برصغیر کے مسلمانوں کے مٹ جانے کا مہیب خطرہ


حضرت مجدد الف ثانیؒ کی اصلاحی کاوشوں سے اسلام اس کڑے وقت سے باہر نکل آیا تھا جو سولہویں صدی کے آخری عشروں میں اس پر آن پڑا تھا، لیکن مغلیہ حکمرانوں پر زوال آنے سے ملت اسلامیہ مقام فنا سے دوچار ہونے لگی تھی۔ پاکستان کے مایہ ناز مؤرخ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے اپنی تصنیف ”برعظیم پاک و ہند کی ملت اسلامیہ“ میں ان حالات کا قدرے تفصیل سے احاطہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اٹھارہویں صدی عیسوی میں ایک سطحی مشاہدے سے یہ حقیقت سامنے آ گئی تھی کہ برعظیم پر مسلمانوں کی گرفت باقی نہیں رہی۔

جہاں جہاں بھی مرہٹوں کے حملے ہوئے، ان سے ایک اوسط درجے کے مسلمان کو شدت سے یہ احساس ہو گیا تھا کہ اب اس کی املاک، اس کی زندگی حتیٰ کہ عزت و آبرو بھی محفوظ نہیں رہی۔ دہلی، جو مسلمانوں کی قوت کا مرکز چلا آ رہا تھا، اس کے گرد و نواح میں سکھوں اور جاٹوں کی غارت گری نے زندگی مخدوش اور غیرمحفوظ بنا دی تھی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس زمانے کے مسلم امرا کی بدترین خودغرضی کے باعث صفدر جنگ نے بادشاہ احمد شاہ کے خلاف بغاوت کر دی اور وہ جاٹوں سے امداد طلب کر کے انہیں دہلی کے نواح میں لے آیا۔ اس موقع پر شاہ جہاں آباد کی مسلم آبادی کو شدید مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک عرصے تک آبروریزی، قتل و غارت اور لوٹ مار اس علاقے کا مقدر بنے رہے اور بہت سوں نے خودکشی ہی میں پناہ لی۔

اسی دور میں سکھ سرہند اور سہارنپور کے علاقوں میں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتے رہے۔ یہ ابھرتی ہوئی صورتیں ملت کا وجود ختم کرنے کے درپے تھیں۔ کوئی امید، کوئی مستقبل اور کوئی علاج نظر نہیں آتا تھا۔ اس مرحلۂ ابتلا میں اللہ تعالیٰ نے برصغیر کے مسلمانوں کو حضرت شاہ ولی اللہؒ کی قیادت عطا فرمائی جنہوں نے حالات کا گیرائی سے جائزہ لے کر مرض کی تشخیص کی اور قوت عمل سے تاریخ کا دھارا یکسر بدل ڈالا۔ وہ اورنگ زیب کی وفات سے چار برس پہلے 1703 میں پیدا ہوئے۔

ان کے والد جناب عبدالرحیمؒ بہت بڑے عالم دین اور بلند پایہ صوفی تھے جو معصیت بھرے ماحول سے محفوظ رہنے کے لیے گوشہ نشین ہو گئے تھے، البتہ انہوں نے معروف کتاب ”فتاویٰ عالمگیری“ کی ترتیب و تدوین میں بادشاہ سے تعاون کیا۔ وہ ’مدرسہ رحیمیہ‘ کے بانی تھے اور شریعت اور تصوف کے درمیان کشمکش دور کرنے کی نہایت عمدہ کوشش کرتے رہے۔ یوں مصالحت کی روح ان کے بیٹے حضرت شاہ ولی اللہؒ کو ورثے میں ملی جنہوں نے کم عمری میں مدرسے سے فارغ التحصیل ہو کر اسی میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ پھر مزید مطالعے اور تحقیق کی غرض سے وہ مدینہ منورہ چلے گئے جہاں انہوں نے پندرہ مہینے ایک فاضل عالم دین شیخ ابو طاہر سے فیض پایا۔ اس کی بدولت ان کی وسیع النظری میں بے پایاں اضافہ ہوا۔ 9 جولائی 1732 کو دہلی واپس آنے پر ان کی زندگی کے سب سے زیادہ نتیجہ خیز دور کا آغاز ہوا۔

حضرت شاہ ولی اللہؒ کو ایک ممتاز عالم دین کی حیثیت سے نمایاں ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ محمد شاہ جیسے ناکارہ بادشاہ نے بھی دارالحکومت کی چار دیواری کے اندر مدرسہ رحیمیہ کے لیے ایک عمارت دے کر ان کی قدرومنزلت کا اعتراف کر لیا تھا۔ وہ جب مدینہ منورہ میں تھے، تو انہیں برصغیر کی ملت اسلامیہ کے مستقبل کے متعلق اس قدر تشویش لاحق تھی کہ ایک باطنی مشاہدے میں انہیں اس امر کا یقین حاصل ہوا کہ ملت کے مستقبل کو خطرات سے بچانا ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہو چکا ہے، چنانچہ وہ فوری خطرات سے نبردآزما ہونے کے لیے کمربستہ ہو گئے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب مسلم دشمن داخلی طاقتوں کے علاوہ تین بڑی بیرونی قوتیں بھی برصغیر میں حصول اقتدار کے لیے زور آزمائی کر رہی تھیں۔ برطانیہ، فرانس اور پرتگال ہندوستان کے اندر قدم جمانے کے لیے مقامی طاقتوں سے بیک وقت محاذ آرائی اور سازباز کر رہے تھے۔ ان کے علاوہ افغانستان سے نکالے ہوئے روہیلے ایک تازہ دم فوج کے طور پر اپنی طاقت کا لوہا منوا رہے تھے۔

ایک منظم حکومت کا نظم و نسق مفقود ہونے کے سبب امرا نے اپنے اپنے علاقوں میں چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم کر کے مرض کی شدت میں اضافہ کر دیا تھا اور برعظیم کے مسلمان ایک سالم اور متحد ملت کی حیثیت سے گر کر ایک مجبور اور لاچار ہجوم کی صورت اختیار کر گئے تھے۔ اس نازک مرحلے میں حضرت شاہ ولی اللہؒ میدان عمل میں اترے۔ پہلے انہوں نے بادشاہ کو خواب غفلت سے جگانے کی سرتوڑ کوشش کی، مگر ناکام رہے۔ پھر امرا کو بگڑتی ہوئی صورت حال کا احساس دلاتے رہے، مگر وہ صائب مشورہ سننے کی اہلیت ہی کھو بیٹھے تھے۔ اس کے بعد شمالی ہند کی سیاسیات میں واحد عنصر جس سے کچھ امید ہو سکتی تھی، روہیلوں کا تھا جو پکے مسلمان، آزمائے ہوئے جنگ جو اور سادہ عادات کے امین تھے۔

اس وقت نجیب اللہ ان کے نہایت طاقت ور اور با اصول سردار تھے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ ان کے ذریعے افغانستان کے حکمران احمد شاہ ابدالی کا تعاون حاصل کرنے کے خواہش مند تھے جو ان کے علم و فضل سے بہت متاثر تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ کے سیاسی خطوط کی روشنی میں آخرکار نجیب اللہ افغانستان کے اس قابل فرمانروا کی قیادت میں مرہٹوں کی غالب آنے والی طاقت کے خلاف شمالی ہند کی مسلم حکومتوں کا اتحاد منظم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ 1761 میں پانی پت کے میدان میں مسلم فوجوں نے فیصلہ کن برتری حاصل کر لی۔ اس عبرت ناک شکست کے بعد مرہٹے اپنی کھوئی ہوئی طاقت بحال نہیں کر سکے تھے۔

پانی پت میں مسلم افواج کی فتح حضرت شاہ ولی اللہؒ کی سیاسی جدوجہد کی مختصر المیعاد لائحہ عمل کی معراج تھی کیونکہ اگلے ہی سال ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے اس لائحہ عمل سے شمالی ہند کے مسلمان فنا کے خطرے سے بچ بھی گئے اور اس کے ساتھ انہیں اپنی بقا کا خاکہ بھی میسر آ گیا تھا۔ (جاری ہے )

وضاحت: شیخ احمد سرہندی انسائیکلوپیڈیا کے مؤلف پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد پاکستان کے شہری تھے اور کراچی میں ان کا وسیع روحانی سلسلہ قائم ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments