اودے پور کے مسلمانوں کی رائے: ’جس نے کیا اسے سزا مل رہی ہے، دوسرے کیوں پس رہے ہیں؟‘

نتن سرواستو - بی بی سی کے نامہ نگار، اودے پور


رشیدہ بیگم
رشیدہ بیگم
دو بڑے دروازوں کے سامنے راجستھان پولیس کے دو درجن مسلح اہلکار تیار کھڑے ہیں۔ ایک تنگ سڑک نے سب کی توجہ حاصل کی ہوئی ہے اور یہاں انتظامیہ کی طرف سے اتنی سختی ہے کہ گذشتہ تین دنوں میں تو کوئی پرندہ بھی اپنی مرضی سے یہاں پر نہیں مار سکا ہے۔

اودے پور کا یہ علاقہ ہاتھی پول کہلاتا ہے اور یہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ کنہیا لال درزی کو یہاں کی ایک گلی میں دو مسلم نوجوانوں نے بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔

علاقے میں کرفیو لگا ہوا ہے۔ نیشنل انویسٹیگیٹو ایجنسی (این آئی اے) ان دو زیرِ حراست مسلم نوجوانوں سے پوچھ گچھ کر رہی ہے جنھوں نے مبینہ طور پر کنہیا لال کو قتل کیا تھا۔

اودے پور سمیت پوری ریاست میں انٹرنیٹ کی سہولت بند کر دی گئی ہے اور یہاں کی سڑکیں سنسان پڑی ہیں۔ جو لوگ مجبوراً اپنے گھروں میں رہ رہے ہیں وہ بھی اس واقعے کے بعد ابھی تک صدمے میں ہیں۔

قتل کرنے والے دونوں نوجوان مسلمان تھے اور قتل کی ویڈیو بناتے ہوئے انھوں نے اسے بی جے پی کی سابق ترجمان نوپور شرما کے پیغمبر اسلام کے بارے میں متنازعہ بیان کا بدلہ کہا تھا۔

علاقے کی مسلمان برادری میں اس واقعے کے بعد کافی تشویش پائی جاتی ہے۔

پرانے شہر کے رہائشی ریاض حسین نے کنہیا لال کے قتل کے بعد علاقے میں ہجوم کا غصہ دیکھا ہے۔

انھوں نے کہا کہ’ آپ جہاں میرے گھر کے باہر کھڑے ہیں، اسے ایک دن پہلے اس رات کو بری طرح سے تباہ کیا گیا تھا، میری گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا، ہمسائیوں کی بھی تین گاڑیاں جلا دی گئیں۔‘ कन्हैयालाल: उदयपुर में हिन्दू दर्ज़ी की हत्या पर विदेश से आ रही हैं प्रतिक्रियाएं

ریاض حسین

ریاض حسین

اگر 2011 کی مردم شماری کو دیکھا جائے تو راجستھان کی طرح اودے پور میں بھی تقریباً 10 فیصد مسلم آبادی ہے۔

لیکن اس واقعے کے بعد بی بی سی کی ٹیم جتنے بھی مسلم علاقوں میں گئی، پہلی بات جو ہم نے نوٹس کی وہ یہ تھی کہ لوگ اس واقعے پر کھل کر بات نہیں کرنا چاہتے تھے اور دوسرا وہ کیمرے کے سامنے بالکل ہی نہیں آنا چاہتے تھے۔

انھوں نے اپنے دروازے اور کھڑکیاں بند کر لیں اور اگر کیمرے کے سامنے آ بھی گئے تو وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے مسلمان نام بتائے جائیں۔

شہر کے گنجان کہارواڑی علاقے میں اپنے گھر کے سامنے چبوترے پر بیٹھے ہوئے محمد فیروز منصور بی بی سی کے ساتھ بات کرنے پر راضی ہوئے۔

انھوں نے کہا: ’روز مرہ زندگی میں عام آدمی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کچھ پاگل لوگوں کی وجہ سے ایسا واقعہ رونما ہوا اور ہر آدمی کو اس کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ہم سب اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ سب کچھ چھوڑ جائیں، گھر چھوڑ جائیں، علاقہ چھوڑ جائیں؟ کیا کریں؟ ہمارے اندر بہت خوف ہے۔‘

محمد فیروز منصور

محمد فیروز منصور

ایک سال میں راجستھان کتنا بدل گیا ہے

راجستھان میں فرقہ وارانہ تشدد کی تاریخ بہت پرانی نہیں ہے۔ تاہم گزشتہ ایک سال میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کرؤلی، الور، جودھ پور اور اب اودے پور میں پیش آئے ہیں جن کی وجہ سے عام عوام میں کافی پریشانی پائی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اقلیتوں کو اس سے زیادہ فرق پڑتا ہے۔

کنہیا لال کیس: عینی شاہد نے کیا دیکھا اور پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے میں کیسے کامیاب ہوئی؟

جودھ پور، الور اور اب اودے پور، راجستھان کے شہروں میں کیا ہو رہا ہے؟

اودے پور میں ہندو درزی کا قتل، بین الاقوامی سطح پر ردعمل

اودے پور کے پرانے علاقے میں رہنے والی ایک ماں اپنے بچوں کے مستقبل اور اس طرح کے واقعات کے ان کے ذہنوں پر اثر کی وجہ سے پریشان ہے۔

انھوں نے، جن کا نام گلاب بانو تھا، کیمرے کے سامنے آ کے بات کی۔ انھوں نے کہا: ’ہم یہاں پلے بڑھے ہیں لیکن اس طرح کی کوئی بات پہلے نہیں دیکھی۔ ہم خود گھبراہٹ کا شکار ہیں، کیونکہ اس طرح کے واقعات کی وجہ سے گھر کے اندر لوگ بہت پریشان ہو جاتے ہیں۔ بچے گھبرا جاتے ہیں۔ ہم خوفزدہ ہیں۔ سکول بند کر دیے گئے ہیں۔ ابھی کرونا سے نکلے ہی تھے، کہ سکول پھر بند ہو گئے۔ بچے کیا پڑھیں گیا اور ہمارے بچوں کے مستقبل کا اب کیا بنے گا۔‘

कन्हैया लाल हत्याकांड

گلاب بانو

بدلے کا خوف

کنہیا لال کے بہیمانہ قتل پر ہر طرف غم و غصہ ہے۔ ملزمان حراست میں ہیں، تفتیش جاری ہے لیکن لگتا ہے کہ انتقام کا جذبہ کافی بڑھ گیا ہے۔ کرفیو کے باوجود بدھ کو کنہیا لال کے جنازے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی تھی۔

قتل کے خلاف جمعہ کو اودے پور میں ایک بڑی ریلی بھی نکالی گئی جس میں کولیکٹریٹ کے دفتر کے سامنے تقریباً آٹھ ہزار افراد جمع ہوئے۔ شدید نعرے بازی کی گئی اور میڈیا کے ذریعے پیغامات بھی دیے گئے۔

اودے پور ہندو جاگرن منچ کے یوتھ یونٹ کے سابق سربراہ شکتی سنگھ نے کہا کہ ’ہندو معاشرہ بالکل بھی خوفزدہ نہیں ہے، کسی کو کسی طرح کی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ انڈیا اب سیکیولر ہونے کی سزا نہیں بھگتے گا۔ اودے پور کا ہندو معاشرہ ہمیشہ سے سب کا حصہ رہا ہے، اس نے دوسرے مذاہب کی حمایت کی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ دن دیہاڑے آئیں اور ہمارے ہی لوگوں کو مار ڈالیں۔‘

شکتی سنگھ

شکتی سنگھ

کیونکہ فساد یا تشدد کبھی بھی ہو سکتا ہے اس لیے ظاہر ہے کہ اس میں پسنے والے عام لوگ ہی ہوں گے۔ جس علاقے میں کنہیا لال کو قتل کیا گیا وہاں کے بزرگ بھی بہت خوفزدہ ہیں۔

57 سالہ رشیدہ بیگم سبزی کا ٹھیلا لگاتی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ بھوکے پیاسے بیٹھے ہوئے ہیں کیا کریں؟ کہاں جائیں؟ اگر آپ باہر نکلتے ہیں تو پولیس کی لاٹھیاں کھانا پڑتی ہیں۔ ایسا ماحول پہلی بار دیکھا ہے، کیا کریں؟ جس نے ایسا کیا اسے سزا مل رہی ہے۔ دوسرے کیوں پس رہے ہیں؟ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ آپ کیوں ہمیں سزا دے رہے ہیں؟‘

پچھلے کچھ سال میں انڈیا میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

بہت سے لوگ اسے سوشل میڈیا پر نفرت انگیز تقاریر اور اشتعال انگیز بیان بازی سے بھی جوڑتے ہیں۔ اودے پور میں بھی اس سے پہلے اتنا گہرا تناؤ نہ دیکھا گیا ہے۔

ریٹائرڈ انجینئر حاجی محمد بخش، جو راجستھان میں سرکاری نوکری کرتے ہیں، آج بھی اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ اودے پور شہر ایک پرسکون شہر ہے جس کا پوری دنیا میں نام ہے۔

بقول اُن کے ’یہاں ہر کوئی بہت پیار سے رہ رہا ہے۔ آج سے نہیں، اس وقت سے جب حکیم خان سوری اس کے سپہ سالار تھے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’بدامنی پھیلانے والے عناصر ہر برادری میں ہوتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments