چندر شیکھر آزاد: وہ ’ناقابل تسخیر‘ انقلابی جنھوں نے ہتھیار پھینکنے پر موت کو ترجیح دی

ریحان فضل - بی بی سی ہندی، دہلی


چندر شیکھر آزاد صرف 16 سال کی عمر میں ہی 1922 میں HRA (ہندوستان ریپبلکن آرمی) کے رکن بن گئے تھے۔ اس سے قبل 1921 میں عدم تعاون کی تحریک کے دوران ان کو گرفتار کیا گیا تھا۔

گرفتاری کے بعد مجسٹریٹ نے 15 سالہ بچے سے پوچھا تھا ’تمہارا نام کیا ہے؟‘

تو چندر شیکھر کا جواب تھا: ’آزاد‘

پھر سوال ہوا، آپ کے والد کا نام؟

بچے نے جواب دیا: ’آزادی‘

آپ کا پتہ؟ ’جیل‘

ان جوابات سے ناراض ہو کر انگریز مجسٹریٹ نے 15 سالہ چندر شیکھر آزاد کو 15 بار چھڑی سے مارنے کی سزا سنائی۔

جب آزاد کو کھمبے سے باندھ کر سزا دی گئی تو وہ ہر بار چھڑی جسم پر لگنے پر ’بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے لگاتے تھے۔

سزا مکمل ہونے پر آزاد کو جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔ جاتے وقت ان کو تین آنہ دیے گئے جو آزاد نے غصے میں جیلر کے منہ پر دے مارے۔

1925 کے آخر تک کاکوری ٹرین لوٹنے کے واقعہ کے تقریباً سبھی ملزم پکڑے جا چکے تھے سوائے کندن لال اور چندر شیکھر آزاد کے۔

ان کے ساتھی نام لینے کے بجائے ان کو نمبر 1 اور نمبر 2 کہا کرتے تھے۔ اس وقت آزاد بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ جب تک میں زندہ ہوں مجھے کوئی نہیں پکڑ سکے گا۔

وہ کہا کرتے تھے کہ:

’دشمن کی گولیوں کا سامنا کریں گے

آزاد رہے ہیں، آزاد ہی رہیں گے‘

کاکوری ٹرین ڈکیتی

کاکوری ٹرین ڈکیتی کے لیے بسمل نے اپنی مدد کے لیے 9 انقلابیوں کا انتخاب کیا تھا جن میں چندر شیکھر آزاد بھی شامل تھے۔

ٹرین کو لوٹنے کے بعد آزاد کو گٹھڑی میں لپٹی رقم لکھنؤ پہنچانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔

اس دن کو یاد کرتے ہوئے منمتھ ناتھ گپتا نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’دریائے گومتی کے کنارے گھنٹوں پیدل چل کر ہم لکھنؤ شہر میں داخل ہوئے۔‘

’ہم سب سے پہلے چوک پر پہنچے جہاں کچھ لوگ ابھی تک بدنام زمانہ ریڈ لائٹ ایریا میں جاگ رہے تھے جبکہ پورا شہر سو رہا تھا۔ چوک پر پہنچنے سے پہلے آزاد نے رقم کا بنڈل رام پرساد بسمل کے حوالے کر دیا تھا۔‘

’مجھے اور آزاد کو لکھنؤ شہر کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں تھیں۔ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ ہمیں کہاں جانا چاہیے۔‘

’آزاد نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ پارک میں سو جائیں۔ اس وقت، بے گھر لوگ اکثر پارک میں ہی سوتے تھے۔ ہم نے کوشش کی کہ ایک درخت کے نیچے سو جائیں۔‘

’ہم سردی سے کانپ رہے تھے۔ صبح ہوتے ہی پرندے چہچہانے لگے اور لوگ مندروں میں جانے لگے۔ ہم بھی جاگ اٹھے۔ پارک سے نکلتے ہی ہم نے ایک اخبار فروش کی آواز سنی، ‘کاکوری میں ٹرین ڈکیتی۔’

ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ پارک میں ہمارے سونے کے درمیان کاکوری میں ٹرین ڈکیتی کی خبر چاروں طرف پھیل چکی تھی۔‘

لالہ لاجپت رائے کے قتل کا بدلہ لینے کا منصوبہ

کاکوری کیس میں گرفتاری کے بعد کانپور سے شائع ہونے والے اخبار پرتاپ نے، سرخیاں بنائیں، ’ہندوستان کے نو رتن گرفتار۔‘

لیکن چندر شیکھر آزاد ان گرفتار لوگوں میں شامل نہیں تھے۔ آزاد پولیس کی نظروں سے بچ کر بنارس پہنچ چکے تھے اور پولیس کے ساتھ چھپن چھپائی کا کھیل کھیل رہے تھے۔

پولیس ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے لگی ہوئی تھی لیکن وہ ہر بار پولیس کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔

کاکوری کیس میں بڑے انقلابیوں کی گرفتاری کے بعد تنظیم چلانے کی ذمہ داری آزاد جیسے جونیئر انقلابیوں پر آ گئی۔

ایسے میں سائمن کمیشن کی مخالفت کرنے والے لالہ لاجپت رائے جب پولیس کی لاٹھیوں سے مارے جانے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے تو انقلابیوں نے ان کی موت کا بدلہ لینے کا منصوبہ بنایا۔

ایک مشتعل بھگت سنگھ نے کہا ’ہمارے قابل احترام لیڈر لالہ جی کا قتل ملک کی توہین ہے۔ ہمیں اس توہین کا بدلہ لینا ہے۔ ہمیں پوری دنیا کو دکھانا ہے کہ ہم ہندوستانی انقلابی موجود ہیں اور اس غیر انسانی فعل کا بدلہ لیں گے۔‘

یہ منصوبہ بنایا گیا تھا کہ بھگت سنگھ لالہ لاجپت رائے پر لاٹھیاں چلانے والے انگریز افسر سانڈرز پر گولی چلائیں گے۔ راج گرو اسٹینڈ بائی پر ہوں گے اور بھگت سنگھ کو کور دیں گے۔ حملے کے بعد اگر کوئی ان کا پیچھا کرتا ہے تو پنڈت جی عرف چندر شیکھر آزاد اس سے نمٹیں گے۔

چندر شیکھر آزاد نے چنن سنگھ پر گولی چلائی

جیسے ہی سانڈرز اپنے ہیڈ کانسٹیبل چنن سنگھ کے ساتھ اپنی موٹرسائیکل کے قریب پہنچے، راج گرو نے ان کے سینے پر گولی چلا دی۔ اگلے ہی لمحے بھگت سنگھ بھی ایک پیڑ کے پیچھے سے کودے اور سانڈرز کے جسم میں یکے بعد دیگرے چھ گولیاں اتار دیں۔ سانڈرز اسی وقت موقعے پر ہی ہلاک ہو گئے۔

بھگت سنگھ اور راج گرو وہاں سے دوڑے تو انسپکٹر فرن ان کو پکڑنے بھاگے۔ راج گرو نے ان پر گولی چلانے کی کوشش کی لیکن ان کے پستول کا گھوڑا پھنس گیا۔ جیسے ہی فرن نے ان کو پکڑنے کی کوشش کی، راج گرو نے زور سے لات ماری اور وہ دور جا گرے۔

اب راج گرو اور بھگت سنگھ کالج کی طرف بھاگ رہے تھے جب کہ ہیڈ کانسٹیبل چنن سنگھ ان کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔

آزاد تقریباً 50 گز کے فاصلے سے یہ سارے مناظر دیکھ رہے تھے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ چنن سنگھ بھگت سنگھ کو پکڑنے ہی والا تھا۔

بابو کرشنامورتی چندر شیکھر آزاد کی سوانح عمری ’ناقابل تسخیر آزاد‘ میں لکھتے ہیں کہ پھر پیچھے سے آزاد کی آواز گونجی،’رکو‘۔ چنن سنگھ نے بھاگتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا تو آزاد نے چلا کر کہا، ’رکو، ان کا پیچھا کرنا بند کرو۔‘

چنن سنگھ نے آزاد کی بات نہ مانی اور بھگت سنگھ کا پیچھا جاری رکھا۔ جب چنن سنگھ نے تیسری بار آزاد کی وارننگ پر دھیان نہیں دیا تو آزاد نے گولی چلا دی۔ چنن سنگھ گولی لگتے ہی نیچے گر گیا۔

آزاد بھی وہاں سے اٹھ کر غائب ہو گئے۔ کچھ فاصلے پر سائیکلیں ان کا انتظار کر رہی تھیں۔ بھگت سنگھ نے سائیکل چلائی اور راج گرو سائیکل کے ڈنڈے پر بیٹھ گئے۔ وہ تیزی سے نابھہ ہاؤس کی طرف پہنچے جہاں انھوں نے اپنی سائیکلیں پھینک دیں اور تینوں انتظار کرتی کار میں سوار ہو گئے۔

اگلے دن لاہور کی دیواروں پر ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن آرمی کے پوسٹر چسپاں پائے گئے جن پر لکھا تھا ’سانڈرز کو مار کر ہم نے اپنے پیارے لیڈر لالہ لاجپت رائے کی موت کا بدلہ لے لیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

کاکوری ٹرین ڈکیتی: برطانوی حکومت کی بنیادیں ہلا دینے والا واقعہ

’سندھ کا بھگت سنگھ‘ جسے اپنی ہی دھرتی نے بھلا دیا

راج سے آزادی، مگر کاپی رائٹ سے نہیں!

آزاد مرکزی اسمبلی میں بھگت سنگھ کے بجائے بم پھینکنا چاہتے تھے

اس کے بعد انقلابیوں نے فیصلہ کیا کہ وہ مرکزی اسمبلی میں بم پھینکیں گے۔ آزاد یہ کام خود کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی اس کے لیے تیار نہیں تھا۔

اس کے بعد بھگت سنگھ نے یہ ذمہ داری لینے کی پیشکش کی۔ چندر شیکھر آزاد اس کے سخت خلاف تھے۔

بعد میں سنٹرل کمیٹی کی میٹنگ میں بھگت سنگھ نے سب کو آمادہ کیا۔ اس کام میں ان کا ساتھ دینے کے لیے بٹوکیشور دت کا انتخاب کیا گیا۔

بابو کرشنامورتی لکھتے ہیں، ’جس دن بھگت سنگھ کو اسمبلی میں بم پھینکنا تھا، آزاد، بھگوتی چرن، سکھ دیو اور ویشمپائن بھی اسمبلی کے اندر پہنچ گئے۔ جیسے ہی سوالیہ وقفہ شروع ہوا، آزاد کھڑے ہو گئے۔ بھگت سنگھ اور دت نے ان کی طرف دیکھا۔‘

آزاد نے ہاتھ کے اشارے سے ان کو الوداع کہا اور اپنا کام جاری رکھنے کا اشارہ کیا۔ جیسے ہی جارج شسٹر کھڑے ہوئے اور بل کے بارے میں بولنا شروع کیا، بھگت سنگھ نے بم پھینک دیا۔

بم کی زوردار آواز اور گہرے دھوئیں کے بیچ بھگت سنگھ اور بٹوکیشور دت نے ’انقلاب زندہ باد، ایچ ایس آر اے زندہ باد‘ کا نعرہ لگا کر پمفلٹ پھینکنے شروع کر دیے۔ پوری اسمبلی میں بھگدڑ مچ چکی تھی۔

صرف تین ہی لوگ تھے جو اپنی جگہ پر بیٹھے رہے۔ یہ جواہر لال نہرو، محمد علی جناح اور سردار پٹیل تھے۔

آزاد اسی دن جھانسی کی جانب روانہ ہو گئے۔

بھیس بدلنے کے ماہر

شیو شرما اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ آزاد بھیس بدلنے کے ماہر تھے۔ کبھی وہ دھوتی پہن کر شمالی انڈیا کے امیر تاجر بن جاتے تھے تو کبھی سر پر لال رومال باندھ کر قلی کا روپ دھار لیتے تھے۔ ایسے میں وہ پھٹے پرانے کپڑے پہن لیتے جن سے پسینے کی بو بھی آتی تھی۔

کبھی کبھار وہ ایسا روپ دھار لیتے تھے کہ ان پر ایک پولیس افسر ہونے گمان ہوتا تھا اور پولیس والے بھی ان کو سیلوٹ کرتے تھے۔

آزاد کا ایک اور بھیس ہندو سنیاسی کا تھا جس میں وہ زعفرانی کپڑے پہن لیتے تھے اور لوگ ان کے قدموں میں گر جایا کرتے تھے۔

اپنی زندگی کے آخر ایام میں آزاد اکثر دھوتی اور کُرتا پہنتے تھے، لیکن وہ کُرتے کے اوپر ایک جیکٹ بھی پہنتے تھے تاکہ وہ آسانی سے اپنا پستول اس کے اندر چھپا سکیں۔

مشہور انقلابی درگا دیوی لکھتی ہیں: ‘آزاد کبھی بستر پر نہیں سوتے تھے۔ وہ عام طور پر زمین پر پرانے اخبار بچھا کر سوتے تھے۔ وہ بہت کم کھانا کھاتے تھے۔ ان کی روزانہ کی مقدار صرف دو پھلکے (چپاتیاں) اور دو ٹکڑے گڑ تھے۔ اگر وہ بھی انھیں میسر نہ ہوتا وہ ایک آنہ کے بھنے ہوئے چنے خرید کر کھا لیتے تھے۔‘

’لیکن جب انھیں آرام سے کھانے کا موقع ملتا تو وہ اچھے کھانے کا بھی لطف اٹھاتے تھے۔ انھیں کھچڑی بہت پسند تھی۔ آزاد کی ہدایت تھی کہ تمام انقلابی اپنا کھانا خود بنائیں۔‘

آزاد ماہر نشانہ باز تھے

چندر شیکھر آزاد کا نشانہ بلا کا تیز تھا۔ بچپن میں انھوں نے بھیل (قبائلی) بچوں کے ساتھ تیر چلانے کی بہت مشق کی تھی۔

لیکن انقلابی بننے کے بعد انھوں نے تیر کے بجائے پستول اور گولیاں رکھنا شروع کر دیں۔

چندر شیکھر کے نشانے کی ان کے مخالفین نے بھی تعریف کی۔

ان کے زمانے میں اتر پردیش کے آئی جی ہالنس نے ‘من اونلی’ میگزین کے اکتوبر سنہ 1958 کے شمارے میں لکھا: ‘آزاد کی پہلی ہی گولی ناٹ باور کے کندھے میں لگی۔ پولس انسپکٹر وشویشور سنگھ آزاد کو گولی مارنے کی تاک میں ایک درخت کے پیچھے چھپے تھے۔

‘اس وقت تک آزاد کو دو تین گولیاں لگ چکی تھیں لیکن پھر بھی انھوں نے وشویشور کے سر کو نشانہ بنایا اور وہ گولی نشانے پر لگی۔ اس گولی نے ویششور کا جبڑا توڑ دیا۔ یہ آزاد کی زندگی کی آخری لیکن سب سے بڑی لڑائی تھی۔

آزاد کی گولی وشیشور سنگھ کے جبڑے میں لگی

بعد میں ناٹ باور نے ایک اخباری بیان میں کہا تھا: ‘مجھے ٹھاکر وشیشور سنگھ کا پیغام ملا کہ اس نے الفریڈ پارک میں ایک ایسے شخص کو دیکھا ہے جس کا حلیہ چندر شیکھر آزاد سے ملتا ہے۔ میں کانسٹیبل محمد زمان اور گووند سنگھ کو اپنے ساتھ لے گیا۔ میں نے کار کھڑی کی اور ان کی طرف بڑھا۔ تقریبا دس گز کے فاصلے سے میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے؟ جواب میں اس نے پستول نکال کر مجھ پر گولی چلا دی۔

‘میری پستول پہلے سے ہی تیار تھی۔ میں نے بھی اس پر گولی چلادی۔ جب میں میگزین بھر رہا تھا تو آزاد نے مجھ پر فائرنگ کردی جس کے باعث میگزین میرے بائیں ہاتھ سے نیچے گر گئی۔ پھر میں ایک درخت کی طرف دوڑا۔ اسی دوران وشیشور سنگھ رینگ کر جھاڑی میں پہنچا۔ وہاں سے اس نے آزاد پر گولی چلا دی۔ جواب میں آزاد نے بھی فائر کیا، گولی وشیشور سنگھ کے جبڑے میں لگی۔’

‘جب بھی میں دکھائی دیتا آزاد مجھ پر فائرنگ کرتا۔ آخر کار وہ پیٹھ کے بل گر گیا۔ اسی دوران ایک کانسٹیبل شاٹ گن لے کر آیا جو بھری ہوئی تھی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ آزاد مر گیا ہے یا بہانے بنا رہا ہے۔ میں نے کانسٹیبل سے آزاد کے پاؤں کا نشانہ لینے کو کہا۔ جب میں فائرنگ کے بعد وہاں گیا تو آزاد مر چکا تھا اور اس کا ایک ساتھی بھاگ گیا تھا۔

وشوناتھ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ‘سی آئی ڈی سپرنٹنڈنٹ نے اعتراف کیا کہ انھوں نے آزاد جیسے بہت کم شوٹر دیکھے ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب ان پر تین راؤنڈ فائر کیے گئے تھے۔ اگر پہلی گولی آزاد کی ران پر نہ لگتی تو پولیس کے لیے بہت مشکل ہو جاتی کیونکہ ناٹ کا ہاتھ پہلے ہی بیکار ہو چکا تھا۔ ‘

ناٹ باور کے ریٹائر ہونے کے بعد حکومت نے انھیں آزاد کا پستول تحفے میں دیا اور وہ اسے اپنے ساتھ انگلینڈ لے گئے۔

یہ بھی پڑھیے

انگریزوں نے ہندوستان کو کل کتنا مالی نقصان پہنچایا؟

چھوٹے سے قد کے ٹیپو سلطان نے کس طرح انگریزوں کے چھکے چھڑائے

رنجیت سنگھ کی سلطنت کیسے اندرونی سازشوں کے باعث انگریزوں کے ہاتھ چلی گئی؟

بعدازاں الہ آباد کے کمشنر نے جو بعد میں لکھنؤ یونیورسٹی کے چانسلر بنے، باور کو پستول واپس کرنے کے لیے ایک خط لکھا لیکن باور نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔

بعد میں لندن میں انڈین ہائی کمیشن کی کوشش کے بعد باور نے اس شرط پر پستول واپس کرنے پر اتفاق ظاہر کیا کہ حکومت ہند ان سے تحریری درخواست کرے۔

ان کی شرط مان لی گئی اور آزاد کا کولٹ پستول سنہ 1972 میں انڈیا واپس آگیا اور 27 فروری سنہ 1973 کو شچیندر ناتھ بخشی کی زیرصدارت ایک تقریب کے بعد اسے لکھنؤ میوزیم میں رکھا گیا۔

کچھ برسوں کے بعد جب الہ آباد میوزیم تیار ہوا اسے وہاں کے ایک خاص کمرے میں لایا گیا۔

طلباء کا ہجوم ہاسٹل کے گیٹ پر جمع ہوا

جب آزاد کو گولی ماری گئی، وہ اس وقت بھٹوک ناتھ اگروال الہ آباد یونیورسٹی میں بی ایس سی کے طالب علم تھے اور ہندو ہاسٹل میں رہتے تھے۔

بعد میں انھوں نے لکھا کہ جب وہ 27 فروری کی صبح ہندو بورڈنگ ہاؤس کے گیٹ پر پہنچے تو انھوں نے فائرنگ کی آواز سنی۔ یونیورسٹی کے طلبا کا ایک بہت بڑا ہجوم تھوڑی دیر میں وہاں جمع ہوگیا تھا۔ پولیس، کیپٹن اور میجرز بھی وہاں پہنچ چکے تھے۔

انھوں نے طلبہ کو منتشر ہونے کے لیے کہا لیکن کوئی وہاں سے نہیں ہلا۔ کلکٹر مم فورڈ بھی وہاں موجود تھے۔ کیپٹن میجرز نے بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ کرنے کی اجازت طلب کی، لیکن کلکٹر نے اجازت نہیں دی۔ اسی دوران مجھے معلوم ہوا کہ آزاد جان کی بازی ہار چکے تھے۔

ناٹ باور کی کار میں تین سوراخ

اسی دوران جب ایس پی میجر کو فائرنگ کی اطلاع ملی تو انھوں نے آرمڈ ریزرو پولیس کے اہلکاروں کو الفریڈ پارک بھیجا۔ لیکن جب یہ لوگ وہاں پہنچے تو لڑائی ختم ہوچکی تھی۔

جاتے ہوئے ناٹ باور نے ہدایت دی کہ چندر شیکھر آزاد کی لاش کی تلاشی لی جائے اور پھر پوسٹ مارٹم کے لیے روانہ کیا جائے اور وشیشور سنگھ کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا جائے۔

آزاد کی لاش کی تلاشی پر ان کے پاس سے 448 روپے اور 16 گولیاں ملیں۔

یشپال نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ‘شاید آزاد کے پاس وہی رقم تھی جو نہرو نے دی تھی’۔

دونوں طرف کے لوگ جن درختوں کے پیچھے چھپے تھے ان پر گولیوں کے نشانات تھے۔ ناٹ باور کے پیچھے کھڑی کار میں بھی گولیوں کے تین سوراخ تھے۔

آزاد کی لاش کا پوسٹ مارٹم سول سرجن لیفٹیننٹ کرنل ٹاؤنسنڈ نے کیا تھا۔

اس وقت ، دو مجسٹریٹ خان صاحب رحمان بخش قادری اور مہیندر پال سنگھ وہاں موجود تھے۔

آزاد کے پیر کے نچلے حصے میں گولیوں کے دو زخم تھے۔ ان کی ٹیبیا بون بھی فریکچر ہوئی تھی۔

ایک گولی دائیں ران سے نکل گئی تھی۔ ایک گولی سر کی دائیں طرف پیرلیٹل بون کو چھیدتے ہوئے دماغ میں داخل ہوگئی اور دوسری گولی دائیں کندھے میں سوراخ کرتے ہوئے دائیں پھیپھڑوں میں رک گئی تھی۔

وشوناتھ ویشمپاین لکھتے ہیں: ‘چونکہ آزاد کا جسم بھاری تھا لہذا اسے اسٹریچر پر نہیں رکھا جاسکتا تھا۔ چونکہ چندرشیکھر آزاد ایک برہمن تھے لہذا پولیس لائن سے برہمن رنگ روٹ کو طلب کیا گیا تھا اور ان کی لاش اٹھا کر لاری میں رکھی گئی تھی۔

اسی دوران کانگریس کے لیڈر پرشوتم داس ٹنڈن وہاں پہنچے لیکن ایک لاری آزاد کی لاش کو لے کر روانہ ہوچکی تھی۔

تابوت پر شہر کے کئی مقامات پر پھول برسائے گئے۔ اس دن پورے شہر میں ہڑتال رہی۔

راتوں رات درخت کو جڑ سے کاٹ دیا گیا

جس درخت کے نیچے آزاد مرے وہاں ہر روز لوگوں کا ہجوم آنا شروع ہو گیا۔ لوگوں نے وہاں پھول چڑھانا اور دیے روشن کرنا شروع کردیا۔ برطانوی حکومت نے اس درخت کو جڑوں سے کاٹ کر اس کا نام و نشان مٹا دیا اور وہاں زمین کو مسطح کر دیا گيا۔

اس کی لکڑی کو لاری سے اٹھا کر کہیں اور پھینکوا دیا گیا۔

بعد میں آزاد کے چاہنے والوں نے اسی جگہ پر جامن کا دوسرا درخت لگایا اور جس مولسری کے درخت کے پیچھے ناٹ نے پناہ لے رکھی تھی اس پر آزاد کی گولیوں کے نشان موجود تھے۔

آزاد کی راکھ کا ایک حصہ سوشلسٹ رہنما آچاریہ نریندر دیو بھی لے گئے تھے۔ اور ودیا پیٹھ میں جہاں آزاد کی یادگار کا پتھر رکھا گیا تھا وہاں اسے چھڑک دیا گیا۔

آزاد کی موت کے ساتھ ہی ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن آرمی (ایچ آر ایس اے) ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔

ایک ماہ کے اندر 23 مارچ سنہ 1931 کو بھگت سنگھ، راجگورو اور سکھدیو کو بھی پھانسی دے دی گئی۔

اتنے کم وقت میں اتنے سارے رہنماؤں کی موت سے ایچ آر ایس اے کو بہت زیادہ نقصان پہنچا جس سے وہ کبھی بھی نکل نہیں سکی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments