بجلی کا بل آیا تو فطرت کا قرب پایا


جون کی آخری سے پہلی شب ہے اور دس بجنے کو ہیں۔ میرے گردا گرد پھیلی فضا کا بدن تپ رہا ہے۔ کوئی بھولا بھٹکا ہوا کا جھونکا کبھی آ نکلتا ہے تو بدن کے نم مساموں کو قدرے راحت دے جاتا ہے۔ برقی رو تعطیل پر ہے۔ دیوار کے ساتھ کھڑے آم اور جامن کے پیڑ اور ان کے پیچھے دیواروں پر چڑھی بیلوں کے پتے دم بہ خود ہیں۔ کسی جھونکے کے منتظر جو دن بھر کی تمازت سے نڈھال پتوں کو ارتعاش سے ہم کنار کرے۔

یہ منظر میرے گھر کے صحن کا ہے۔ آج بڑے دنوں بعد میں نے شام ڈھلنے کے بعد یہاں ڈیرا لگایا ہے۔ پچھلی گرمیوں میں میری شامیں یہیں رات میں ڈھلا کرتی تھیں۔ میں نے پچھلے برس یہاں دیوار پر ایک اضافی بلب لگوایا تھا کہ رات میں کوئی کتاب پڑھ سکوں۔ اب کے برس گرمی مارچ ہی میں اتر آئی تو زندگی کمرے میں مقید رہی۔ پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ سے کہ جب عمران خان جاتے ہوئے ساری بجلی اپنے ویسٹ کوٹ کی جیب میں ڈال کر لے گئے، تب بھی لوڈ شیڈنگ کا گھنٹہ بھر گزر ہی جاتا ہے کہ کمرے میں خنکی کے آثار برقرار رہتے۔

تاہم آج میں نے پھر سے بہ اہتمام شام اور رات کا ابتدائی حصہ یہاں گزارنے کا پروگرام بنایا۔ آج صبح بجلی کا بل موصول ہوا جسے دیکھ کر میں اور عالیہ خاصی دیر کو گم سم ہو گئے۔ چنانچہ فطرت کے ساتھ میری خوابیدہ محبت بیدار ہوئی اور میں نے شام صحن میں گزارنے کا سبب کیا۔ بیگم نے چارپائی بچھا کر اس پر کھیس کا بستر کر دیا۔ میں نے اوپر والے سٹور سے وہ پیڈسٹل فین نکال کر جھاڑا جو بیس برس پہلے ابا جی نے چوبرجی سے خرید کر ہمیں گفٹ کیا تھا اور ہم سمن آباد والے اپر پورشن کے صحن میں لگا کر گرمیوں کی شامیں گزارا کرتے تھے۔ واضح ہو کہ بیس برس پہلے یہ پنکھا خریدتے ہوئے ابا جی نہ کہا تھا یار کتنا ہلکا مال لگانے لگے ہیں پنکھوں والے، کوئی وزن ہی نہیں۔ آج کے پنکھوں سے بھی ہمیں یہی شکایت ہے کہ اپنا آپ بھی نہیں سنبھال سکتے اور چلتے چلتے منہ کے بل گر جاتے ہیں۔ اس کو نیچے لاتے ہوئے اچھی خاصی مشقت ہو گئی۔

پنکھا لگا کر میں دو تکیے رکھ کے لیٹ گیا اور محمد خالد اختر کا افسانہ ”ننھا مانجھی“ پڑھا۔ دریائے سندھ اور اس کے پڑوس میں رہنے والوں کی زندگی کی کیا خوبصورت منظر کشی کی ہے۔ مجھے اشو لال یاد آئے

دریا او دریا، پانی تیڈے ڈونگھے
توں ساڈا پیو ما، اساں تیڈے پونگے

(اے دریا تو گہرے پانی رکھتا ہے۔ ہم تیرے بچے ہیں کہ تجھ سے رزق حاصل کرتے ہیں اور تو ہمارے لئے والدین جیسا ہے ) افسانہ ختم کر کے ابھی اس کے سحر میں تھا کہ ساڑھے نو ہوئے اور لائٹ چلی گئی۔ اندھیرے اور خاموشی کا راج ہوا مگر دیوار پرے جو مسجد ہے وہاں ابھی عشا کی نماز شاید ختم نہ ہوئی تھی۔ ایک بھدی پھٹی ہوئی آواز والا جنریٹر چل پڑا۔ اڑھائی سو روپے لٹر پٹرول ہونے کے بعد جنریٹر چلانے کی سکت مساجد ہی میں رہ گئی ہے۔ مسجد کے صحن کی روشنیوں نے آسمان کا نظارہ غارت کر دیا۔

خیر! پندرہ منٹ بعد جنریٹر بند ہو گیا۔ میرے ارد گرد خامشی چہل قدمی کرنے لگی۔ گرد و پیش میں اندھیرا ہوا تو آسمان روشن ہو گیا۔ ستارے جو شہروں کے آسمان سے روٹھے رہتے ہیں، ٹمٹمانے لگے۔ میں نے فون میں جگجیت سنگھ کا فولڈر کھولا اور کیف بھوپالی کی غزل لگا دی

کون آئے گا یہاں، کوئی نہ آیا ہو گا
میرا دروازہ ہواؤں نے ہلایا ہو گا

میں چت لیٹا تھا، نظریں آسمان پر تھیں۔ ستاروں کے موتی آسمان کے آنچل پر جگمگاتے تھے۔ قریب کے خوب واضح اور چمکدار ستاروں کے پیچھے دور ایک ہلکے نیلے رنگ کا غبار تھا۔ مجھے یاد آیا یہ اینڈرومیڈا کے ستارے ہیں۔ میری کہکشاں ملکی وے کی پڑوسی کہکشاں اینڈرومیڈا۔ فلکیات کا علم رکھنے والے بتاتے ہیں کہ یہ ہم سے اڑھائی ملین (پچیس لاکھ) نوری سال کے فاصلہ پر ہے۔ گویا تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے اگر آپ کسی طور سفر کر سکیں تو اینڈرومیڈا تک پچیس لاکھ سال میں پہنچیں گے۔

یہ جو غبار ہے اور بہت غور سے دیکھنے پر جو ننھے ننھے نکتے سے نظر آتے ہیں، یہ ان کی پچیس لاکھ سال پہلے والی پوزیشن ہے، کیونکہ آج ان کو جو میں روشن دیکھ رہا ہوں تو یہ روشنی پچیس لاکھ سال کا سفر طے کر کے مجھ تک پہنچی ہے۔ اگر میں یہ دیکھنا چاہوں کہ آج یعنی 29 جون 2022 ء کی شب یہ کس حال میں ہیں تو مجھے پچیس لاکھ سال انتظار کرنا ہو گا۔

میری عمر کتنی مختصر ہے اور میں کتنا حقیر اور بے حیثیت ہوں۔ ہیں تو سب اندازے مگر اس کائنات کی عمر چودہ ارب سال بتائی جاتی ہے۔ ہماری کہکشاں ملکی وے میں دو سو ارب سے زائد سیارے ستارے ہیں۔ معلوم کائنات میں ایسی دو سو ارب اور کہکشائیں ہیں۔ چودہ ارب سال سے، جب سے بگ بینگ کا دھماکا ہوا، یہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔ کہکشائیں اک دوجے سے دور جا رہی ہیں۔ اپنی زمین پر بیٹھ کر ہبل ٹیلی سکوپ سے ہم جس طرف بھی دیکھیں ہماری نظر کی حد چھیالیس ارب نوری سال تک ہے۔ گویا ایک سے دوسرے کنارے تک بانوے ارب نوری سال کا فاصلہ ہم معلوم کر پائے ہیں۔ کائنات اس سے بھی آگے خدا معلوم کہاں تک ہے۔

اب اس کائنات میں سیاروں کا اندازہ کریں اور اس میں اپنی زمین کی حیثیت کا اندازہ لگائیں۔ اس زمین پر بسنے والی کروڑ ہا مخلوقات میں سے ایک مخلوق انسان اور ساڑھے سات ارب انسانوں میں سے ایک میں۔ اتنی بے وقعتی! ایسی بے حیثیتی! میں سرکش ہو بھی جاؤں تو اتنی بڑی کائنات کے مالک کا کیا بگاڑ سکتا ہوں اور اگر سجدے میں پڑا رہوں تو اس کا کیا سنوار سکتا ہوں؟

میں نے آنکھیں بند کر لیں اور دونوں بازو پھیلا دیے۔ یکایک میرے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کی پوریں چھیالیس ارب نوری سال کی دوری سے آگے کے خلا کو چھونے لگیں۔ مجھے لگا اگر میں بازو سمیٹوں تو پوری کائنات کو اپنی بانہوں میں بھر سکتا ہوں۔ کائنات میں سب سے تیز رفتار روشنی نہیں انسان کا تخیل ہے جو کھربوں نوری سال کا فاصلہ ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں طے کر لیتا ہے اور اسی تخیل نے مجھے انسان بنایا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments