جرمنی کی خارجہ اور دفاعی پالیسی میں جوہری تبدیلی


پس منظر

جرمنی دو مرتبہ عالمی جنگ شروع کرنے کا موجب بنا ہے۔ اس لئے دوسری عالمی جنگ کے بعد اتحادی طاقتوں نے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ آئندہ جرمنی کی فوجی طاقت محدود اور ان کے زیر نگیں رہے۔ خود جرمنی بھی بے حد محتاط تھا کہ کسی جھگڑے میں ملوث نہ ہو۔ چنانچہ اس وقت جرمنی میں اس بات پر بھی شدید اختلاف تھا کہ جرمنی کی کوئی فوج ہونی بھی چاہیے یا نہیں؟ کافی بحث کے بعد نومبر 1955 میں جرمن مسلح افواج کا قیام عمل میں آیا۔ اس کی وجہ غالباً وارسا پیکٹ اور نیٹو کے مابین چپقلش کے پس منظر میں نیٹو کی فوجی قوت بڑھانے کی ضرورت تھی۔ مگر جرمنی کی عمومی پالیسی پھر بھی یہی رہی کہ وہ بین الاقوامی تنظیموں کے تحت اپنا کردار ادا کرے اور اس کی انفرادی حیثیت نمایاں نہ ہو۔

جب 1989ء میں دیوار برلن گرنے کے بعد جرمنی متحد ہوا تو پھر سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے جن کا اظہار بھی بعض ممالک میں کیا گیا۔ اس وقت جرمنی نے نہایت عقلمندی کے ساتھ یورپی یونین اور نیٹو کی ڈھال کو آگے رکھا نیز اپنی فوج پانچ لاکھ سے کم کر کے دو لاکھ کر دی، یعنی نصف سے بھی کم۔ جرمنی کی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں اس کا رسوخ بڑھتا رہا۔ اس لئے یہ آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں کہ جرمنی کو عالمی سطح پر بڑا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ تجویز دی گئی کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں جرمنی کو مستقل نشست دی جائے۔ یہ بھی کہا گیا کہ جرمنی کو جوہری ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔ وغیرہ۔

تاہم جرمنی عالمی سطح پر بدستور بے حد محتاط رہا۔ 1999ء میں جرمن افواج نے پہلی مرتبہ نیٹو کے تحت کوسووو کی جنگ میں محدود حصہ لیا۔ گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشتگرد حملوں کے بعد امریکہ پر ایک ہیجانی کیفیت طاری تھی اور وہ ”ہمارے ساتھ یا ہمارے خلاف“ میں دنیا کو تقسیم کر رہا تھا۔ جرمنی نے اس وقت بھی محض بحر ہند کے ایک حصہ کی نگرانی کی ذمہ داری لی اور براہ راست جنگ میں حصہ لینے سے باز رہا۔ 2003ء کے عراق پر امریکہ کے غیر قانونی حملے میں تو جرمنی نے ہر قسم کی شمولیت سے صاف انکار کر دیا۔

سو ارب یورو کا خصوصی دفاعی فنڈ

روس کے یوکرائن پر حملہ کے نتیجہ میں جرمنی کی دفاعی پالیسیوں میں کچھ جوہری تبدیلیاں ظاہر ہو رہی ہیں۔ ان میں پہلی یہ ہے کہ جرمنی نے اپنی افواج کو تیزی سے مضبوط اور جدید بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جرمنی کا دفاعی بجٹ سرد جنگ کے دوران معیشت کا قریباً 5 فیصد تھا جو کہ کم ہو کر 2005 ء میں قریباً ایک فیصد رہ گیا۔ لیکن اب اس پالیسی کو ہنگامی بنیادوں پر بدل دیا گیا ہے۔ دفاعی بجٹ میں اضافہ کے علاوہ ایک سو ارب یورو کا خصوصی دفاعی فنڈ قائم کیا گیا ہے اور اس کے لئے دستور اساسی میں دو۔ تہائی اکثریت سے مطلوبہ تبدیلی بھی کر لی گئی ہے۔ ان سو ارب کے استعمال کے بعد جرمن افواج یورپ کی مضبوط ترین روایتی افواج بن جائیں گی۔

اسلحہ کی فراہمی

دوسری بڑی تبدیلی اسلحہ کی فراہمی کے متعلق ہے۔ جرمنی اس وقت دنیا میں اسلحہ فروخت کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔ لیکن اس نے 1971ء میں یہ اصول طے کیا تھا کہ کسی ایسے ملک کو اسلحہ فروخت نہیں کیا جائے گا جو جنگ میں ملوث ہو۔ اسی طرح یورپی یونین نے بھی 2008ء میں یہ اصول بنایا تھا کہ ایسی کسی جگہ اسلحہ نہ بھیجا جائے گا جس کے نتیجہ میں جنگ طول پکڑ لے۔ تاہم اب یہ تمام اصول بالائے طاق رکھ دیے گئے ہیں اور جرمنی اور یورپی یونین دونوں نے یوکرائن کو بھاری اسلحہ مہیا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اب دلیل یہ ہے کہ یوکرائن پر حملہ ہوا ہے اور اسے اپنا دفاع کرنے کا حق ہے۔ گویا بوسنیا پر حملہ نہیں ہوا تھا جو اسے اسلحہ دینا ممنوع قرار دیا گیا تھا! مغربی ممالک کے دوہرے معیاروں سے قطع نظر بہرحال یہ ایک بڑی پالیسی تبدیلی ہے اور آئندہ اس کے دور رس نتائج نکلیں گے۔

روس سے تعلقات

تیسری بڑی تبدیلی روس سے تعلقات میں آئی ہے۔ اس سے قبل متعدد بار یہ ذکر ہو چکا ہے کہ جرمنی کا مسئلہ مشرق میں روس اور مغرب میں فرانس کے درمیان واقع اور ناقابل دفاع ہونا ہے۔ یہی جرمنی کے مشہور زمانہ خوف German Angst کی بنیاد ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے جرمنی کی یہ پالیسی ہے کہ فرانس کے ساتھ عوامی، معاشی، علمی، معاشرتی، سائنسی، عسکری اور سیاسی سطح پر اتنے مربوط اور مضبوط اور وسیع پیمانے پر تعلقات بنا لئے جائیں کہ کوئی خطرہ پیدا ہی نہ ہو۔ دونوں ممالک کے جنگ کرنا مالی طور پر اتنا نقصان دہ ہو اور معاشرتی طور پر آپس کے تعلقات کی وجہ سے عوام لڑائی کے اتنی خلاف ہو کہ کوئی ملک اس کا سوچے بھی نہ۔ فرانس کے ساتھ صدیوں کی دشمنی اور جنگوں کے بعد اس نظریہ پر جس کامیابی سے عمل کیا گیا ہے وہ حیرت انگیز ہے۔

وارسا پیکٹ کے خاتمہ کے بعد سے روس کے متعلق بھی یہی پالیسی اپنائی جا رہی تھی۔ چنانچہ شدید امریکی مخالفت کے باوجود روس تک گیس پائپ لائنیں بچھائی گئیں اور جرمنی کی روس کے ساتھ باہمی تجارت سالانہ ستر ارب یورو تک پہنچ گئی۔ بہت سی جرمن کمپنیوں نے روس میں دفاتر کھولے۔ سیاسی سطح پر صدر پیوٹن کو خصوصی دعوت دی گئی اور انہوں نے 25 ستمبر 2001ء کو جرمن پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔ معاشرتی تعلقات بھی بڑھائے جا رہے تھے، روس اور جرمنی میں سیاحوں کی آمد و رفت بھی بڑھ رہی تھی۔ جرمنی میں روس سے آنے والے 23 لاکھ سے زائد جرمن نژاد لوگوں کو آباد کیا گیا۔ علاوہ ازیں بہت سے غیر جرمن روسی بھی یہاں آباد ہوئے۔ یہ تعلقات یک لخت اس سختی کے ساتھ توڑ دیے گئے ہیں کہ ان کو بحال کرنا لمبا عرصہ اور فریقین کے طرز عمل میں واضح تبدیلی چاہتا ہے۔

جرمنی کا حقیقی مفاد

آغاز میں چانسلر صاحب نے پارٹی پالیسی کے مطابق اس جنگی جنون میں شامل ہونے سے انکار کیا۔ مگر چند دن بعد ہی دیگر پارٹیوں، خصوصاً حکومتی اتحاد میں شامل ایف ڈی پی، اور میڈیا نیز نیٹو وغیرہ کے مجموعی دباؤ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ پہلے صرف ہلکے ہتھیار دیے گئے جس پر ناراض ہو کر یوکرائن نے صدر شٹائن مایئر صاحب کو اپنے ہاں آنے سے منع کر دیا۔ اس پر چانسلر صاحب نے صدر مملکت کی گستاخی پر ناراض ہو کر خود بھی یوکرائن جانے سے انکار کر دیا۔ لیکن پھر شدید اندرونی اور بیرونی تنقید کے بعد یہ فیصلہ بھی تبدیل کرنا پڑا۔ بھاری ہتھیار نہ دینے کے فیصلہ پر یوکرائن کے سفیر نے شدید گستاخانہ تنقید جاری رکھی ہوئی ہے، میڈیا اور سیاستدانوں نے بھی۔ چنانچہ اب بھاری ہتھیار بھی دیے جا رہے ہیں۔

پالیسیوں میں ایسی تبدیلی کی وجہ یہ ہے کہ مغربی میڈیا، معیشت کے ستونوں، دانشوروں، سیاستدانوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ روس کو اب سبق سکھانا ہے۔ تاہم جرمنی کا حقیقی مفاد روس کے ساتھ پرامن تعلقات میں پنہاں ہے۔ دشمنی اور جنون کے نتیجہ میں مالی کے علاوہ معاشرے کو دیر پا نقصان ہو گا اور شدت پسندی، وطن پرستی اور نسل پرستی فروغ پائیں گے۔ جرمن معیشت کی بنیاد برآمدات اور تجارت پر ہے چنانچہ اس کے لئے امن ضروری اور جنگ زہر قاتل ہے۔

روس اس وقت عسکری کامیابیاں بھی حاصل کر رہا ہے اور مغربی پابندیاں بھی فی الحال برداشت کر گیا ہے کیونکہ چین، ہندوستان، متعدد افریقی ممالک وغیرہ نے مغربی دباؤ مکمل طور پر قبول نہیں کیا۔ وقت کے ساتھ ان ممالک کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ خود مغرب کی صفوں میں بھی دراڑیں موجود ہیں جس کی ایک مثال ہنگری ہے۔

جب عوام مہنگائی سے تنگ آئیں گے تو مغرب کے لئے اتحاد قائم رکھنا مزید مشکل ہو جائے گا۔ مشرقی اور شمالی یورپی ممالک اس وقت خوف اور ہیجان میں مبتلاء ہیں اور اسی لئے فوری طور پر نیٹو میں شمولیت چاہتے ہیں۔ شانت روس ان کے بھی مفاد میں ہے۔ ان ممالک کے خوف کو دور کرنے کا طریق یورپی دفاعی نظام کا قیام ہے۔ یورپ کو سمجھ لینا چاہیے کہ برطانیہ اور امریکہ کے مفادات یورپ کے مفادات سے مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن اب تک کے آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ تقدیر کچھ اور ظاہر کرنے والی ہے۔ و اللہ اعلم۔

نوٹ: یہ مضامین مصنف کے ذاتی خیالات کے عکاس ہیں۔ کسی شخص، ادارہ یا جماعت کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ ان مضامین کے متعلق اپنی رائے dawoodmajoka@googlemail.com پر براہ راست مصنف کو بھیج کر شکریہ کا موقع دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments