ہر لڑکی کا خواب دلہن بننا نہیں ہوتا


آج سے ٹھیک کچھ دن بعد میں پچیس سال کی ہو جاؤں گی، جی ہاں پچیس سال کی لڑکی وہ بھی کنواری، جو ابھی تک شادی شدہ نہیں ہے اور بقول معاشرے کہ شادی میں دیر یا تو مجھ میں کسی نقص کے سبب ہے یا قسمت سوئی ہے۔ میرے اردگرد موجود بہت سی میری ہم عمر لڑکیاں بچوں کی مائیں بن چکی ہیں ایسا باقی سب کا کہنا ہے اور میں ابھی تک اس عہدے پہ فائز نہیں ہوئی، لگتا ہے معاشرہ قبول نہیں کرے گا مجھے۔ ہائے کیا بنے گا میرا (ہنسنا منع ہے ) میری تعلیم اور ذہانت سب مٹی ہے کیونکہ میں شادی شدہ نہیں، افسوس ہو رہا ہے بھئی۔

ان گزشتہ چوبیس سالوں میں نہ میری تعلیم، نہ میرا کوئی ہنر اور نہ میری محنت کی بات کبھی کی گئی کیونکہ سب سے زیادہ، اہم بات شادی ہے اس لیے جب بھی پوچھا گیا تو یہی سوال کہ فلاں کی شادی ہو گئی، تم کب کر رہی ہو، لڑکی کی ایک عمر ہوتی ہے اس کے بعد شادی نہیں ہوتی، صحت کے مسائل ہوسکتے (لگتا ہے کسی حکیم سے پھکی لینی پڑے گی کیونکہ عمر صرف عورت کی بڑھتی ہے، مرد کی نہیں ) اور بہت سی ایسی باتیں جن کو سن کہ آپ شروع میں تو بہت دکھی ہوتے ہیں اور سوچنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں کہ یار کیا ہو گا اگر شادی نہ ہوئی؟

لیکن ایک خاص وقت کے بعد آپ پریشان ہونا چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ آپ میں صبر آ جاتا ہے اور آپ بہتر کی خاطر بد سے دور رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ویسے مجھے اکثر معاشرے کے اس دوہرے معیار پہ حیرت ہوتی ہے کہ ایک مرد پچاس کا ہو کہ بھی جوان کہلاتا ہے اور لڑکی بیس پچیس کے بعد بوڑھی سمجھی جاتی ہے، عورت کے مسائل ہو سکتے ہیں تو کیا مرد کا کوئی صحت کا مسئلہ نہیں ہو سکتا ؟ یا اللہ تعالیٰ نے ساری تکالیف عورت کے حصے میں ڈالی ہے اور مرد کو بری الذمہ قرار دیا ہے؟ ویسے سائنس تو کچھ اور ہی کہتی ہے اولاد ہونے نہ ہونے کے معاملے میں۔

ہماری بدقسمتی کہئے یا المیہ کہ ہماری بچیوں کو بچپن سے یہ بات ذہن نشین کروا دی جاتی ہے کہ اس کی زندگی کا اصل مقصد صرف شادی ہے وہ بھی جتنی کم عمری میں ہو گی اتنا اچھا ورنہ آپ کی زندگی بے کار ہے اور اگلا مقصد شوہر کی فرمانبرداری ہے، چاہے شوہر جیسا بھی ہو، بیٹی صبر تم نے ہی کرنا ہے اور پھر اگلی صبر کرتے کرتے قبر میں چلی جاتی ہے۔ ہم نے اپنی بیٹیوں کو تو برداشت اور صبر کا درس دے دیا ہے لیکن بیٹوں کو انسانیت کا سبق دینا بھول گئے ہیں۔ ہمیں یہ بات بتانے کی کسی نے زحمت نہیں کی کہ شادی ایک ذمہ داری ہوتی اس کا عمر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، بعض اوقات انسان کی سمجھ اس کی عمر سے بہت آگے ہوتی ہے اور بعض دفعہ انسان کی سمجھ اس کی عمر سے کئی گنا نا پختہ ہوتی ہے۔

لیکن ان باتوں کو کون سمجھے سب کی نظر عمر پہ مرکوز ہوتی ہے، نفسیاتی پہلو بھی شامل ہیں اس میں لیکن آگ لگے ان کو بھی بس شادی کرو چاہے جس سے بھی۔ لوگ شاید یہ بھول گئے ہیں کہ ہر معاملے میں اللہ کی مصلحت ہوتی ہے تو پھر آپ اور میں کون ہوتے ہیں اس پہ سوال کرنے والے، شادی دیر سے ہو یا جلدی یہ ہر انسان کا ذاتی فعل ہے، ہر کسی کو زندگی اپنے ڈھنگ سے گزارنے کا حق حاصل ہے تو پھر آپ انسان زمین پہ خدا مت بنیں۔ ہمارے لوگوں کو مرضی اور اجازت کی اہمیت کو سمجھنے کی بہت ضرورت ہے اور بے انتہا ضرورت ہے۔

ویسے

لڑکی کی بڑھتی عمر صرف گھر والوں کا نہیں بلکہ ان لوگوں کا بھی ذاتی مسئلہ بن جاتی ہے جن کہ اپنے گھر میں پہلے سے نقب لگ چکی ہوتی ہے لیکن وہ پھر بھی سبق نہیں سیکھتے۔ یہ بات اچھے سے بہت سے لوگو‌ں کو ذہن نشین کرنی چاہیے کہ ہر لڑکی کا خواب دلہن بننا نہیں ہوتا، کچھ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کو ترجیح دیتی ہیں ( جو کہ معاشرے کو قطعی قبول نہیں، بھئی زیادہ پڑھائی دماغ جو خراب کر دیتی ہے نا) اور پھر اپنے لئے ایک موزوں ساتھی کا انتخاب کرتی ہیں۔

زیادہ مسئلہ شادی شدہ لوگوں کو ہوتا ہے، ان سے کوئی کنوارہ برداشت نہیں ہوتا تو ایسے لوگوں کو میں کہنا چاہوں گی کہ اگر آپ کی شادی ہو جائے تو اپنے گھر اور گھر والے پہ توجہ دیں، دوسروں کو مفت مشورے دے کے ان کا اور اپنا قیمتی وقت ضائع مت کریں۔ کیونکہ ہر کوئی شادی کے بعد خوش نہیں ہوتا کچھ بغیر شادی کے بھی رہ لیتے ہیں یا کچھ خدا کی کن کا انتظار کرتے ہیں۔

میں نے اکثر دیکھا ہے کہ زیادہ تر خواتین ہی ایسے سوالات کرتی ہیں اور باتوں کو مختلف طریقوں سے پیش کرتی ہیں، خصوصاً وہ جن کی شادی ہو جائے انہیں لگتا ہے انھوں نے کوئی ملک فتح

کر لیا ہو اور پھر وہ باقیوں کو فوائد بتاتی ہیں کہ بیشک اپنی زندگی میں سکون نہ ہو، کسی اور کو بھی سکھی نہیں دیکھنا۔ اب کیا آپ سب کو خوش کرنے کے لئے شادی کر لیں اور بعد میں کوئی مسئلہ ہو تو آپ لوگ ساتھ دیں گے یا بھاگ جائیں گے؟ جب بھی آپ کا سامنا کسی ایسے انسان سے ہو تو اس کو کہا کریں ٹھیک ہے کر لوں گی شادی لیکن بعد کے حالات کی ذمہ داری آپ کی ہوگی اور میں یہ لکھوا کر لوں گی آپ سے۔ یقین کریں اگر دوبارہ کبھی آپ سے ایسا سوال کیا گیا۔ لوگوں کو کریئر بناتی لڑکی کی پرواہ نہیں ہوتی بس شادی کی فکر ہوتی ہے۔

ایک ور

ویسے بدقسمتی یہ بھی ہے کہ بیس کے بعد لڑکی آنٹی ہو جاتی ہے اور اسے یہ بتا دیا جاتا ہے کہ شادی بڑی عمر والے سے ہوگی اور اگر لڑکی جرات کر کے اپنے سے کوئی کم عمر لڑکا پسند کر لے شادی کے لئے تو وہ گناہگار اور نہ جانے کیا کچھ۔ مرد کا عمر میں بڑا ہونا مسئلہ نہیں (کیونکہ مرد کو سب معاف ہے ) لیکن عورت کا ہے کیونکہ وہ ایک عورت ہے اور اس کو اپنی مرضی کا حق حاصل نہیں۔ ویسے جب ہمارے نبی کریم نے بی بی خدیجہ سے چالیس کی عمر میں شادی کی اس وقت نبی کریم کی اپنی عمر پچیس تھی تو پھر ہم، جو کہ ان کے ماننے والے ہیں بیشک نام نہاد سہی، ہم کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے۔ جس طرح ہم اپنے بیٹوں کو سپورٹ کرتے ہیں بالکل وہی معیار ہم اپنی بیٹیوں کے لئے کیوں نہیں رکھتے؟ آخر کب ہمیں عقل آئے گی کہ بیٹیاں بھی برابری اور عزت کی مستحق ہوتی ہیں۔

بیٹیوں کے لئے ماں باپ ہمیشہ خاص ہوتے ہیں چاہے وہ کہیں بھی چلی جائیں لیکن ماں باپ معاشرے کے دباؤ میں آ کے اکثر ایسے فیصلے کر دیتے ہیں جن کا بوجھ ان کے لئے بھی اور بیٹی کے لئے بھی ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔ دنیا کیا کہتی اور کیا نہیں اس بات سے کبھی فرق نہیں پڑتا بیٹیوں کو لیکن آپ کے ماں باپ کیا کہتے ہیں یہی معنی رکھتا ہے۔ لڑکی کی عمر کسی کا ذاتی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے اور جن لوگوں کو پھر بھی آرام نہ ہو ان کو جواب دینے سے گریز مت کریں، ہمارے یہاں کہتے ہیں جیسا منہ ویسی چپیڑ، آپ کی زندگی، آپ کی مرضی۔ ہر کام کا خدا نے ایک وقت متعین کر رکھا ہوتا ہے، آپ کہ یا میرے چاہنے سے کچھ نہیں ہو گا، اپنی باری کا انتظار کرنا، غلط فیصلہ کرنے سے ہزار گنا بہتر ہے۔ اگر جلدی یا وقت پر شادی کرنے سے بڑھتی عمر کا سلسلہ رک جاتا ہے تو پھر سوچا جا سکتا ہے ورنہ مناسب وقت کا انتظار کرنا بہتر ہے۔

ہمارے معاشرے کو خصوصاً ہمارے والدین کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک لڑکی کو خودمختار بنانا بے حد ضروری ہے اس کے بعد شادی کی جا سکتی ہے، لیکن شادی کسی اور کی خوشی کی خاطر نہیں بلکہ اپنے سکون اور اطمینان کی خاطر کی جاتی ہے۔ میرے جیسی نا جانے کتنی لڑکیاں ہوں گی جن کو روزانہ کی بنیاد پہ صرف اس لئے جج کیا جاتا ہے کہ شادی کی عمر نکل رہی ہے، ہر کوئی اپنے اندر ایک جنگ لڑ رہا ہے آج کل کے دور میں، ایسی باتیں بعض دفعہ انسان کا وہ نقصان کروا دیتی ہیں جو سوچا نہیں جا سکتا۔

میری وہ تمام بہنیں جو خود کو ایسی باتیں سوچ کے اذیت دیتی ہیں یا ان کے والدین اگر پریشان ہیں معاشرے کے رویے سے تو میں ان کو یہی کہنا چاہوں گی کہ آپ کی بیٹی کی خوشی اور خودمختاری سب سے اہم ہے، شادی کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں، غلط اور جلد بازی میں لئے گئے فیصلوں سے دیر سے ملنے والی خوشی ہزار گنا بہتر ہے۔ کبھی اپنی ذات، خوشی اور عزت نفس پہ سمجھوتہ نہ کریں۔

اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ جس کا جو نصیب ہو گا وہ ہر صورت ملے گا اسے پھر خود کو سوچوں کے بھنور میں مت ڈوبنے دیں۔ ایک لڑکی کو کبھی بھی بوجھ مت سمجھیں بلکہ اس کو بوجھ بانٹنا سکھائیں۔ اور باقی رہ گئے وہ لوگ جو کہ دنیا میں آتے ہی باتوں کے لئے ہیں ان کو ہمیشہ ایک اچھی سی ”شٹ اپ کال“ دیا کریں کیونکہ آپ کا اپنا ذہنی سکون بہت معنی رکھتا ہے، صبر اور دعا کے ذریعے خدا سے مدد طلب کریں اور اگر کبھی پتہ چلے کہ بڑھتی عمر جلد شادی کرنے سے رک جاتی ہے تو مجھے بھی ضرور آگاہ کیجیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments