ریاست کا مخمصہ


حقائق اور اعداد و شمار کی روشنی میں ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ہم نے جتنی تنظیموں کو کالعدم کیا تھا، وہ سب اب دوبارہ فعال ہو چکی ہیں۔ عوام کو انتہاپسندی کے سیلاب سے بچانے کے لیے روشن خیال سیاست بے دست و پا ہو چکی، میڈیا پر انتہا پسندی کے چاہنے والے ان گنت شکلوں میں ایک ایسے تاریک دن کے لیے راہیں ہموار کر رہے ہیں جس سے رات کی تاریکی بھی شرما جائے۔ پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات پر اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات آئین اور پارلیمنٹ کی رہنمائی کے تحت ہوں گے۔ جو مندرجات منظر عام پر آئے ہیں، ان کے مطابق مذاکراتی عمل کی کامیابی کو پارلیمنٹ کی منظوری سے مشروط کیا گیا ہے، جمہوری ممالک میں سب سے سپریم ادارہ پارلیمنٹ ہی ہے، اس کی بالا دستی کو تسلیم کرتے ہوئے ہی مسائل کا پائیدار اور مستحکم حل ممکن ہوتا ہے۔

گزشتہ برس کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحدی پہاڑی خطے میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا جب کہ متعدد مواقع پر پاکستان اور افغان سرحدی محافظوں کے درمیان جھڑپیں بھی دیکھی گئیں۔ مذاکرات سے پہلی حکومت کو ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو غیر محسوس طریقے سے ختم کرنا چاہیے تھا اور انھیں غیر مسلح کرنا چاہیے تھا، لیکن ان سے مذاکرات شروع کر دیے گئے، تاہم یہ مذاکرات غیر مشروط نہیں ہونے چاہئیں اور تحریک طالبان پاکستان کو کسی بھی طرح کی کوئی بڑی رعایت نہیں دینی چاہیے کیونکہ اس سے وہ مضبوط ہوں گے، ماضی میں بھی ایسا کرتے رہے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان سے جڑے عسکری گروہ گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے پاکستانی فورسز اور عام شہریوں کے جان و املاک کے خلاف بدترین حملوں میں ملوث رہے ہیں۔ حکومت اور تحریک طالبان پاکستان میں ماضی میں بھی مذاکرات ہوتے رہے اور معاہدے بھی ہوئے۔

پہلا معاہدہ اس وقت ہوا جب نیک محمد تحریک طالبان پاکستان کی سربراہی کر رہا تھا، یہ تنظیم ابھی ابھری ہی تھی اور مکمل طور پر کسی تنظیم کی شکل میں موجود نہیں تھی لیکن وہ اور اس کے ساتھی وعدوں کی خلاف ورزی کرنے لگ گئے۔ دوسرا معاہدہ بیت اللہ محسود کے دور میں ہوا، جب پاکستان کی حکومت نے مختلف قبائلی علاقوں میں مقامی سطح پر بھی طالبان سے رابطہ کیا اور معاہدے کیے۔ تیسرا بڑا معاہدہ مالا کنڈ میں ہوا جس کے نتیجے میں حکومت کو بہت سارے انتظامی اور عدالتی اقدامات اٹھانے پڑے۔

حکومت نے سابقہ اورکزئی، خیبر، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، مہمند اور کرم ایجنسیوں میں مقامی طور پر بھی عسکریت پسندوں سے معاہدے کیے۔ ان معاہدوں کی وجہ سے تحریک طالبان مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی اور اس نے نا صرف قبائلی علاقوں میں بڑے بڑے حملے کیے بلکہ پشاور، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی کراچی اور سکھر سمیت ملک کے کئی اور علاقوں میں بھی دہشت گردی کی جان لیوا کارروائیاں کیں۔

پاکستان میں ایک طاقتور طبقہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنے کے لیے ریاستی پالیسی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن دیکھا گیا ہے کہ جب بھی ٹی ٹی پی اور اس کی دیگر سسٹر آرگنائزیشنز کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا گیا، انھوں نے خود کو ازسرنو منظم کیا، مزید طاقت حاصل کی۔ ریاست پاکستان کے ساتھ وفادار لوگوں کو گھات لگا کر قتل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، انتہا پسند گروہ اور دہشت گرد تنظیموں کے پشت پناہوں اور سہولت کاروں کو یہ غلط فہمی کہ حکومت کی رٹ چیلنج کرنا مشکل نہیں ہے اور حکومت کو چکر دینا بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے کیونکہ وہ ماضی میں یہ کھیل کھیلتے آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کارروائیاں کرنے والے دہشت گرد گروہ ابھی تک فعال ہیں۔

باغی اور دہشت گرد گروپوں کی قیادت اور سہولت کار گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں اور بچھو کی طرح ڈنک مارنے سے باز نہیں آتے۔ ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ ٹی ٹی پی مستقل طور پر افغانستان کے اندر سے پاکستان کی مسلح افواج اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہی ہے۔ صرف گزشتہ چند ماہ میں ٹی ٹی پی نے افغان سرزمین سے پاکستان پر 30 سے زائد حملے کیے ہیں جن میں ہمارے درجنوں جوان شہید ہوئے۔ افغان حکومت نے کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف اب تک کوئی سنجیدہ اور ٹھوس کارروائی نہیں کی، الٹا پاکستان کو حیلوں بہانوں سے قائل کر رہی ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ برابری کی بنیاد پر مذاکرات کرے۔ کیا ماضی میں بارہا وعدے توڑنے والی عسکریت پسند تنظیم پر اعتبار کیا جاسکتا ہے؟

قیام پاکستان کے بعد افغانستان دنیا کا واحد ملک تھا، جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی تھی، گزشتہ ستر برس سے افغانستان کے حکمران خواہ ان کا تعلق کسی بھی نظریے یا جماعت سے ہو، انھوں نے پاکستان کے مفادات کو کبھی اہمیت نہیں دی اور ہمیشہ دو عملی کا مظاہرہ کیا ہے۔ آج بھی افغانستان کی طالبان حکومت بھارت کے ساتھ رابطے میں ہے اور تعلقات بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے جب کہ پاکستان نے افغانستان اور افغانوں کے لیے عالمی سطح پر ترقی یافتہ ملکوں کی مخالفت مول لیے رکھی۔

ہماری ریاست کا مخمصہ یہ ہے کہ ایک طرف وہ پاکستانیوں کا قتل عام کرنے والی ٹی ٹی پی سے تو مذاکرات پر آمادہ ہے لیکن بلوچستان کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والی جماعتوں حتیٰ کے طالب علموں تک سے بات چیت تک کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ ان پرتشدد، جبر، دھونس اور دھاندلی کا ہر حربہ آزمایا جاتا ہے یہاں تک کہ جبری گمشدگیوں تک کا سلسلہ جاری ہے۔ علاقائی سطح پر ایک متوازن پالیسی معاشی سماجی اور سیاسی ترقی کو رفعت عطا کرتی ہے۔

ایک ہی ملک میں جب کچھ علاقے جدت کے شاہکار اور کچھ پسماندگی کا المیہ بن جائیں تو محرومیاں جنم لیتی ہیں۔ ان محرومیوں کی ابتدائی شکل پرتشدد احتجاج اور مطالبات کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ صورت حال میں بہتری کا امکان نہ رہے تو نسلی لسانی اور قوم پرست نظریات شدت کے ساتھ ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ بلوچستان کے جن علاقوں میں عسکریت پسند سرگرم ہیں وہاں کے لوگوں کی حالت قابل رحم ہے۔ بجلی ہے نہ پانی بچوں کے لئے سکول و کالج ہیں نہ ہسپتال اگر حکومت بنیادی سہولیات کی فراہمی کا کوئی منصوبہ شروع کرتی ہے تو با اثر سردار فنڈز کھا جاتے ہیں۔

ریاست کی مدد اور مہربانی عام لوگوں تک پہنچ نہیں پاتی۔ بلوچستان کے چند علاقے چھوڑ کر سارا صوبہ پسماندہ اور افلاس زدہ ہے۔ صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا انڈکس اور ترقیاتی پیمانوں میں بلوچستان باقی صوبوں سے مسلسل پیچھے نظر آتا ہے۔ یہاں میٹرو تو کیا کسی طرح کا ٹرانسپورٹ سسٹم موجود نہیں۔ کوئی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرتا جب تک اس کے تمام علاقے ترقی نہ کریں۔ قومی معیشت تب قدموں پر کھڑی ہوتی ہے جب تمام صوبے اور علاقے اپنی استعداد کے مطابق قومی ترقی میں حصہ ڈالیں۔ ٹیکس محاصل کے لئے پورا ملک کراچی کی طرف دیکھتا ہے۔ اناج کے لئے پنجاب سب سے زیادہ صلاحیت بروئے کار لاتا ہے۔ خیبر پختونخوا پھلوں کی کاشت اور سیاحت کے لئے اہمیت رکھتا ہے۔ بلوچستان میں معدنیات اور اب سی پیک گوادر کی بندرگاہ نے کلی طور پر اس علاقے کی اہمیت تبدیل کر دی ہے۔

حکومتوں کی کوتاہ اندیشی اور نا اہلی نے پاکستان کو بیرونی تنازعات سے زیادہ داخلی جھگڑوں میں الجھا دیا ہے۔ ملک کو سستی بجلی کی ضرورت ہے لیکن جہاں کم لاگت سے ڈیم بنایا جا سکتا تھا اسے سیاسی دشمنی نے متنازع بنا دیا۔ گوادر میں سینکڑوں ارب روپے کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔ کراچی لاہور پشاور اسلام آباد اور دوسرے شہروں کے دولت مند افراد نے مستقبل کے کاروباری منافع کو مدنظر رکھ کر گوادر میں بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اتنی بھاری سرمایہ کاری کے باوجود حکومت کی جانب سے گوادر میں صاف پانی کی فراہمی کا انتظام موجود نہیں سرکاری سطح پر کوئی ہسپتال ہے نہ یونیورسٹی۔

ایسے حالات میں گوادر کے لوگوں میں یہ احساس تقویت پکڑ سکتا ہے کہ وفاق ان کے وسائل کو غصب کر رہا ہے۔ مقامی آبادی کے احساس محرومی کی ایک جھلک حالیہ بلدیاتی انتخابات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ گوادر شہر میں ”حق دو تحریک“ نے تمام بڑی جماعتوں کو شکست دی۔ گوادر کے لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ایران سے آنے والی اشیا کو فروخت کرنے میں مشکلات ختم کی جائیں۔ یہ مطالبہ اس لحاظ سے معقول ہے کہ پاکستان کے دیگر علاقوں سے کھانے پینے اور ایندھن کی اشیا گوادر میں پہنچانا زیادہ مہنگا اور دقت طلب کام ہے۔ پاکستان کے تمام علاقوں کو مساوی ترقی سے ہمکنار کرنا ہی مسائل کا واحد حل ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کے عوام سے مل کر ہی یہ وطن بنتا ہے اور عوام ہی اصل محب وطن ہیں۔ لیکن شاید ہم نے بنگلہ دیش والی غلطی سے بھی کچھ نہیں سیکھا اور ماضی کا یہی عمل اب بلوچستان میں دہرایا جا رہا ہے۔ سوال تو بنتا ہے کہ آخر ریاست چلا کون رہا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments