جنرل حمید گل سے جنرل ظہیر الاسلام تک


جس طرح برصغیر کی تاریخ سے ظہیر الدین بابر جلال الدین اکبر، شاہ جہاں، گاندھی اور قائداعظم کو الگ نہیں کیا جا سکتا اسی طرح پاکستان کی سیاسی تاریخ سے جنرل ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاءالحق، پرویز مشرف، حمید گل، اسد درانی، اسلم بیگ، شجاع پاشا، ظہیر الاسلام اور ر دیگر کئی وقت کے ساتھ تاریخ کے اور aق میں گم ہونے والوں کو بھی کسی طرح فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

افغان جنگ کے دوران حمید گل صاحب نے جلال آباد کی فتح کی نوید کیا سنائی کہ پیر پگاڑا نے انہیں فاتح جلال آباد کا خطاب بھی دیدیا۔ فاتح جلال آباد نے جس طرح ہمیں امریکی امداد اور جنگی حرب اور سیاسی تصادم اور محاذ آرائی کے ساتھ کردار کشی کی روایات کو جنم دے کر اسباق سکھائے تھے اس پر اب ان کے فرزند ارجمند کے علاوہ کوئی تعریف کرنے کے تیار نہیں۔

اکیلے فاتح جلال آباد کابل، دہلی، سری نگر، عملی طور پر فتح کر کے دے گئے تھے اور یورپ سمیت امریکہ کو فکری انداز میں پرمغز بنا کر ہماری جھولی میں ڈال گئے۔ انہوں نے افغانستان میں معرکہ مارنے کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک بڑا کارنامہ سرانجام دیا جس کو وہ اسلامی جمہوری اتحاد کا نام دینے میں کامیاب ہوئے اس کی بدولت سیاست اس قدر نفرت باہمی چپقلش، منفی رویوں، انتقام، اخلاقیات سے بالاتر اور اتحاد کو پارہ پارہ کرنے میں اس قدر کامیاب ہوئی کہ مجبوراً حکیم سعید، دہلوی شہید، عبدالستار ایدھی، جسارت کے ایڈیٹر صلاح الدین، ڈاکٹر غلام مرتضیٰ شہید اور کوئی دیگر با عزت باوقار مجسم شرافت کے معماروں کو بھی سیاست سے توبہ عمران خان کے ہاتھوں کرنا پڑی۔ زیڈ اے سلہری بھی ان میں شامل تھے

یہ پروگرام اتنا، ”مربوط“ اور ”منظم“ اور ”دلکش“ تھا کہ سبھی نے توبہ کر لی اور ایک وقت پھر وہ آیا کہ فاتح جلال آباد کو کوئی ملنے کو تیار نہ تھا۔ میرے ساتھ انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ آئین منسوخ ہو جانا چاہیے اور پورا ملک صرف قرارداد مقاصد کے بل پر ہی چل سکتا ہے گویا اسمبلیوں کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ موصوف اپنے اقدام پر اس قدر پرجوش ہوا کرتے تھے کہ قاضی حسین احمد، سید منور حسن سے لے کر گلی کے امام مسجد تک کو جہاد اور امریکہ کی تباہی کا مژدہ سنایا کرتے تھے۔ مجال ہے آئی جے آئی نے سیاسی نظام کو جو نقصان پہنچایا اس پر ان کو کوئی ملال ہوتا یا احساس بھی ہوتا۔

موصوف روسو، والٹیئر، ژونگ سے بھی بڑے فلاسفر اور مفکر تھے اے کاش کبھی کوئی الیکشن ہی جیت لیتے۔ بعض لوگ ان کے اقدامات سراہتے ہیں مگر پرویزمشرف ان کے خلاف ٹی وی مذاکروں کے لئے دیگر شرکا کو دل کھول کر داد دیا کرتے تھے۔ جہاں تک اسد درانی کا تعلق ہے انہوں نے سپریم کورٹ میں بیان حلفی داخل کروایا تھا کہ انہوں نے نواز شریف، ظفر اللہ جمالی، مصطفی جتوئی سمیت کئی سیاستدانوں کو انتخابات کے لئے رقوم دی تھیں۔

یحییٰ خان پورے فوجی و سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیے گئے تھے جناب! اسلم بیگ کی مدت ملازمت ختم ہونے سے کئی ماہ قبل آصف نواز جنجوعہ کی تعیناتی کا حکم جاری ہوا تھا۔ جنرل نیازی کے بارے میں کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں وہ غالباً خود صاحب کتاب ہیں ہاں البتہ ائر مارشل اصغر خان مرحوم ایک نہایت با اصول سیاستدان بن کر عوام کی نظروں کے سامنے رہے اور جو پذیرائی ان کو حاصل ہوئی وہ اس کو اکثر سیاستدانوں کی طرح برقرار رکھ نہ سکے اور پھر کتاب ”جرنیل سیاست میں“ لکھ دی۔ بہت بڑی شخصیت تھے مگر ترکہ میں جو سیاست چھوڑی اس کی وجہ سے ایک صاحب جو وزیراعظم تک تو بن گئے مگر خود تحریک انصاف میں اچھی باوقار جگہ نہ بنا سکے۔

شبلی فراز اس قابل تو نہیں کہ ائر مارشل صاحب کے بارے میں لکھتے ہوئے ان کے بارے میں لکھا جائے مگر شومئی قسمت کہ علی اصغر خان کے بجائے وہ سینیٹ کے رکن بن گئے گویا سیاست جرنیلوں کا نہیں شاعروں کی اولاد کا کھیل بن گیا۔

جناب اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت سے محترمہ بے نظیر بھٹو نے لفظی طور پر نوازا تھا پھر بھی بیگ صاحب سپریم کورٹ میں تاریخیں بھگتے رہے مگر سیاست کی پرخار وادی میں سفر جاری نہ رکھ سکے۔ فوجی تھے سیاست کے شطرنج پر آئے ضرور مگر کوئی کردار ادا نہ کر سکے ماسوائے چند نئی سیاسی رنگ بازیوں کے علاوہ۔ تھے تو وہ بھی آخر حمید گل کے کمانڈنگ افسر ، خوب کردار ادا کیا اور محمد خان جونیجو کی قانونی اور آئینی حکومت بحال نہ ہونے دی۔ واقعات بتاتے ہیں کہ جناب وسیم سجاد پیغام رساں کبوتر کا کردار ادا کرنے گئے تھے۔ سپریم کورٹ پروٹوکول کی آئی ہوئی گاڑیاں بغیر وزیراعظم کو لئے واپس لوٹ گئیں پھر کیا قسمت کے رنگ بدلے۔

جناب اسلم بیگ کو جن کو ترقی محمد خان جونیجو نے ضیاءالحق کی ناراضگی کے باوجود دی تھی اور انہوں نے جونیجو صاحب کی حکومت بحال نہ ہونے دی ان سے ملنے حامد ناصر چٹھہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی کے گھر تشریف لائے، جونیجو صاحب سے انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مسلم لیگ جونیجو کا حصہ بننا چاہتے ہیں ان کا جونیجو صاحب نے خیر مقدم کیا اور گرین بلڈنگ چوبرجی لاہور میں ان کے دفتر میں پریس کانفرنس کا انعقاد کروا دیا گیا۔ خاکسار بھی اس پریس کانفرنس میں شریک ہوا۔ بیک گراؤنڈ سے پوری طرح واقف تھا ابھی بات شروع ہی ہوئی تھی کہ تو مجھے ہم کلام ہونے کا موقع ملا۔ عرض کیا کہ کیسا محسوس کرتے ہیں کہ جس شخص کی حکومت آپ نے بحال نہ ہونے دی اس کی جماعت کی پچھلی نشست پر بیٹھیں گے۔

سوال کیا تھا ایک بھونچال تھا۔ حضرت جس قدر لفظوں کا استعمال کر سکتے تھے جواب بھی ویسے ہی موصول ہو رہے تھے مسلم لیگ کی شمولیت ایک طرف رہ گئی۔ اب بھی معاملات کنٹرول سے باہر نہ تھے مگر اخلاقیات کے دائرے میں رکھنا میری اور ان کی ذمہ داری تھی۔ میرا خیال تھا کہ جرنلزم مقدم ہے اور ان کے نزدیک وہ خود مقدم تھے۔ اس نا مکمل پریس کانفرنس کے بعد انہوں نے غیر سیاسی زندگی گزارنے کا اہتمام کر لیا تھا۔

جناب پرویز مشرف کی چوائس اشفاق پرویز کیانی اور شجاع پاشا تھے اور پھر ظہیر الاسلام صاحب۔ اتفاق سے 1988 ءمیں لاہور سے قومی اسمبلی کی ایک نشست جنرل انصاری نے 46 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کر کے پیپلز پارٹی سے جیتی تھی۔ مثال تو درحقیقت جنرل مجید ملک کی چکوال سے جیت کی دینی چاہیے۔ سیاستدان جس طرح میدان جنگ میں حکمت عملی طے نہیں کر سکتا اس طرح فوجی بھی بعض کام انفرادی کام کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ جنرل مشرف بار بار کہتے تھے کہ سیاسی چال بازی نہیں آتی اور آ بھی نہیں سکتی تھی وہ مختلف قدآور سیاسی شخصیات سے طویل مشاورت کیا کرتے تھے اور اکثر سیاسی رہنماؤں کی رائے کو فوقیت دیتے تھے تا وقتیکہ جال میں نہ پھنس گئے تھے۔

انہی دنوں ایک ریٹائرڈ فوجی جرنیل نے شاید اپنے پرانے ریٹائرڈ ساتھیوں کے ساتھ نیا مشورہ اور نئی صف بندی کر کے ملکی سیاست میں نیا باب تحریر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ تھنک ٹینک تک تو ٹھیک ہے مگر مجھے ٹینک کے گولے کے سائز کا علم مجھے تو نہیں اور انہیں سیاست کا علم کیسے ہو گا؟ عالمی حالات اور ہمارے سماجی معاشی و سیاسی حالات کا تقاضا ہے کہ گرم کوئلوں پر قدم نہ ہی رکھا جائے تو بہتر ہو گا اور اگر پھر بھی شوق جنون عود کر آیا ہے تو براہ راست قسمت آزما لی جائے ممکن ہے ہزاروں لوگوں کی آج کی حکمت عملی ان کی ماضی کی حکمت عملی سے زیادہ مناسب ہے۔

میرے نزدیک جس جہاد کا اہتمام جنرل حمید گل نے کیا تھا اب اس کی زمام کار ظہیر اسلام کے دست راست میں ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں جنرل صاحبزادہ یعقوب خان، وحید کاکڑ، آصف نواز جنجوعہ، جنرل موسیٰ، جنرل عثمان مٹھا، جنرل اعظم خان اور بیسیوں ایسے ہیں جنہوں نے دفاع وطن کے لئے خدمات سرانجام دے کر تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف سے لکھوایا ہے۔ پاکستان کا نیوکلیر پروگرام ان ذمہ دار جرنیلوں کے بغیر پورا ہی نہیں سکتا تھا جو کبھی عوامی تقریبات میں آتے ہی نہ تھے۔ میرے نزدیک یاد ماضی عذاب بن سکتی ہے۔

عظیم چوہدری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عظیم چوہدری

عظیم چوہدری پچھلے بیالیس سالوں سے صحافت اور سیاست میں بیک وقت مصروف عمل ہیں ان سے رابطہ ma.chaudhary@hotmail.com پر کیا جاسکتا ہے

azeem-chaudhary has 39 posts and counting.See all posts by azeem-chaudhary

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments