکٹرز کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ بدقسمتی سے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان میں میڈیکل ایجوکیشن کا معیار بہت نیچے آیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ 2008 سے 2013 کے دوران بعض پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے قیام کی منظوری تھی۔ سابقہ حکومت نے میڈیکل ایجوکیشن کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے اس حوالے سے میڈیکل گریجویٹس کے لئے این ایل ای (نیشنل لائسنسنگ ایگزامینیشن) کا امتحان متعارف کروایا تاکہ تمام میڈیکل گریجویٹس اپنا لائسنس حاصل کرنے سے پہلے یہ امتحان دیں۔ مگر موجودہ قومی ادارہ صحت نے پی ایم سی کے ساتھ اس امتحان کو بھی ختم کر دیا ہے جس کا براہ راست فائدہ ان پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کو ہو گا، جو تعلیم کے معیار پر توجہ نہیں دیتے۔

وزیراعظم اور آپ کی ذمہ داری ہے کہ اتحادی جماعتوں سے درخواست کریں کہ خدارا ایسے اقدامات نہ کریں، جن کا خمیازہ انسانی جانوں کو بھگتنا پڑے۔ اگر سابق حکومت کا کوئی اچھا کام ہو تو اسے برقرار رکھنا چاہیے، پی ایم سی سے بیشک پی ایم ڈی سی کر دیں مگر این ایل ای ٹیسٹ ایک اچھا اقدام تھا۔

اسی طرح موجودہ حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج پاکستان کی معیشت ہے۔ وزیراعظم اور ان کی ٹیم دن رات کام کر رہی ہے۔ مگر معیشت کو اس کے ٹریک پر دوبارہ چڑھانا ہے تو اسحاق ڈار کو واپس لانا ہو گا۔ مفتاح اسماعیل بھلے آدمی ہیں مگر اسحاق ڈار کے تجربے کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اسحاق ڈار ایک سوشل جینئس ہیں۔ وہ پاکستان کے کاروباری افراد اور ایک غریب آدمی کی نفسیات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ جہاں پر اتنے کمپرومائز کیے ہیں، وہیں ایک کمپرومائز اسحاق ڈار پر بھی کر لیں۔ مقتدر حلقوں کو دل بڑا کرنا چاہیے۔ ملکی معیشت کی خاطر ماضی کی تلخ باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔

اگر مسلم لیگ نون نے اپنی حکومت میں بھی اسحاق ڈار کی صلاحیتوں سے استفادہ نہ کیا تو بہت نقصان اٹھا نا پڑے گا کیونکہ اسحاق ڈار وہ شخص ہے جو نواز شریف کے ایک بار کہنے پر ڈالر کو 98 پر لایا تھا۔ اسحاق ڈار جانتا ہے کہ بے لگام ڈالر کو لگام کیسے ڈالنی ہے۔ ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، فنانس منسٹری کو اس سے زیادہ کوئی شخص نہیں سمجھتا۔ اگر اس حکومت نے معیشت کو بہتر کر دیا تو آئندہ بھی برسر اقتدار رہے گی وگرنہ مسلم لیگ نون کا بحیثیت جماعت تشخص خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

مریم نواز صاحبہ! آپ اس وقت پاکستان میں موجود ہیں۔ اہم معاملات میں بہتری اور مسلم لیگ نون کی کامیابی کے لئے آپ بھرپور کردار ادا کریں تاکہ کامیابی اس حکومت کے قدم چوم سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments