سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ریٹائرڈ ظہیر الاسلام کی تحریک انصاف کے امیدوار کی حمایت کا اعلان: ’میں سیاستدان نہیں سچ میں نیوٹرل ہوں‘


لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام

پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ جنرلز گزشتہ چند مہینوں سے مسلسل خبروں اور سوشل میڈیا پر نظر آ رہے ہیں۔ اس کی وجہ ان کی سیاسی وابستگیاں یا غیر وابستگیاں اور موجودہ فوجی قیادت سے تعلق یا لاتعلقی کا اظہار ہے۔

اب کل سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام کا نام گردش کر رہا ہے۔

ان کی ایک ویڈیو منظرعام پر آئی ہے جس میں وہ پاکستان تحریک انصاف کے ایک سیاسی اجتماع میں تقریر کر رہے ہیں۔ یہ ویڈیو سامنے آتے ہی اس پر تبصروں کا بھی آغاز ہو گیا کہ کیا انھوں نے پی ٹی آئی میں ’باضابطہ‘ شمولیت اختیار کر لی ہے۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما فواد چودھری نے ڈان اخبار سے بات کرتے ہوئے ظہیر الاسلام کی پی ٹی آئی میں شمولیت کی خبروں کی تردید کی ہے۔

فواد چودھری نے کہا ہے کہ ’جنرل (ر) ظہیر الاسلام نے پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی امیدوار کی حمایت میں ایک سیاسی اجتماع میں شرکت کی تھی۔ ان افواہوں میں کوئی حقیقت نہیں کہ جنرل (ر) ظہیر الاسلام نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی۔ وہ صرف پی ٹی آئی امیدوار کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کر رہے تھے جو ریٹائرڈ جنرل کے رشتہ دار ہیں۔‘

اب تک کی اطلاعات یہ ہیں کہ یہ سیاسی تقریب پنجاب کے حلقہ پی پی 7 راولپنڈی میں ہو رہی تھی۔ پی ٹی آئی رہنما صداقت عباسی نے ٹویٹ کی اور کہا کہ مٹور کہوٹہ میں جنرل ریٹائرڈ ظہیر الاسلام کی رہائشگاہ پر معززین علاقہ کا ایک بڑا اجتماع ہوا جس میں پی ٹی آئی کے امیدوار کرنل ریٹائرڈ شبیر اعوان کی حمایت کا اعلان کیا گیا۔

اس کے باوجود اس تقریب کی ویڈیو اور تصاویر پر سوشل میڈیا پر خاصی بحث جاری ہے۔

’میں سیاستدان نہیں ہوں، میں ایکچویئلی نیوٹرل ہوں‘

اس تقریب کی ویڈیو میں جنرل (ر) ظہیر الاسلام کو تقریر کرتے سنا جا سکتا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ’میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں سیاستدان نہیں ہوں، میں ’ایکچویئلی نیوٹرل (سچ میں نیوٹرل)‘ ہوں۔ میں بالکل غیر سیاسی ہو کر آپ سے بات کر رہا ہوں‘، جس کے بعد وہاں موجود لوگوں نے تالیاں بجائیں۔

جنرل (ر) ظہیر الاسلام نے تقریر میں یہ بھی کہا کہ اب شاید وہ وقت آ گیا ہے کہ ہمیں برادریوں اور علاقوں سے باہر نکل کر ملک کی ترقی اور خوشحالی کے بارے میں سوچنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم نے یہ نہیں دیکھنا کہ امیدوار کون ہیں، ہم نے دیکھنا ہے کہ ہم نے کس سسٹم کو ووٹ دینا ہے اور وہ سسٹم ہمیں پی ٹی آئی میں نظر آتا ہے۔‘

راحیل، نواز شریف

سوشل میڈیا پر ردعمل:

ایک صارف نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’اب جبکہ جنرل ظہیر الاسلام باقاعدہ سیاست میں آ گئے ہیں تو نواز شریف کو ان کی وہ آڈیو ریلیز کر دینی چاہیے جو انھوں نے جنرل راحیل شریف کو سنوائی تھی۔‘

اسی طرح ایک اور صارف نے طزیہ انداز میں لکھا کہ ’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔۔۔ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ریٹائرڈ ظہیر الاسلام نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی۔۔ وطن کی مٹی گواہ رہنا۔۔۔‘

علی رضا نامی اکاونٹ نے ٹویٹ کیا کہ ’لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ظہیر الاسلام ایک ریٹائرڈ آرمی آفیسر ہیں۔ جنرل ریٹائرڈ قادر بلوچ اور لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم کی طرح انھیں بھی مکمل حق حاصل ہے کہ وہ سیاست میں شامل ہوں۔‘

خیال رہے کہ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم اور قادر بلوچ دونوں ہی سیاسی میدان میں خاصے سرگرم ہیں۔

یہی بات محمد بخش رونجھو نامی ٹویٹر صارف نے لکھی اور کہا کہ انھیں فوج سے ریٹائر ہوئے دو سال سے زائد مدت گزر گئی اور اب ان کا جمہوری حق ہے کہ وہ اپنے سیاسی خیالات کا کھل کر اظہار کریں۔

اسی طرح محمد جمیل اختر نامی اکاونٹ نے ان کا پی ٹی آئی کی حمایت کرنے پر شکریہ ادا کیا۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام کون ہیں؟

لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام کا نام اس وقت خبروں میں عام ہوا جب وہ سنہ 2012 میں پاکستان کی مرکزی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ تعینات ہوئے۔

ایک تو اس ادارے کے سربراہ کو آرمی چیف کے بعد مضبوط ترین عہدہ سمجھا جاتا ہے اور دوسرا سنہ 2013 اور 2014 کے سیاسی حالات کچھ ایسے بن گئے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کام نام بار بار سننے کو ملتا رہا۔

ان کے فوجی کیریئر کی بات کریں تو پاکستانی فوج کے 55ویں لانگ کورس کے جنرل ریٹائرڈ ظہیر السلام کا تعلق پنجاب رجمنٹ سے تھا۔ انھیں سنہ 2010 میں لیفٹیننٹ جنرل کے رینک میں ترقی دی گئی جس کے بعد بطور تھری سٹار جنرل انھوں نے دو سال یعنی 2012 تک کور کی کمان کی اور پھر سٹاف ڈیوٹی پر اگلے دو سال تک آئی ایس آئی میں تعینات ہوئے۔

اس سے قبل وہ مری کے جی او سی رہے اور سیاچن میں بریگیڈ بھی کمانڈ کی۔ ان کے والد بھی پنجاب رجمنٹ سے تعلق رکھتے تھے۔

ان کا ذکر جہاں پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت سمیت مختلف سیاستدانوں کی تقریروں اور انٹرویوز میں ملتا ہے، وہیں وہ بعض کتابوں کی زینت بھی بنے اور ان میں سابق آرمی چیف آصف نواز کے بھائی شجاع نواز کی کتاب ’دی بیٹل فار پاکستان‘ شامل ہے۔

اس کتاب کے صفحہ 262 میں پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر رچرڈ اولسن سے اپنی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے شجاع نواز لکھتے ہیں کہ امریکی سفیر نے انھیں بتایا کہ ’ستمبر 2014 میں ہمیں اطلاع ملی کہ جنرل ظہیر الاسلام پاکستان میں فوجی بغاوت کا منصوبہ بنا رہے ہیں مگر اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے اس منصوبے کو پنپنے نہیں دیا اور آئی ایس آئی کے سربراہ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔ جنرل ظہیر کور کمانڈرز سے بھی رابطے رکھے ہوئے تھے اور اگر انھیں راحیل شریف کی حمایت ہوتی تو حکومت کا تختہ الٹ چکا ہوتا۔‘

اسی بارے میں اگست 2015 میں بی بی سی کو ایک انٹرویو میں مسلم لیگ نون کے رہنما اور اس وقت نواز شریف کی کابینہ کے اہم رکن مشاہد اللہ خان نے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ظہیر الاسلام کے کردار سے متعلق اہم انکشافات کیے تھے۔

انھوں نے کہا تھا کہ سنہ 2014 میں اسلام آباد میں تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے دوران پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام نے ایک سازش تیار کی تھی جس کے ذریعے وہ فوجی اور سول قیادت کو ہٹا کر ملک پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔

عمران خان، قادری

مشاہد اللہ خان کے بقول اس سازش کا انکشاف اس وقت ہوا جب پاکستان کے سویلین انٹیلیجنس ادارے انٹیلیجنس بیورو نے لیفٹینٹ جنرل ظہیر الاسلام کی ٹیلی فونک گفتگو ٹیپ کی جس میں وہ مختلف لوگوں کو ہدایات دے رہے تھے کہ دھرنے کے دوران کس طرح افراتفری پھیلانی ہے اور وزیراعظم ہاؤس پر قبضہ کرنا ہے۔

انھوں نے کہا تھا کہ 28 اگست کی شام وزیراعظم نواز شریف نے بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے دوران یہ آڈیو ٹیپ انھیں سنائی۔

’جنرل راحیل شریف یہ ٹیپ سن کر حیران رہ گئے۔ انھوں نے اسی وقت جنرل ظہیر الاسلام کو اسی میٹنگ میں وزیر اعظم کے سامنے طلب کر کے وہی ٹیپ دوبارہ چلوائی اور ان سے پوچھا کہ کیا یہ آواز آپ ہی کی ہے اور جنرل ظہیر کی جانب سے اس تصدیق کے بعد کہ یہ آواز انھی کی ہے، جنرل راحیل نے جنرل عباسی کو میٹنگ سے چلے جانے کو کہا۔‘

مشاہد اللہ خان نے بتایا تھا کہ ’بعض بہت مؤثر اور سینیئر جرنیل اس سازش میں ملوث تھے، جن میں لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام بھی شامل ہیں لیکن جنرل راحیل اور پاکستانی فوج ایک ادارے کے طور پر اس سازش میں شامل نہیں تھی۔‘

اس سے ایک برس قبل پانچ ستمبر 2014 میں خبر رساں ایجنسی رویٹرز نے بھی ایک خبر شائع کی تھی جس میں کہا گیا پاکستانی فوج کے پانچ اعلیٰ افسران سمجھتے تھے کہ یہی وہ وقت ہے کہ نواز شریف سے استعفی لے لیا جائے اور فوج اقتدار پر قبضہ کر لے تاہم اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے ایسے کسی بھی اقدام کی مخالفت کی تھی۔

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ظہیر الاسلام ان خبروں اور الزامات کی تردید کر چکے ہیں جبکہ فوج کے تعلقات عامہ کے ڈائریکٹوریٹ آئی ایس پی آر نے بھی ان الزامات کی سختی سے تردید کی تھی۔

اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے مبینہ آڈیو سے متعلق کہا کہ میڈیا میں زیرِ بحث آڈیو ریکارڈنگ سے متعلق خبریں بے بنیاد اور حقیقت سے دور ہیں۔

ان دنوں ملک کے وفاقی وزیرِ اطلاعات پرویز رشید نے بھی سینیٹر مشاہد اللہ کے بیان کی تردید کی تھی جبکہ وزیراعظم ہاؤس نے بھی سینیٹر مشاہد اللہ کے بیان کا نوٹس لیا۔ بعد ازاں مشاہد اللہ کو ڈی جی آئی ایس آئی ظہیر الاسلام کے بارے میں بیان دینے پر ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا۔

اس وقت کے وزیر اطلاعات پرویز رشید کے مطابق مشاہد اللہ کو بتایا گیا تھا کہ انھوں نے جو انٹرویو دیا وہ غیر ذمہ دارانہ اور حقائق کے بالکل برعکس تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments