تین آدمی تین کہانیاں


گزشتہ کئی روز سے میرا مکالمہ ان تینوں آدمیوں سے چل رہا ہے۔ خان، رونی اور عدنان۔ ان تینوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ البتہ مجھ سے ان کا تعلق ایک اچھے دوست کا ہے۔

کہانی چونکہ تینوں کی ایک سی ہے لہذا مجھے ان میں سے کسی ایک کی کہانی کا اگلا حصہ سننے اور سمجھنے میں قطعی دشواری کا سامنا نہیں۔ جو واقعہ ایک بیان کرتا ہے، عین ویسا ہی دوسرا بیان کرتا ہے۔ اگر کبھی میں بھول چوک سے کسی ایک کی بتائی بات کے تناظر میں دوسرے کو کچھ کہہ دوں تو اسے علم ہی نہیں ہو پاتا کہ یہ بات تو اس نے مجھے بتائی ہی نہ تھی۔ مجھے البتہ اس بات کا ادراک اگلے چند لمحوں میں ہو جاتا ہے کہ یہ ہونی کسی دوسرے نے بیان کی تھی۔ بس ذرا سا سین اور اس کی سیٹنگ ہی مختلف ہوتی ہے۔

تینوں کی کہانی کا فارمیٹ ایک ہی ہے یا یوں کہہ لیں کہ پلاٹ ایک ہی ہے۔ ان کی کہانی کی ہیروئن ہی اب ان کی کہانی میں ولن کا کردار ادا کر رہی ہے یعنی ان کی زوردار بیوی ( تینوں کی الگ الگ) ۔ تینوں کی بیویاں اس وقت انھیں چھوڑ کے جا چکی ہیں اور تینوں اپنے بچوں کی کفالت اپنا فرض سمجھ کے کر رہے ہیں اور بچوں کی خاطر ہی تینوں طلاق کی راہ پہ جانے سے گریزپا بھی ہیں۔ تینوں بیرون ممالک برسر روزگار ہیں۔ تینوں خوبرو بھی ہیں اور دل کے بہت اچھے بھی۔

اب پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے اچھے مرد پائے کہاں جاتے ہیں؟ یقین کیجئے ایسے مرد ہیں اسی دھرتی پر۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ ضرورت رشتہ والے محض پہلی چند سطور ہی پڑھ لیں تو دوڑے چلے آئیں۔ پر انھیں مایوسی ہو گی۔ یہ تینوں مرد دوسری شادی نہیں کر سکتے۔ کیوں؟ (ممکن ہے آگے چل کے آپ اندازہ لگا سکیں )

میں نے رونی سے پوچھا ”آپ نے روکنے کی کوشش نہیں کی؟ گھر سے جانے نہیں دینا تھا۔“

” میں گھر آیا تو وہ جا چکی تھی۔“ رونی نے بتایا۔ خان سے بات ہوئی تو بولا، ”اس نے چلے ہی جانا تھا، میں روکتا بھی تو اس نے نہیں رکنا تھا۔“ عدنان نے بھی یہی بتایا۔ ”اس نے جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اسے کوئی روک سکتا ہے؟“

”اچھا چلو، اتنے دن ہو گئے۔ اس کا بھی دماغ ٹھکانے آ گیا ہو گا۔ بلا لو۔ جا کے لانا پڑے تو لے آؤ۔ اس میں مرد کی ہی بڑائی ہے۔“

خان کا کہنا تھا کہ ہر بار وہی جھکا، مناتا رہا۔ اب بس بہت ہو گئی۔ عدنان بھی بیزار تھا کہنے لگا ”میں کوئی کتا نہیں جو اس کے پیچھے دم ہلاتا جاؤں۔ آنا ہے تو خود آ جائے۔ اب کی بار میری طرف سے پہل نہیں ہوگی۔“ رونی تو مجھے میڈم کہا کرتا ہے۔ کہنے لگا، ”میڈم، آپ کو نہیں پتہ، اس کا دماغ بہت خراب ہے۔ مجھے بھی پیس آف مائنڈ چاہیے۔ خوش رہے جہاں گئی ہے، مجھے بس بچوں کی فکر ہے۔“

بچوں کی فکر تو تینوں کو ہے۔ رونی کی بیوی تو گھر چھوڑ کر کسی بیڈ سپیس پہ چلی گئی کہ اپنا کماؤں گی اپنا کھاؤں گی۔ خان کی بیوی اپنے ملک میں ہے۔ مگر دو ممالک کا درمیانی فاصلہ کافی نہ تھا لہذا وہ ایک سٹیپ اور دور ہونے کے لئے گھر سے میکے روانہ ہو گئی۔ عدنان کی بیوی جھگڑے کے فوراً بعد ہی سامان لے گئی اور اب الگ کرائے کے مکان میں رہ رہی ہے۔

تینوں کی یہ بات یکساں ہے کہ وہ بیویوں کے جانے کے بعد ایک خاص قسم کا ذہنی سکون محسوس کر رہے ہیں۔ جس کا اظہار مجھ سے صرف رونی نے کیا تھا۔ وہ تو غلطی سے عدنان کے سامنے میرے منہ سے نکل گیا کہ ”چلو، اچھی بات یہ ہے کہ تم ریلیکس کر رہے ہو۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہونا چاہیے۔“

” ایسا ویسا ریلیکس۔ ہر وقت کی جھک جھک سے جان چھوٹی۔ یقین کرو میں اپنے دفتر میں بھی بس اسی کی بکواس سوچتا رہتا تھا۔ ایسی ایسی باتیں کرے گی کہ جو بندے کے خیال و خواب میں بھی نہ ہوں۔ جیسے میں جب روز دفتر پہنچتا ہوں تو دو چار حسینائیں آ کے میرے ارد گرد بیٹھ جاتی ہیں۔ ہم سارا دن خوب گپ شپ لگاتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ لنچ پہ باہر جاتا ہوں۔ کسی کو آئس کریم کھلانے، کسی کو چائے پلانے لے جاتا ہوں۔ واپس آتا ہوں تو دفتر کا ٹائم ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ میں باس سے کہتا ہوں ’آج بہت تھک گیا ہوں، اب آرام کروں گا‘ اور جناب، کمپنی اس کام کی مجھے ہر مہینے تنخواہ دیتی ہے“

اس کی بات سن کے میری ہنسی نہیں رکتی۔ مجھے اس کی بے بسی پہ ترس بھی آتا ہے۔

خان کا تو کہنا ہے کہ ”بھائی میں تو زیادہ نماز بھی نہیں پڑھتا کہ یہ کہے گی مجھے معلوم ہے تم حوروں کے چکر میں نماز پڑھتے ہو۔“ رونی بے چارہ مجھے اپنے حالیہ میوزک پروگرام کی ویڈیو اور تصاویر دکھاتے ہوئے کہتا ہے۔ ”اب سنگر کی فین فالوونگ تو ہو گی ناں۔ اس پہ بھی اعتراض کہ جانے کتنی آپ پہ مرتی ہیں۔ حد ہے بھئی۔ ابھی کچھ عرصے سے میں نے ایک کمپنی میں جاب کر لی ہے۔ یہ چھوٹے موٹے میوزک پروگرام بھی تقریباً بند ہی کر دیے ہیں تاکہ اسے تسلی ہو جائے مگر نہیں۔“

خان ایک یونیورسٹی میں انگریزی کا پروفیسر ہے۔ شاید ہمارے یہاں بیویوں کو انگریزی بولنے اور پڑھانے والے مردوں پہ اعتبار کم ہی ہوتا ہے۔

” اسے تمہاری فکر ہو گی۔ ڈائبیٹک ہو۔ تمہاری طبیعت کا سوچے گی۔ گھر کا کھانا تمہاری صحت کے لئے ضروری ہے۔ آ جائے گی“ ۔ رونی نے میری بات سنی تو رونی سی صورت بنا کے بولا، ”خود پوچھ لیجیے گا۔ اس نے آج تک کبھی میرا خیال کیا ہے؟ میں دفتر میں کام پہ فوکس نہیں کر پاتا اس کی وجہ سے۔ بچوں کو الگ میرے خلاف کر ڈالا ہے۔ اسی ٹینشن سے تو مجھے شوگر ہوئی ہے“

” آپ بھی عجیب بات کرتی ہو۔“ عدنان تلملا اٹھا۔ ”کبھی جو اس نے میری صحت کا خیال بھی کیا ہو۔ وزن بڑھتا جا رہا ہے میرا۔ میں نے واک شروع کی تو گھر میں اس بات پہ لڑائی ہو گئی کہ کس کے لئے اتنی واک ہو رہی ہے۔ اپنے آرام کا اتنا خیال ہے کہ ہر کام کے لئے الگ ماسی چاہیے۔ بارہ بجے سے پہلے کبھی سو کے نہیں اٹھے گی۔ سب دیا، سب کیا، پر اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں، یہ اس نے کبھی نہیں سوچنا۔“

خان کی دفعہ میں نے ڈائبیٹیز کی جگہ ہائپر ٹینشن کا لفظ استعمال کیا تھا۔ مجھے یاد ہے۔ وہ بھی جھٹ بولا ”اس جیسی بیویوں کو اپنے کپڑوں جوتوں کی فکر شوہر کی زندگی سے زیادہ ہوتی ہے۔ اسے بس پیسے سے مطلب ہے اور کسی چیز سے نہیں۔“

ہمارے ارد گرد کچھ واقعات بڑی ترتیب سے رونما ہو رہے ہوتے ہیں۔ گویا وقت کی کچھ ٹائم لائنز متوازی چل رہی ہوتی ہیں۔ تین مختلف لوگ اور اتنے مماثل حالات۔ تین مختلف عورتیں اور اتنی مماثل عادات۔ ایسی عورتیں جنھیں شوہر سے وابستہ ہر شے سے چڑ ہوتی ہے۔ اس کے رشتے دار بہن بھائیوں کی شکل دیکھنا نہیں چاہتیں۔ کزنز سے ملنے جلنے پر مکمل پابندی۔ کسی رشتے دار کے کام آنے پہ سخت قسم کا بین ماسوائے ان کے اپنے قریبی رشتوں کے۔ ان کی فیملی میں ملا جائے، ان پہ خرچ کیا جائے۔ رونی کہتا ہے، ”میری ماں کسی مسئلے کا کوئی حل بتائے اسے نامنظور ہے۔ بلکہ یہ اس میں سے بھی برائی کا کوئی پہلو نکال لے گی“ ۔

”میں نے تو اسے ہنستے مسکراتے بس اپنے بھائی بہنوں میں ہی دیکھا ہے۔ گھر میں ایسے رہے گی جیسے مجھ پہ احسان کر رہی ہو۔ اور میری فیملی سے تو اسے جانے کس بات کی نفرت ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ مجھے ہر بات میں نیچا دکھائے۔ ہر بات میں مجھے غلط ثابت کرے۔“ خان کو تو اپنی بیوی کے تمام نارسس اسٹک رویے خوب سمجھ آتے ہیں۔

میں یہ سب سنتے سنتے بے چین ہوتی گئی کہ یہ کس قسم کی خواتین ہیں۔ کیا انھیں اپنے گھر کا سکون پیارا نہیں۔ ”لو، بچوں کی بات کرتی ہو۔ کتنی دفعہ تو وہ بچوں کو چھوڑ کر جا چکی ہے کہ اپنی اولاد سنبھالو۔“ عدنان بے حد دلگرفتہ ہے۔ ”دبئی میں اتنے برس گزارنے کے بعد ، پاکستان بھیجا ہے کہ گھر ہے، گاڑی ہے، سکون سے رہو۔ پر وہ تو کہتی ہے تم نے مجھے دیا ہی کیا ہے۔ ہے کیا تمہارے پاس؟ اب تو بچے بھی ماں کی طرف ہو کے بولنے لگے ہیں۔ میرا تو سب برباد ہو گیا ناں۔ میرے بچے تک میرے نہیں رہے۔“

مجھے حیرت تو تھی، دکھ بھی تھا مگر مجھے ان سے اگلوانے میں بالکل دیر نہ لگی کہ کہیں نہ کہیں کسی دوسری عورت کا معاملہ ضرور ہے اور یہ سب کے سب ایک بیوی کے انتقامی رویے ہیں۔

”اس کے سخت رویے کی وجہ سے ایسا ہوا۔ مجھے کچھ سمجھتی ہی نہیں۔ اپنی جاب کی اکڑ میں رہتی ہے۔ بس یہ ہی ایک اعلی نسل ہیں۔ میرے خاندان کو تو حقیر سمجھتی ہے۔ اب امی ابا کے ساتھ اس کا سلوک بتاؤں تو آپ حیران رہ جائیں۔ پھر کہیں تو آدمی اپنا سکون ڈھونڈے گا ہی نا“

میں ایک بار پھر الجھ گئی کہ خان کی بیوی کا یہ رویہ، ردعمل ہے خان کی بے وفائی کا یا خان سچ کہہ رہا ہے کہ وہ ابتدا سے ہی اپنی ذات کے غرور کا شکار تھی۔ ایسے لوگ کبھی کسی کے نہیں ہو سکتے۔

رونی نے بھی بتایا کہ ”اس نے خود میری سینئیر کے ساتھ زبردستی میرا نام جوڑ جوڑ کے یہ کہانی بنا ڈالی۔ واللہ، ہمارے درمیان ایسی کوئی بات نہ تھی۔ وہ میرے میوزک اور آواز کی فین تھی لہذا اس نے ان کے ویزے ری نیو کروانے میں میری مدد کی۔ پیسے بھی دیے۔ تب تک تو اسے سب اچھا لگتا تھا۔ بعد میں اسی کے بارے میں ہر ایک سے اس نے غلط باتیں کیں جو اس تک بھی پہنچیں۔ اب وہ مجھ سے شادی کرنے کو بھی تیار ہے۔ پر میں کیسے کر سکتا ہوں۔ چار بچے چھوڑ کر گئی ہے۔ میں ان کے لئے پریشان رہتا ہوں۔ فون کر کر کے گھر کی خبر لیتا رہتا ہوں۔ شادی نہیں کر سکتا۔ یہ جو سمجھتی ہے سمجھتی رہے“

عورت سب کچھ برداشت کر لیتی ہے مگر کسی دوسری عورت کی شرکت برداشت نہیں کر سکتی۔ میری یہ بات کہنے کی دیر تھی کہ عدنان بول اٹھا۔ ”چلو مان لیا۔ دوسری عورت کی شرکت برداشت نہیں ہوتی۔ ماں کے پاس بیٹھنا بھی اس کو برا لگتا ہے، باپ کے ساتھ وقت گزارنا بھی؟ بہن بھائیوں، کزنز، دوستوں، کسی کے ساتھ ہنسی مذاق نہیں کر سکتا۔ کسی رشتہ دار کے گھر نہیں جا سکتا۔ بس اس کے خاندان سے ملوں۔ اور خوش بھی نظر آؤں۔ اس کے نخرے بھی اٹھاؤں اور یہ بھی سنوں کہ تم نے دیا ہی کیا ہے۔ یار کمال ہے۔ ٹھیک ہے، ایک معاملہ ہو گیا تھا ایسا۔ اب تو اسے گئے بھی عرصہ ہو گیا۔ کتنی بار معافی مانگ چکا ہوں اس سے۔ پھر بات وہیں سے شروع کرتی ہے۔ ہر بار ایک ہی بات۔ اسے بچوں کی پریشانی کا رتی بھر احساس نہیں۔ ان کے سامنے بھی ذلیل ہو چکا ہوں۔ معافیاں مانگ چکا ہوں۔ اب کچھ ایسا نہیں ہو سکتا۔ مگر بات ختم ہی نہیں کرتی“

تینوں اپنی اپنی کہانی سناتے رہتے ہیں۔ میں سنتی رہتی ہوں۔ ان کی بیویوں سے بھی بات کر دیکھی ہے۔ ان کے نزدیک بے وفا مرد کو سزا ملنی چاہیے۔ خوب ملنی چاہیے۔ مجھے اس پہ بھی اعتراض نہیں۔

اتنے برس یہ مرد بولے کیوں نہیں۔ مرد میں خود کوئی کمزوری ہوتی ہے تو وہ بیوی کی ہر ناجائز بات کو خاموشی سے برداشت کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ جب عورت اپنی پوری طاقت سے لڑتی ہے تو مرد کی شکست دیدنی ہوتی ہے۔ یہ تینوں مرد ہارے ہوئے ہیں۔

میں اس معاملے پہ ہر پہلو سے سوچتی ہوں۔ کیونکہ مجھے اپنے ان دوستوں سے ہمدردی ہے۔ رونی کہتا ہے۔ ”بات بات پہ طلاق مانگتی ہے۔ کہاں جا کے رہے گی۔ اسے اندازہ نہیں یہ خود رل جائے گی۔ میرے گھر کے دروازے کھلے ہیں۔ جب چاہے لوٹ آئے“

عدنان کا کہنا ہے۔ ”پچھلی بار لڑ کر گئی تھی تو بھاوج نے صاف کہہ دیا تھا کہ یہاں تو نہ رہیں۔ پھر ہوئی تھی خاصی پریشان۔ اب الگ مکان لے لیا ہے پتہ نہیں کیسے مینیج کرے گی“ ۔ خان کو یہ تسلی تو ہے کہ وہ اپنے صاحب حیثیت والدین کے پاس چلی گئی ہے مگر بچوں سے گھر کا سکون چھین لیا۔

ان کہانیوں میں کچھ نیا نہیں۔ نہ کردار نئے ہیں، نہ رویے۔ مگر ان سب کہانیوں میں بچوں کا جو ذہنی، جذباتی، اور سماجی نقصان ہوا ہے، اس کی پرواہ آخر ماؤں کو کیوں نہیں۔ باپ کو ہمیشہ کے لئے اولاد کی نظروں سے گرا کر خود بھی انھیں اعتماد نہ دے سکیں، خود بھی چھوڑ کر چلتی بنیں۔ ایسی ماؤں کو کیا کہا جائے۔ اور کیا یہ جنگ اس طرح سے جیتی جا سکتی ہے؟ جیت کس کی ہے، ہار کس کی ہے، یہ بات بھی سوچنے کی ہے۔

نوٹ: کرداروں کے نام بدل دیے گئے ہیں۔ مرد حضرات حالات و واقعات سے مماثلت پائیں تو قطعی پریشان نہ ہوں۔ اگر ان کی بیگم گھر میں موجود ہے تو ان میں سے ایک بھی کہانی ان کی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments