ورکنگ وومن اور مرد کی سوچ


نیا پاکستان تبدیلی والا پاکستان۔ کون سی تبدیلی؟ مہنگائی، بیروزگاری، غربت، منافقت، مادیت پسندی، کرپشن کا بڑھنا تبدیلی ہے یا پھر احساس، خلوص، نیک نیتی، محنت، عاجزی، اچھی خوراک، تعلیم، بجلی اور بہت سارے عناصر میں کمی تبدیلی ہے؟ نیا پاکستان ہو یا پرانا سب کچھ وقت کے ساتھ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اگر کوئی ایک چیز جس پر کوئی اثر نہیں ہوا وہ ہے ہماری سوچ۔

ہمارا ذہن کچھوے سے بھی زیادہ سست روی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ شاید تبدیلی سے اس کو خوف آتا ہے۔ مجھے لگتا ہے تبدیلی کی سب سے زیادہ ضرورت بھی اسی کو ہے۔ کسی انسان کو خود کو بدلنے کے لیے سب سے پہلے اپنے ذہن کو بدلنا پڑتا ہے۔ لوگوں کی سوچ بدلے گی ۔تو ان کے کردار میں تبدیلی آے گی کردار بدلے گا تو ان کی عادات تبدیل ہوں گی جو معاشرہ میں تبدیلی کا باعث بنیں گی

وقت و حالات نے جہاں رسموں رواج تبدیل کر دیے ہیں ویسے ہی عورت کا معاشرے میں مقام اور کردار بھی بدل رہا ہے۔ پہلے وقتوں میں روزی روٹی مرد کے ذمے اور گھر اور بچے عورت کی ذمہ داری تھے۔ اب حالات ویسے نہیں رہے۔ اب گھر چلانا، بچوں کو اچھا کھانا، تعلیم اور بہتر معیار زندگی دینا اکیلے مرد کے بس کی بات نہیں رہا۔ دن بدن بڑھتی ہوئی مہنگائی اور مادیت پسندی کی وجہ سے عورت کو بھی کام کرنا پڑتا ہے۔ اب عورت کے کام صرف گھر اور بچوں تک محدود نہیں ہے۔

اس کی ذمہ داری ڈبل ہو چکی ہے۔ آج کی عورت ایک کام کرنے والی مشین بن چکی ہے۔ گھر سے باہر کم سے کم بھی 6 سے 8 گھنٹے کی جاب یا بزنس، اور ان گھنٹوں میں نجانے کتنے مسائل، زبانی بدسلوکی سے لے کر ہراساں کیے جانے تک کا سامنا کرتی ہے۔ گھر آ کر ماں باپ بہن بھائی شوہر بچے سسرال گھر کے کام کاج کرتی ہے۔ دہری ذمہ داری سے اس کی ذہنی صحت متاثر ہو رہی ہے۔ اسی وجہ سے تو کام کرنے والی عورتوں میں ڈپریشن کی علامات گھر میں رہنے والی عورتوں سے زیادہ ہیں۔

جب عورت دوہری ذمہ داری نبھا سکتی ہے تو مرد کو بھی اپنی سوچ اور رویہ میں تھوڑی تبدیلی لانی ہو گی۔ اس کو بھی گھر کے کام کاج میں بیوی کی مدد کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنا چاہے۔ اگر عورت کے مقام اور کردار میں تبدیلی اے ہے تو مرد کو بھی دوہری ذمہ داری کا احساس ہونا چاہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہیلپنگ شوہر پے رن مریدی کا ٹھپا لگا دیا جاتا ہے۔

”آفس سے آیا ہے تھکا ہوا آرام کرنے دو “
”آفس سے آ گئی ہو تو کھانا اور گھر کے کچھ کام ہی کر لو“

اس سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہمارے معاشرے کی عورت آج بھی اپنے حق کے لیے کھڑے ہونے سے ڈرتی ہے۔ آج بھی عورت کسی مرد کے خلاف آواز اٹھانے سے خوفزدہ ہے۔ آج بھی بہت عورت ظلم سہتی ہے اور خاموش رہتی ہے۔ اپنے جذبات احساسات کو روند کر دوسروں کو فوقیت دیتی ہے۔ شاید اس لیے کہ یہ میل ڈومینیٹڈ سوسائٹی ہے اور مرد کو عورت ہمیشہ مجبور محکوم بے بس ہی اچھی لگتی ہے روتی ہوئی۔ یہاں پراعتماد اور مضبوط رائے رکھنے والی  عورت کو اچھا نہیں سمجھا جاتا بلکہ مرد کے مدمقابل سمجھا جاتا ہے۔ اس پر بدزبانی یہاں تک کہ بہت مرتبہ بدکرداری کا بھی ٹھپا لگا دیا جاتا ہے۔

جہاں تک میرا ذاتی خیال ہے مرد ہر مضبوط رائے رکھنے والی عورت سے متاثر ضرور ہوتا ہے یا پھر جو اس کا احساس برتری ہے وہ اس کو خوفزدہ تو کر دیتا ہے۔ مرد کا عورت پر جو احساس برتری ہے اس کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کو سمجھنے کی ہے کہ مرد اور عورت ایک ہی کار کے دو پہیے ہیں اور یہ کار تب ہے ٹھیک چلے گی جب دونوں پہیے ایک ساتھ مل کر ایک ہی رفتار سے گھومیں گے۔

کسی بھی برتری یا کمتری کے احساس کو ذہن سے نکال کر ہی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ سوچ میں تبدیلی اے گی تو شاید ہمارے ملک کے حالات بھی تبدیل ہو جائیں۔

اب پلیز میری اس بات سے خوفزدہ ہو کر یہ مت سوچنا کہ مرد کو کمتر یا عورت کو برتر بنانے کا کہہ رہی ہوں ایسا ہرگز نہیں ہے میں صرف برابری کی بنیاد پر ایک دوسرے کا احساس کرنے کا بول رہی ہوں۔ اگر عورت آپ کا معاشی طور پر ہاتھ بٹانے کے لیے نکلتی ہے تو آپ بھی اس کا ساتھ دیں۔ نہ کہ اس کو ذہنی مریض بنا دیں۔ آپ کا اور میرا اسلام بھی مساوات کا ہی درس دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments