امریکہ کا آسیب



گزشتہ صدی کا آٹھواں عشرہ ہمارے ملک کے ساتھ وابستہ ملکوں اور خود پاکستان کے لیے بہت زیادہ اہم تھا جب طاقت اور سیاست کے محور بدلے تھے اس خطے کے ملکوں خصوصاً پاکستان، افغانستان، ایران کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں میں رد و بدل ہوا تھا بلکہ یوں سمجھیں کہ اس خطے کے حالات کے پس منظر میں دنیا بھر کے مقدر کے یکسر بدل جانے کا آغاز ہوا تھا۔ پاکستان دو وحدتوں کی بجائے ایک وحدت رہ گیا تھا اور دوسری وحدت ایک بالکل ہی نئے اور مخالف ملک کی شکل میں ابھری تھی۔

پاکستان میں ایک طویل آمریت کے بعد اور جیسا بھی پاکستان بچ رہا تھا، کی باگ ڈور سیاستدانوں کو سنبھالنے کا موقع دیا گیا تھا۔ افغانستان میں بادشاہ کو معزول کر کے ریاست کو جمہوری شکل دی گئی تھی۔ پاکستان میں ایک بار پھر جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا تھا ملک کے منتخب وزیر اعظم اور نامور سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو پر مقدمہ چلایا گیا تھا ، پھانسی کی سزا دی گئی تھی اور سزا پر عمل درآمد کروایا گیا تھا۔ ایران میں شاہ رضا پہلوی کے خلاف شدید احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے، آخرکار خطے میں امریکہ کے منظور نظر شخص کو ملک چھوڑتے ہی بن پڑی تھی اور ایران میں اسلامی انقلاب آ گیا تھا۔

اس انقلاب سے ایک سال پہلے افغانستان میں کمیونسٹوں کی سرپرستی میں ”انقلاب ثور“ برپا ہو چکا تھا۔ امریکہ کے مفادات کو اتنا شدید دھچکا اس سے پہلے کبھی نہیں لگا تھا۔ خطے میں اس کی تھو تھو اور کرکری ہو گئی تھی۔ ایران میں ”مرگ بر امریکہ“ کا نعرہ زبان زدعام ہو گیا تھا جبکہ افغانستان میں ویسے ہی امریکا کا نام لیوا کوئی نہیں تھا، پھر سوویت فوجوں کے وہاں آ جانے کے بعد ، دوست کا دشمن، روس دوست افغانوں کے لیے دشمن بن چکا تھا۔

جنوب مشرقی خطے کے عین قلب میں ان دو انقلابات کے بعد وہائٹ ہاؤس کی تو سٹی گم ہو چکی تھی لیکن سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے پولٹ بیورو اور بالخصوص برزنیف کی ایک غلطی کے عمل میں ڈھلتے ہی امریکہ کو پھر سے ہوش آ گیا تھا۔ اگرچہ اس کے سیاسی اور جغرافیائی مفادات کو ایران کے ہاتھ سے نکل جانے کے باعث زیادہ زک پہنچی تھی لیکن تب نہ وقت تھا اور نہ ہی کوئی جواز، کہ اسلامی انقلاب کے نام لیواؤں کے خلاف معرکہ آرائی کی جاتی۔

افغانستان کا انقلاب اگرچہ کمیونسٹوں کی سرپرستی میں آیا تھا تاہم ایسے میں بھی، کمیونزم کے پھیلاؤ کو محدود کرنے کی اپنی پرانی پالیسی کے تحت کوئی انتہائی اقدام لینے سے عالمی حمایت کا حاصل ہونا مخدوش تھا۔ مگر سوویت فوجوں کے وہاں در آنے سے ایک تو امریکہ کو بڑا جواز میسر آ گیا تھا، دو سرے امریکہ کے پرانے معشوق ملک پاکستان نے اس کے زیادہ کام آنے کی حامی بھر لی تھی اور کمیونزم سے اس کی معاندت کا ادھار چکانے کی تمام تر ذمہ داری اپنے سر لے لی تھی۔

افغان مذہب پرستوں کو ملحد روس کے خلاف بھڑکانے اور جہاد پہ اکسانے سے لے کر ان کی اپنے ملک میں عسکری تربیت تک اور افغانستان کے مہاجرین کو قبول کرنے سے جنگ کے لیے موصول شدہ اسلحے کے اپنے ملک میں محفوظ گودام رکھنے تک کا سارا کام خود پہ لے لیا تھا۔ یہی وہ موقع تھا جب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں ایک پیچیدہ تبدیلی واقع ہوئی تھی۔ بنیاد پرست حکمران جنرل ضیاءالحق کی سربراہی میں پاکستان کی عسکری طاقت کو پہلا موقع ملا تھا کہ نام نہاد عاشق ملک سے مطالبات کیے جا سکتے تھے اور مفادات اٹھائے جا سکتے تھے۔

دوسری طرف امریکہ بھی قرون وسطٰی کا مشرقی عاشق نہیں تھا بلکہ مغرب کا پروردہ اور سرکردہ ”پلے بوائے“ تھا، جسے معشوق کے ساتھ شب بسری پر اٹھنے والے اخراجات کی پائی پائی کا حساب بھی رکھنا آتا ہے اور جو اخراجات سے زیادہ لطف لینے سے چوکتا بھی ہر گز نہیں ہے۔ کسی کو رام کرنے اور دل جیتنے کے لئے اخراجات تو بہر طور کرنے پڑتے ہیں لیکن اس پر عائد ذمہ داریوں سے مستفید ہونے اور اس کے توسط سے دیگراn سے تعلق کی منصوبہ بندی بھی عاشق کی بجائے کھلاڑی ہی کر سکتا ہے۔

تھکے ہوئے سوویت یونین کا چھاپہ مار جنگ سے نڈھال ہو کر ہانپ جانا جس کے بعد اختلاج قلب اور پھر دل کا دورہ پڑنا اور انتقال کچھ اتنا غیر ممکن نہیں رہتا، تو پہلا اور بنیادی مقصد تھا مگر اس کے بعد کے اہم ترین مقاصد میں سوویت یونین کے امکانی انہدام کے بعد وجود میں آنے والی مرکزی ایشیائی ریاستوں تک براہ راست رسائی کا حصول، ایران پر گہری نظر رکھے جانا، بالواسطہ مداخلت اور ضرورت پڑنے پر انتہائی اقدام کی خاطر نزدیک ترین مستقروں کی موجودگی اور دستیابی لیکن ان سب سے بڑھ کر مستقبل میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرنا شامل تھے۔

ہم کوتاہ بین اقوام و ممالک تو عارضی اور فوری مقاصد کو ہی پیش نظر رکھ کر وقت بتاتے ہیں لیکن بڑی قومیں اور بڑے ملک کم از کم ایک صدی آگے دیکھتے ہوئے ہی مناسب منصوبہ بندی کرتے ہیں افغانستان میں سوویت یونین کے ساتھ جنگ کی وجہ سے دو ملکوں پر براہ راست زد پڑتی تھی یعنی سوویت یونین پر جنگی اخراجات اور جانی و مالی نقصان کے باعث اور پاکستان پر افغانستان سے مہاجرین کی آمد اور دنیا بھر سے جہاد کے نام پر اکٹھے کیے گئے بنیاد پرستوں کی موجودگی اور بعد کے سالوں میں خود پاکستانی معاشرے پر پڑنے والے اثرات کے باعث، لیکن امریکہ پر اس جنگ کا براہ راست قطعی کوئی اثر نہیں پڑتا تھا۔

پھر ایسا ہوا بھی کہ پہلے سے کمزور سوویت یونین میں جنگ سے پہنچنے والے نقصانات کا اثر پڑا اور تبدیلیوں کا عمل جو ویسے تو ایک ضرورت تھا لیکن سرعت کے باعث یہ عمل وہاں کے نظام اور انجام کار متحدہ ریاست کی شکست و ریخت کا باعث بنا۔ پاکستان میں ہیروئین، اسلحے، جرائم اور دیگر سماجی برائیوں کی بناء پر پورا معاشرہ ابتذال کا شکار ہو گیا۔ اس اثناء میں امریکہ سانس لے چکا تھا، مزید ڈالروں کے ڈھیر لگا چکا تھا۔ مرکزی ایشیائی ریاستیں نہ صرف وجود میں آ گئی تھیں بلکہ معاشی طور پر پنپنے بھی لگی تھیں۔

ایران نے پر پرزے نکالنے شروع کر دیے تھے۔ چین بڑی معاشی قوت بن کر امریکہ کے اندازوں کے مطابق نئی نوع کے خطرے کی شکل میں سامنے آنے لگا تھا اور امریکہ کہ اپنے عوام کو قابو رکھنے اور دنیا کو دھلائے رکھنے کے لئے سوویت یونین اور اس کے کمیونزم جیسا دشمن بھی نہیں بچا تھا۔ امریکی سرکاری، نیم سرکاری اور تا حتٰی آزاد ماہرین تک مستقبل میں پیدا ہونے والے ان معاملات سے آگاہ تھے لیکن دشمن لازمی ہونے کی ضرورت سے صرف ریاست اور اس کے سی آئی اے و پنٹا گان جیسے ادارے ہی آگاہ تھے کیونکہ وہ مستقبل کا ایسا دشمن پہلے ہی، پہلے سے ہی بنیاد پرست اور انتہا پسند مسلمانوں کی صورت میں پروان چڑھا چکے تھے جن کی ایک تنظیم القاعدہ امریکہ دشمنی کے عملی عسکری مظاہرے بھی کرنے لگی تھی۔

اب کسے بڑے واقعے کی کسر باقی رہ گئی تھی جس کی بناء پر امریکہ کو جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطٰی میں عسکری مداخلت کا کھلا کارڈ میسر آ سکتا 11 ستمبر 2011 کے واقعے نے یہ موقع فراہم کر دیا تھا۔ کیا یہ امریکہ کی خوش قسمتی تھی کہ ایسا واقعہ ہوا یا یہ واقعہ انتہائی مہارت سے پلان کیا گیا تھا، اس پر اب بحث بے سود ہے کیونکہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔ چونکہ اس زمانے میں القاعدہ کا سربراہ افغانستان میں تھا جہاں طالبان بر سر اقتدار تھے، جو اس خواب خرگوش میں مبتلاء تھے کہ اگر وہ سوویت یونین کے چھکے چھڑوا سکتے ہیں تو امریکہ بھی ان کے سامنے ہیچ ہو گا۔

امریکہ یہ جانتا تھا کیونکہ یہ سوچ طالبان کے ذہنوں میں امریکہ کی سی آئی اے کی پالیسی کے مطابق پاکستان کی آئی ایس آئی کے ان اہلکاروں نے جاگزین کیا تھا جو ان کی عسکری اور سیاسی تربیت پہ مامور تھے۔ یہی تصور اسامہ کو امریکہ کے حوالے نہ کیے جانے کی ضد بن گیا تھا اور یوں امریکہ کے لیے وہ کام کرنے کا راستہ ہموار ہو گیا تھا جو وہ کرنا چاہتا تھا یعنی خطے میں اپنی عسکری موجودگی کو یقینی بنانا۔ ساتھ ہی مشرق وسطٰی میں اپنی عسکری بالا دستی جتائے جانے کی خاطر تھوڑے ہی عرصے میں عراق پر بھی دھاوا بول دیا تھا۔

مشرق وسطٰی میں تیل کے منابع پہ دسترس کے علاوہ اس خطے میں طویل عرصے سے اقتدار پر قابض رہنے والوں کے خلاف، رابطے اور ابلاغ کے جدید ذرائع کے توسط سے لوگوں اور خاص طور پر نوجوانوں کو ان حکمرانوں کے خلاف ابھارنا بھی مقصود تھا اور ہے۔ بادی النظر میں یہ اقدام انقلابی، جمہوری اور انسان دوست دکھائی دیتا ہے لیکن دراصل اس کے پیچھے بھی امریکی پالیسی سازوں کی منطق ہے کہ پرانے ڈھانچے کو توڑ کر نیا ڈھانچہ استوار کرنے میں مدد دی جائے اور نئے آنے والوں کے ساتھ نئی نوع کے زیادہ بہتر تعلقات استوار کیے جائیں۔

امریکہ مخالف لہر دیکھنے میں لگتی ہے جیسے یہ مقامی طور پر ہی ابھر کر سامنے آئی ہے لیکن اگر کہا جائے کہ یہ آدھا سچ ہے یا یہ کہ پورا سچ نہیں ہے تو اتنا غلط نہیں ہو گا۔ جہاں جہاں امریکہ کے خلاف مخالفت کا دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا ہے، ظاہر ہے ان خطوں یا ملکوں میں امریکہ کسی نہ کسی حوالے سے کسی نہ کسی شکل میں نہ صرف موجود ہے بلکہ وہاں کی حکومتوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ غور کیا جائے تو واضح ہو گا کہ اگر امریکہ نے اپنے طور پر خود لوگوں کو اپنے خلاف نہیں اکسایا تو اس نے اپنے خلاف بھڑکنے والے جذبات کو سرد کرنے کی بھی کوئی سعی نہیں کی۔

امریکہ کے خلاف موجودہ منفی رجحان زیادہ تر دائیں بازو والوں اور خاص طور پر مذہبی تنظیموں اور لوگوں میں پایا جاتا ہے جو بات بے بات، ہر مسئلے کا ذمہ دار امریکہ کو گردانتے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ کے موجودہ مخالف اور سابقہ حواری بنیاد پرست اور دہشت گرد امریکہ کے خلاف جنگ کے نام پر ایسے ملکوں کے عوام کو، جہاں امریکہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے، نشانے پہ لئے رکھتے ہیں اور قیامت توڑتے رہتے ہیں۔ جتنا زیادہ امریکہ مخالف چرچا ہو گا اتنی ہی دہشت گردی بڑھے گی۔

دہشت گردی جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو امریکہ کو براہ راست عسکری یا سیاسی مداخلت کا جواز مل جاتا ہے۔ سیاسی مداخلت سے مراد عوامی ابھار کو فزوں تر کر کے پورے ڈھانچے کو بدلنے کی کوشش کرنا ہے۔ جب یہ عوامی شورشیں کامیاب ہو جاتی ہیں، جنہیں غلطی سے یا جان بوجھ کر انقلاب کی سند دی جا رہی ہے تو اس کے نتیجے میں اقتدار میں آنے والے لوگ دائیں بازو کے مذہبی لوگ ہی ہوتے ہیں کیونکہ ان کی پارٹیاں منظم بھی ہیں اور مضبوط بھی جیسے اخوان المسلمین یا جماعت اسلامی۔

ایسی جماعتوں کی امریکہ دشمنی موقتی نوعیت کی ہے تاکہ اس نعرے تلے عام لوگوں کو ورغلاء کر ان کا دل جیت سکیں اور اقتدار میں حصہ پا لیں۔ حال تو وہی ہونا ہوتا ہے جو مصر میں ہوا یعنی اکتیس سال سے کالعدم اخوان المسلمین کی ذیلی سیاسی پارٹی برائے انصاف و آزادی کو حکمرانوں نے تسلیم بھی کر لیا اور اس کے عوض اخوان المسلمین نے بھی امریکہ کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ امریکہ کو آسیب بنا کر پیش کرنے والے بھی وہ ہی ہیں جو ایک عرصے سے امریکہ کے جادو کے اثر میں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments