اسرائیل: سابق ٹی وی میزبان اور نگراں وزیر اعظم یائر لیپڈ کون ہیں؟

یونل کینڈل - بی بی سی نیوز یروشلم


Yair Lapid speaks at the Israeli parliament (20 June 2022)
یائر لیپڈ ٹی وی پر میزبانی بھی کر چکے ہیں
10 سال قبل جب یائر لیپڈ ٹی وی پر سیاسی بحث و مباحثے کے ایک پروگرام کی میزبانی کرتے کرتے خود سیاست دان بن گئِے تھے اس وقت سے اسرائیل کا وزیر اعظم بننا ان کا خواب تھا۔

اب نگراں کی حیثیت سے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ مستقل طور پر وزیر اعظم کے اعلیٰ ترین منصب کی اہم ذمہ داریاں نبھانے کے اہل ہیں، کیونکہ ملک میں چار سال سے کم عرصے میں پانچویں مرتبہ انتخابات کے انعقاد کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

سابق شوقیہ باکسر کو یقینی طور پر قدامت پسند بن یامین نیتن یاہو کے سیاسی حربوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نیتن یاہو اسرائیل کے سب سے طویل عرصے تک وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہنے والے رہنما ہیں۔ انہوں نے سنہ 2021 میں نظریاتی طور پر آٹھ متنوع سیاسی جماعتوں کے درمیان غیر قدرتی اتحاد بنا کر کامیابی کے ساتھ حکومت چلائی تھی۔

پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے ووٹ کے بعد، مسٹر لیپڈ نے، جو وزیر خارجہ رہ چکے ہیں، دائیں بازو کے مذہبی قوم پرست نفتالی بینیٹ کے ساتھ اقتدار میں شراکت داری کی وجہ سے عہدہ سنبھالا، جو گزشتہ ایک سال سے وزیر اعظم تھے۔

وہ کم از کم ایک عبوری مدت کے لیے سرکاری امور سر انجام دیں گے جب تک کہ اکتوبر یا نومبر میں ہونے والے انتخابات کے بعد نئی حکومت قائم نہیں ہو جاتی اور ممکنہ طور پر اس کے بعد اگر کوئی اتحاد نہیں بنتا۔

مخلوط حکومت کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے نفتالی بینٹ کے پہلو میں کھڑے ہو کر انہوں نے کہا کہ ‘یہاں تک کہ اگر ہم چند مہینوں میں انتخابات میں جا رہے ہیں، ملک کو درپیش چیلنجز انتظار نہیں کریں گے۔’

نفتالی بینٹ کی حکومت باہمی سیاسی اختلافات کا شکار ہونے کی وجہ سے چل نہیں پائی اور پارلیمان میں جو بہت معمولی سی اکثریت اسے حاصل تھی وہ برقرار نہیں رہ سکی۔

ان کے خطاب سے ایسے محسوس ہوا کہ وہ اپنی انتخابی مہم شروع کر چکے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کو درپیش مسائل گنواتے ہوئے کہا کہ مہنگائی، قومی سلامتی کو لاحق خطرات کے علاوہ لبنان اور ایران ان میں شامل ہیں۔

مسٹر نیتن یاہو جو بدعنوانی کے الزامات میں مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں ان پر تنقید کا نشتر چلاتے ہوئے یائر لیپڈ نے کہا کہ وہ ‘اسرائیل کو ایک غیر جمہوری ریاست میں تبدیل کرنے کی دھمکی دینے والی قوتوں کے خلاف کھڑے رہنے کے بارے میں پر عزم ہیں۔‘

Yair Lapid, leader of the Yesh Atid party, visits a polling station in the Israeli coastal city of Netanya on 22 January 2013

یائر لیپڈ کی جماعت نے گزشتہ انتخابات میں غیر متوقع کارکردگی دکھائی

سنہ 1963 میں یائر لیپڈ تل ابیب میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ ایک مصنفہ تھیں جبکہ ان کے والد ہولوکاسٹ سے بچ جانے والے ایک صحافی بھی تھے جنہوں نے سیاست میں قدم رکھا اور وہ سیکولرازم کے واضح حامی کے طور پر جانے جاتے تھے۔

اپنی فوجی سروس کے دوران مسٹر لیپڈ نے ایک فوجی میگزین کے رپورٹر کے طور پر کام کیا۔ وہ یونیورسٹی نہیں گئے لیکن ٹیلی ویژن میں آنے سے پہلے انہوں نے اخبارات کے کالم، کتابیں اور اسکرپٹ لکھے اور گانے ترتیب دیئے حتیٰ کہ اپنی مردانہ وجاہت کی وجہ سے فلموں میں اداکاری بھی کی۔

ایک ٹی وی نیوز اینکر کے طور پر، انہوں نے انٹرویوز میں اقتدار میں رہنے والوں کو کامیابی سے چیلنج کیا۔ اگرچہ کئی برس تک ان کے ایک شو کی ویڈیو فوٹیج ان کے لیے پریشان کا باعث بنی رہی۔ بن یامین نیتن یاہو کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران، جو اس وقت وزیر خزانے تھے، مسٹر لیپڈ نے اعتراف کیا کہ وہ معاشیات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔

اس کے باوجود مسٹر لیپڈ کے سیاسی کیرئیر کا آغاز سنہ 2011 میں سماجی و اقتصادی مظاہروں کی وجہ سے ہوا تھا۔ انہوں نے اپنی یش عطید (مستقبل ہے) پارٹی بنائی جس نے عام آدمی کے روزگار کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا اور متوسط طبقے کے مسائل کے حل کا عہد کیا۔

یہ بھی پڑھیے

اسرائیل کے انتخابات میں ’کوئی واضح فاتح نہیں‘

اسرائیل کے غیر فیصلہ کن نتائج کے بعد کیا ایک عرب جماعت ’کِنگ میکر‘ ثابت ہوگی؟

اسرائیل: نئی حکومت میں ’کنگ میکر‘ عرب رہنما منصور عباس کا کردار

سنہ 2013 کے انتخابات میں انہوں نے زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رہائش کے اعلیٰ اخراجات، تعلیمی اصلاحات، اور الٹرا آرتھوڈوکس یعنی انتہائی قدامت پسند یہودی کمیونٹی کے لیے فوجی خدمات سے چھوٹ کو ختم کرنے پر توجہ مرکوز کی جس پر بہت سے سیکولر اسرائیلی ناراض تھے۔

یش عطید نے بالآخر مسٹر نیتن یاہو کی لیکود پارٹی کی قیادت میں اتحاد میں شمولیت اختیار کی۔ مسٹر لیپڈ سنہ 2014 کے اواخر تک وزیر خزانہ رہے، جب دونوں افراد کے درمیان تناؤ ان کی برطرفی کا باعث بنا۔

انتخابات کے بعد یائر لیپڈ نے خود کو ایک اپوزیشن لیڈر کے طور پر پیش کیا، جو اکثر وزیر اعظم کے ساتھ جھگڑتے رہتے تھے۔ 2018 میں، جب پولیس نے مسٹر نیتن یاہو کے خلاف بدعنوانی کے الزامات میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی تو یائر لیپڈ کو کلیدی گواہ کے طور پر نامزد کیا گیا۔

Benjamin Netanyahu (L) hugs Yair Lapid (R) during a Knesset session on 18 March 2013 in Jerusalem

یائر لپیڈ کچھ عرصہ تک بین یامین کی حکومت میں وزیرِ خزانہ کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرتے رہے ہیں

وزیر اعظم کے طور پر یائر لیپڈ کو امریکی صدر جو بائیڈن کا اگلے ماہ اسرائیل کے دورے کے دوران ان کی میزبانی کرنے اور ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہو گا۔

جب فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے طویل عرصے سے جاری تنازع کے اہم مسئلے کی بات کی جائے تو ان سے اپنے حالیہ پیشروؤں کے مقابلے میں زیادہ معتدل نقطہ نظر کی توقع کی جا سکتی ہے۔ مسٹر لیپڈ نے دو ریاستی حل کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ تاہم، وہ کچھ بنیادی نکات پر سمجھوتہ نہیں کرتا ہے۔

اس نے پہلے ایک انٹرویو میں انہوں نے مجھ پر واضح کیا تھا کہ یروشلم کو اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت رہنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہر کے مشرق میں فلسطینیوں کے دعوے، ان کی مستقبل کی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر ‘مکمل طور پر جعلی’ ہیں جس کی ‘کوئی تاریخی سند نہیں ملتی۔’

جب کہ بن یامین نیتن یاہو، اپنی چھٹی مدت کے لیے عہدہ سنبھالنے کے خواہاں ہیں اور وہ اپنے حریف کو سیکیورٹی کے معاملات پر کمزور قرار دینے کی کوشش کریں گے۔ خاص طور پر جب بات ایران اور دہشت گردی کی ہو، تو یائر لاپڈ کے لیے چیلنج یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ اسرائیل کو اس کے دشمنوں سے بچا سکتے ہیں اور ملکی سلامتی کو فروغ دے سکتے ہیں۔

اپنے مخالفین کی طرف سے انہیں ایک محدود، مراعات یافتہ تل ابیب اشرافیہ کے نمائندے کے طور پر پیش کرنے کی کوششوں کا توڑ بھی انہیں کرنا ہو گا۔

اگرچہ وہ الٹرا آرتھوڈوکس پارٹیوں کی طرف سے شدید ناپسندیدہ کیے جاتے ہیں، مسٹر لیپڈ نے دکھایا ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مختلف نظریات کے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں۔

ایک ایسی حکومت نے جس میں پہلی مرتبہ عرب مسلمانوں کی ایک جماعت شامل تھی سیاسی تقسیم کے دور میں اپنی ہمہ گیریت کے لیے عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کی۔ اس کی کامیابیوں میں کورونا وائرس کی وباء کے دو حملوں کا مقابلہ کرنے، تین سال سے زیادہ عرصے میں اسرائیل کا پہلا بجٹ منظور کروانے اور واشنگٹن اور عرب اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا شامل ہے۔

عوامی رائے عامہ کے جائزے فی الحال یہ بتاتے ہیں کہ لیکوڈ اگلے انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں جیت لے گی لیکن اپنے شراکت داروں کے ساتھ اور اسے پارلیمنٹ میں حکومتی اکثریت حاصل نہیں ہو گی۔.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments