نیلی آنکھوں والی گڑیا (قسط نمبر چار)۔


حاجی صاحب اور شمیم

زینب تمہیں حاجی صاحب تو یاد ہو گے۔ وہی جو ہر وقت ہاتھ میں بڑی سی تسبیح لیے گھومتے تھے۔ وہ جب بھی حج پر یا زیارات پر جاتے تو ہماری طرف ضرور ملنے آتے۔ اور تمہارے سر پر ہاتھ کر حال چال پوچھتے۔ وہ جب خاص طور پر حج پر جانے سے ایک دو دن پہلے آ کر سب سے معافی مانگتے۔ تو ہم سب بچے حیران ہوتے آخر حاجی صاحب نے ایسا کون سا گناہ کر دیا جو اماں ابا سے بار بار معافی مانگتے ہیں۔ اور وہ معاف نہیں کرتے پھر حاجی صاحب اگلے سال معافی طلب کرنے چلے آتے۔ دراصل حاجی صاحب تقریباً ہر سال حج پر یا زیارات پر ضرور جاتے۔ اماں بتاتیں وہ بہت نماز و پرہیزگار انسان ہیں۔ بچپن سے نماز پنجگانہ کے عادی ہیں۔ اور انتہا کے شریف ہیں۔

اماں ہی کیا سارا محلہ ہی ان کی شرافت کا قائل تھا اور سب بے پناہ عزت کرتے۔ لیکن گرمیوں کی ایک تپتی دوپہر میں حاجی صاحب کی ساری شرافت کا پول کھل گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ پولیس کی دو تین گاڑیاں ان کے ساتھ والے گھر کے سامنے رکیں۔ سب شور کی آواز باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں۔ حاجی صاحب ننگے پاؤں اڑے سفید بال لیے ایک عورت کے پیچھے بھاگے چلے جا رہے ہیں۔ جو پولیس کے نرغے میں تھی۔

” خدا کا واسطہ ہے اس کو نہ لے کر جاؤ۔ وہ ایسی عورت نہیں ہے۔“

حاجی صاحب اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھے۔ ورنہ وہ ایک نظر حیران پریشان محلے داروں کے چہرے دیکھ لیتے تو اس عورت کے پیچھے ہرگز نہ جاتے۔ اس عورت کی محلے میں اچھی شہرت نہیں تھی۔ اس کے گھر طرح طرح کے مرد آتے۔ اور وہ آس پاس کی ضرورت مند لڑکیوں کو کام کا جھانسہ دے ان کی دوستیاں کرواتی۔ لڑکیاں پہلے پہل تو روتی منمناتی پھر ضرورت کی ماری اس عورت کی بات مان لیتیں۔ جس کا نام شمیم تھا۔ شمیم کا حاجی صاحب سے کیا تعلق تھا اور کب سے تھا۔ کسی کو خبر نہیں تھی۔ اور نہ کسی کے وہم و گمان میں تھا۔ حاجی صاحب یوں دیوانہ وار شمیم کے پیچھے بھاگیں گے۔ جب وہ پولیس کی گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی۔ تو حاجی صاحب کتنی دیر وہیں کھڑے رہے۔ پیچھے سے کسی نے کندھا ہلا کر کہا۔

”حاجی صاحب یہ جوتا پہن لیں۔ زمین بہت گرم ہے۔“

اس وقت حاجی صاحب کی ہونق صورت دیکھنے لائق تھی۔ وہ اپنا نظر کا چشمہ ٹھیک کرتے جوتا پہن کر گھر کی جانب چل دیے۔ تھوڑی دیر بعد تیار ہو کر باہر نکلے۔ یوں لگ رہا تھا وہ پولیس اسٹیشن شمیم کی ضمانت کے لیے جا رہے ہیں۔ رستے میں انہیں کافی لوگوں نے سمجھایا۔ آپ کس عورت کے معاملے میں پڑ رہے ہیں۔ فضول میں اپنی نیک نامی گنوائیں گے۔ حاجی صاحب نے کسی کی بات پر دھیان نہ دیا۔ اور بھری دوپہر میں سڑکوں کی خاک چھاننے نکل پڑے۔

سننے میں یہی آیا وہاں حاجی صاحب کے پہنچنے تک شمیم کے ساتھ پولیس اہلکاروں نے بہت برا سلوک کیا۔ حاجی صاحب سے اس کی الجھی بکھری حالت دیکھ کر بہت دکھی ہوئے۔ انہوں نے فوراً سے پیشتر پولیس کو منہ مانگی رقم دے کر شمیم کی ضمانت کروائی۔ اور اسے لیے گھر آ گئے۔ جب وہ دونوں ایک ساتھ رکشے سے اترے تو گلی میں موجود عورتوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ یہ اپنے حاجی صاحب باولے ہو گئے ہیں۔ اپنی عمر کا ہی لحاظ کر لیتے۔ وہ کانوں کو ہاتھ لگاتیں آگے بڑھ گئیں۔

کچھ دن بعد حاجی صاحب اور شمیم کے زیارت پر جانے کی خبر سنی۔ تو سب کو حاجی صاحب کی ذہنی حالت پر شک ہونے لگا۔ آخر اتنے شریف و متقی پرہیز گار آدمی کو کیا ہو گیا تھا۔ جو شمیم سے مراسم بنا لیے۔ اس سے پہلے وہ زیارات پر اپنے دوستوں کے گروپ کے ساتھ جاتے۔ لیکن اس دفعہ ان کا گروپ بھی الگ تھا۔ شمیم کی زیارات پر جانے کی تیاری دیکھنے لائق تھی۔ اس نے مہندی سے خوب بال رنگے اور ساری ہتھیلیاں بھی مہندی سے رنگ لیں۔ موتیے کے پھول جو وہ ہر وقت کانوں میں اڑسے رکھتی۔ اس دن بھی کانوں میں نظر آ رہے تھے۔ جس دن روانگی تھی۔ حاجی صاحب شمیم کا حلیہ دیکھ کر غصے میں اس کو کافی الٹا سیدھا بول گئے۔ جس کا اس پر کچھ خاص اثر نہ ہوا۔ وہ دانت نکوستی اپنی کلائیاں کانچ کی چوڑیوں سے بھرنے لگی۔ یہ دیکھ کر حاجی صاحب اپنا سر پیٹنے لگے۔

”اری کم بخت جاہل عورت تو زیارات پر جا رہی ہے۔ شادی بیاہ پر نہیں۔“
اس نے جیسے ہی حاجی صاحب کو گھور کر دیکھا وہ خاموش ہو گئے۔

اس سب صورت حال میں حاجی صاحب کی بیگم خاموش تماشائی بنی تسبیح کے دانے تیزی سے گرائے جا رہی تھی۔ آج تک حاجی صاحب ان کو حج و زیارات پر نہیں لے کر گئے تھے۔ وہ حسرت بھری نگاہوں سے شمیم کو جاتا دیکھتی رہ گئی۔ ایک ہمدرد بولی۔ ہائے بہن تیرے اپنے نصیب، بڑے صبر والی ہے۔ ایسی رنڈیوں کو گھر میں گھسنے ہی نہیں دینا چاہیے۔ دیکھ کیسے اس نے تیرے میاں پر قبضہ کر لیا۔ حاجی صاحب کو بھی گناہ کا احساس نہیں۔ کیسے مقدس مقامات پر نامحرم کے ساتھ جا رہے ہیں۔

نہیں گناہ والی کوئی بات نہیں۔ حاجی صاحب کو خود احساس ہے۔ وہ شمیم سے متعہ کر کے جا رہے ہیں۔ جس نے بھی یہ بات سنی۔ حاجی صاحب کی غائبانہ اچھی خاصی عزت افزائی کی۔ بھلا متعہ نہ کرتے۔ اپنی بیوی ساتھ لے جاتے۔ اگر عورت کے بغیر گزارہ ممکن نہیں تھا۔ ہمارے آس پاس کے سادہ پنجابی شیعہ گھرانے اب بھی متعہ کو مانتے ہوئے بھی اچھا نہیں سمجھتے۔ نہ وہ خود متعہ کرتے ہیں نہ اپنی عورتوں کو اجازت دینا تو دور کی بات ان کے لیے یہ لفظ سننا گوارا نہیں کرتے۔

ان کے نزدیک متعہ صرف ایران اور مولویوں میں مقبول ہے۔ حاجی صاحب بھی اندر سے پورے ایرانی تھے۔ اس بات کا اندازہ سب کو بہت دیر بعد ہوا۔ اس کے بعد شمیم کے ساتھ حاجی صاحب نے بہت سی جگہیں گھومیں۔ تین عمرے، ایک حج اور دو دفعہ زیارات پر گئے۔ درمیان میں کبھی کبھار وہ مری کا چکر بھی لگا آتے۔ آخری بار جب وہ مری گئے۔ تو وہاں بیمار ہو گئے۔ یہاں بیوی بچے فکرمند ہو گئے۔ صبح ہوتے ہی وہ لاہور پہنچ گئے۔ حاجی صاحب پر مری کی ٹھنڈ کے برے اثرات دکھائی دے رہے تھے۔ شمیم وہیں ان کی پائنتی سے لگ کر ساری رات حاجی صاحب کا ہاتھ میں ہاتھ رکھ کر بیٹھی رہی۔ صبح دونوں نے مل کر ناشتہ کیا۔ پھر یہ سلسلہ شروع ہو گیا۔ دونوں کھانا ایک ساتھ کھانے لگے۔

لوگ کیا سوچتے ہیں کیا کہتے ہیں دونوں کو پرواہ نہیں تھی۔ پہلے حاجی صاحب کافی دن گزر جاتے سفید بال لیے پھرتے۔ لیکن اب شمیم ان کے ہیئر کلر ہر وقت لگائے رکھتی۔ وہ حاجی صاحب سے عمر میں چھوٹی تھی۔ اس لیے کوشش کرتی کہ وہ اس کے ساتھ چلتے بوڑھے دکھائی نہ دیں۔ حاجی صاحب بھی دن بدن نکھرتے جا رہے تھے۔ ان کے کپڑے جوتے نت نئے ڈیزائن کے ہوتے۔ شمیم جتنا جیسے مرضی کماتی۔ حاجی صاحب پر دل کھول کر لگاتی۔ وہ بھی راجہ بنے خوب مال بٹورتے۔

دوست احباب یہی سمجھتے حاجی صاحب اس عورت پر پیسہ لٹاتے ہیں۔ وہ اکثر اس بات کا اظہار کرتے تو حاجی صاحب سچ جھوٹ کی تردید نہ کرتے۔ الٹا گردن اکڑائے بڑے آدمی بنتے۔ نجانے یہ کیسی پیار محبت کی کہانیاں ہوتی ہیں جس میں مرد ایک پائی عورت پر نہیں لگاتا اور عورت عشق میں اندھی ہو کر اپنی ساری کمائی محبوب پر نچھاور کرتی ہے۔ شمیم کے دل میں بھی کبھی یہ تمنا نہ جاگی۔ نہ ہی اس نے کبھی حاجی صاحب سے کسی ایسی خواہش یا گلے شکوے کا اظہار کیا کہ اسے کوئی تحفہ تحائف چاہیے۔ شب روز معمول کے مطابق انتہائی خوشگوار گزر رہے تھے۔ کہ اچانک شمیم کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ کافی عرصہ وہ اسپتال رہی۔ جہاں شروع شروع میں حاجی صاحب روز جاتے۔ پھر ہفتے میں ایک چکر لگا آتے۔ ایکسیڈنٹ کے بعد وہ بستر کی ہو کر رہ گئی۔ اس کی ٹانگوں پر گہری چوٹیں آئیں تھیں۔ چلنا پھرنا مشکل ہو گیا۔ دوسرا اندر ہی اندر وہ حاجی صاحب کی بے رخی سے ادھ موئی ہو گئی۔ وہ اب اس کے گھر کا رخ بہت کم کرتے۔

مہینے میں بھول کے ایک چکر لگا آتے۔ ساتھ اپنے گھٹنوں کا درد بتانا نہ بھولتے۔ وہ اپنی اور حاجی صاحب کی صحت و لمبی عمر کی دعائیں مانگتی۔ کرونا وائرس کی وجہ سے حاجی صاحب نہ عمرے پر جا سکے نہ حج پر۔ جس پر وہ بہت آزردہ ہوتے۔ انہیں لگتا۔ یہ مسلمانوں کے خلاف یہودی سازش ہے۔ جو انہیں حج کی سعادت سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔

اب تمہیں نئی اور تازہ بات بتاتی چلوں۔ اس سال حاجی صاحب حج کرنے جا چکے ہیں۔ جانے سے پہلے ہمیشہ کی طرح وہ معافی مانگنے سب جاننے والوں کے گھر گھر گئے۔ سوائے شمیم کے گھر کے۔ وہ بے چاری انتظار کرتی رہ گئی۔ لیکن حاجی صاحب اس کی طرف نہیں گئے۔ حاجی صاحب کو لگتا ہے یہ شاید ان کا آخری حج ہو۔ اس لیے سچے دل سے توبہ کرنے جا رہے ہیں۔ ویسے ان حاجی لوگوں کی باتوں پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ حج پر جانے سے پہلے کچھ اور ہوتے ہیں اور واپسی پر کچھ اور ہوتے ہیں۔

(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments