پیوما (1)


Puma

ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ کی ملازمت کی وجہ سے اسلام آباد والوں کی خوشنودی کو نقل کفر، کفر نہ باشد کے مصداق تقریباً رضائے الہی کا ابتدائی درجہ دیتے تھے۔ مزاجاً بھی وہ سعادت مندی کے تندور میں پکے ایسے افسر تھے جو پیر، افسر اور معشوق کی ناراضگی کو عین الکفر سمجھتے تھے۔ ان کے معمولی سے اشارے پر بچھ بچھ جاتے۔ سعدی کی رپورٹوں پر سینہ ٹھونک کر وہ اپنا نام پی بی گھانگرو ایم اے سندھی لٹریچر۔ ایل۔ ایل۔ بی سینئر ڈائریکٹر لکھتے تھے اور اسلام آباد بھیج دیتے تھے۔

یہ رپورٹیں تیر بہدف اور دیگر ذرائع سے موصول شدہ اطلاعات سے ہم آہنگ اور لب و لہجے کے اعتبار سے زیادہ کھری اور کاٹ دار ہوتی تھیں۔

ان رپورٹوں کے موصول ہوتے ہی صدر دفتر میں گھانگرو صاحب کی قابلیت کے نقارے بجنے لگے۔ یوں بھی اس شہر اسلام آباد میں جہاں چھوٹے بڑے سبھی ایک دوسرے کی پلیٹ سے نوالے اٹھا کر بھاگنے کی فکر میں ہوتے ہیں۔ انہوں نے فیاضی کی ایسی ریت ڈال دی تھی کہ وہاں ان کی آمد کا وظیفہ خوار ماتحت عملے میں بے صبری سے انتظار رہتا تھا۔

یہ رپورٹیں بعد میں سندھ کے مقامی سیاست دانوں سے مال کے بدلے مال کے عوض بارٹر ہوتی تھیں۔ خود گھانگرو صاحب کسی نہ کسی بہانے رپورٹ ارسال کرنے کے و دن بعد اسلام آباد پہنچ جاتے۔ کراچی میں مخبروں میں بانٹے جانے کے لیے مختص سیکرٹ فنڈ میں سے نکالے ہوئے کے ایک لاکھ روپے ادارے کے نچلے عملے میں بانٹ دیتے جس کی وجہ سے دفتر کا عملہ انہیں وڈیرہ گھانگرو سائیں کہا کرتا تھا۔

chand bharwana

اس فنڈ کا مقصد یوں تو سندھ میں تخریب کاروں کے بارے میں اہم معلومات خریدنا تھا مگر سندھ کے افسر جانتے تھے۔ اسلام آباد میں ایمانداری کا ہر بھاشن ایسا ہے جیسا پوپ کی راجدھانی وٹیکن کا۔ عیسائیت کے اس دھرم پورے کے لیے دنیا بھر میں یہ خیال عام ہے کہ دین، چینی مال کی طرح مینوفیکچر یہاں ضرور ہوتا ہے مگر بکتا کہیں اور ہے۔ جیسے امریکہ میں ڈی ڈی ٹی Dichloro۔ Diphenyl۔ Trichloroethane نامی کیڑا مار دوا جس کا وہاں بنانا جائز مگر بیچنا اور استعمال کرنا ممنوع تھا۔ ایمانداری اسی طرح اسلام آباد میں مینوفیکچر ضرور ہوتی ہے مگر بکتی دوسرے مقامات پر ہے۔ سیاسی پاکستان میں سندھ کے لوگ سب سے زیادہ باشعور ہیں۔ ان کے حوالے سے اسی ادائیگی کا چمتکار تھا کہ ان کے خفیہ بیورو کا ہر کاغذ، ہر اطلاع، ہر میٹنگ کی تحریری کارروائی ماتحت عملہ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر انہیں ستارہ مارکیٹ سے ان کے پالے ہوئے فوٹو اسٹیٹ والے کے ہاں سے گھانگھرو صاحب کے گھر کے فیکس نمبر پر آباد آ دھمکتے تھے۔ سیکرٹ فنڈز سے مخبران خاص کی ادائیگی کے لیے مختص رقوم کے لفافے وہ صدر دفتر کے ماتحت عملے میں کھلے دل سے تقسیم کرتے۔ صدر دفتر میں ان کی شہرت ایک رئیس وڈیرے کی تھی۔ وہاں یہ تاثر عام تھا کہ یہ تبسم اور فیاضی ان کے مزاج کا حصہ ہے۔

ہیڈ کوارٹر میں تعینات کسی ناآسودہ وظیفہ خوار کو کبھی ان کی اس لکھ لٹ طبیعت پر تجسس بھرا اعتراض ہوتا تو وہ کہتے ”بابا سندھ قلندر اور صوفیوں کا ڈیرہ ہے۔ اللہ نے ہم کو سمندر بھی دیا ہے اور سمندر جیسا دل بھی۔ صوبے میں سیاست سڑکوں، ایشوز یا نظریات کی بنیاد پر نہیں بلکہ مٹی مائٹی ( سندھی زبان میں رشتہ داری) کی پٹریوں پر بلٹ ٹرین کی طرح چلتی ہے۔ یہ دو ہزار ایکسٹرا  لے۔ بابا ہمارے سندھ کو بری نظر سے مت دیکھ ہم مسکین لوگ ہیں۔ انہیں محافل اور کچہریوں (سندھی زبان میں ملاقات) سے سمیٹی گئی معلومات کو وہ ری سائیکل کر کے ہیڈ کوارٹر بھجوا دیتے تھے۔ یوں اس شاہراہ اطلاعات پر دو طرفہ ٹریفک بلارکاوٹ جاری رہتا۔

thokar niaz beg

گھانگرو صاحب کی سرکاری زندگی میں سعدی نے قدم رکھا تو ان کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو طاقت کی ایک نئی معجون فلک سیر مل گئی۔ دن میں اسلام آباد کے صدر دفتر سے چوری شدہ معلومات اور شب کے پھولوں کو چوم کر جمع کی گئیں قطرہ قطرہ سرگوشیاں، پلے بوائے گھانگرو دفتر میں لنچ پر سعادت مند سعدی سے شیئر کرتے۔ اپنے ہی دفتر میں اسے بٹھا کر بیوٹی پارلر سے سجی دلہن کی مانند اس کی رواں دواں اور دنیا دار انگریزی میں ایک رپورٹ بنا کر دفتر چھوڑنے سے پہلے اسلام آباد بھجوا دیتے۔ رات گئے تجزیے کی بارہ مسالے کی چاٹ والا یہ اطلاعات نامہ اسلام آباد میں وزیر اعظم یا صدر کا پرنسپل سیکرٹری پڑھ رہا ہوتا۔ اس متعلقہ پرنسپل سیکرٹری یا سیکرٹری داخلہ کی نوکری کے ایام باقی ہوتے تو وہ یہ اطلاعات باجی اداروں یعنی Sister Agencies کے ساتھ جام گھٹکا کر دیگر طاقت ور ہستیوں سے Reference to Context صلے اور ستائش کی روشنی میں میلاد کے عطر کی مانند ہاتھوں ہاتھ بانٹتا اور من کی مراد پا جاتا۔

ان رپورٹس نے جب ہیڈ کوارٹر میں دما دم مست قلندر کرنا شروع کیا تو وزیر اعظم سیکرٹریٹ کی خصوصی ہدایت پر گھانگرو صاحب کا دو سال کے لئے ملازمت میں مزید توسیع کا کنٹریکٹ جاری ہو گیا۔ اس طوالت نامہ ء خدمت گزاری کے بعد انہوں نے سعدی کی رپورٹوں سے چھیڑ چھاڑ کم کردی۔

ان رپورٹوں کی دھار آئے دن خنجر آب دار ہوتی چلی جا رہی تھی۔ گھانگرو صاحب بالخصوص مذہب کے لبادے میں ملبوس دہشت گرد تنظیم کے بارے میں سعدی کی کسی بھی رپورٹ کے ساتھ صرف اپنا معصوم سا آگے بڑھانے والا Covering Note لگاتے۔ انہیں بخوبی علم تھا کہ سرکار میں سوائے ٹوائلٹ پیپر کے کوئی دستاویز خفیہ نہیں ہوتی۔ لہذا کم لکھو اور موج کرو۔

teen talwar

یہ تنظیمیں اب نظام میں بہت حد تک سرایت کرچکی تھیں۔ انتقام بھی بہت بھیانک انداز میں سرد مہر منصوبہ بندی اور عجلت سے بے نیاز ہو کر لیتی تھیں۔ کراچی کے ایک پولیس افسر بہت بے رحم بھی تھے اور دشنام طراز بھی۔ جھوٹی سچی کارروائیوں اور ہیڈ مینی (سر کی قیمت ) کے برتے پر مال بھی بے تحاشا بناتے تھے۔ بیگمات کا بھی ایک طویل سلسلہ تھا اور حرم بھی بہت آباد تھا۔ ایک دوپہر مقامی طالبان کے کسی گروپ کے ایک رہنما کو جب تک مار پڑتی رہی معاملہ ٹھنڈا رہا۔ گالیوں کا سلسلہ دراز ہوا تو اس نے کہا ایسا نہ ہو جو زبانی کہہ رہے ہو وہ تمہاری گھر کی عورتوں کے ساتھ عملاً کر کے تمہیں ویڈیو دکھا دی جائے تو تم سے برداشت نہ ہو سکے۔ شام میں بیگم، بہن اور سالی کسی پارلر سے تیار ہوئے مہندی میں جانا تھا۔ مہندی میں نہ صرف ایک ویٹر نے انہیں پرچی دی کہ اگلی دفعہ بغیر بارات کے رخصتی ہو جائے گی لہذا اپنے بیوڑے کو سمجھا لیں۔ ابھی پرچی کا اثر کم نہ ہوا تھا کہ تینوں کے فون پر یہی ایک پیغام موصول ہوا۔ راتوں رات اس کو چھوڑ دیا گیا۔

گھانگرو آن کنڑیکٹ نے سعدی کو سمجھایا بھی کہ ”بابا جانی، میرے مٹھڑے، میرے پنھل، اپنی رپورٹوں میں ذرا ہاتھ ہولا رکھ۔ ہم کو کیا معلوم اسلام آباد میں ہماری رپورٹ کس کس کے پاس جاتی ہے۔ سعدی نے ساری عمر سچ سے سمجھوتا نہیں کیا تھا۔ وہ کب مڑنے والا تھا۔ سو پلے بوائے گھانگرو کی یہ چتاونی بھی صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔

سعدی کا ذکر کرنے سے پہلے اور اس حسین رات کا ذکر کیوں نہ کر لیں، جس کی صبح کا ذکر میں نے اپنی موجودہ بیوی بینش مزمل واحدی المعروف بہ بی۔ ایم۔ ڈبلیو المعروف بہ پیوما کے حوالے سے آغاز میں کیا ہے، وہ درحقیقت میری بیوی نہیں۔ وہ میری رہائشی گرل فرینڈ ہے۔ یہ اصطلاح بھی کم بخت سعدی کی ہے۔ اسے اس طرح کی حرکتوں میں بہت مزا آتا تھا۔ وہ کال گرلز کو فاحشۂ تیلیفونی، پنجابی زبان میں نکے بھانڈے کو سمال کراکری، خاندانی دولت مندوں کو Rich from Behind داشتاؤں کو Resident Rundi اور puppy۔ love کو پنجابی میں کتے لاڈیاں دا پیار کہتا تھا۔ اسی حوالے سے انگریزی اصطلاح میں پیوما میری Live in۔ Girlfriend ہے۔ پاکستان میں یہ تعارف چونکہ غیر محفوظ اور بلاوجہ اعتراضات کو دعوت دینے والا ہے۔ لہذا یہاں قیام کے دوران ہم دونوں ایک دوسرے کو رشتۂ ازدواج میں منسلک ظاہر کرتے ہیں۔ سعدی کہتا تھا کہ ہماری سوسائٹی ایسی ہے کہ یہاں رنڈیاں بھی، بدنامی سے ڈرتی ہیں۔ یوں ہمارے اس محتاط اہتمام سے بہت سے کھلے نکتہ چین دہن، بے تاب متجسس آنکھیں پتھرا کے رہ جاتی ہیں۔

Zip Line

ہم دونوں جب امریکہ میں ہوتے ہیں تو یہ open۔ relationship تعلق صوفہ کم بیڈ کی مانند کھل بھی جاتا ہے اور سمٹ بھی جاتا ہے۔ بحیرہ اوقیانوس کے پار اس کے بارے میں ہمارا خاموش معاہدہ یہ ہے کہ مجھے ان کے چاہنے والوں پر اور میرے دلبران راہ گزر پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ امریکی آئین میں مسرت کے تعاقب (Pursuit of Happiness) پر کوئی پابندی نہیں۔ ہم نے ایک باہمی پابندی ضرور عائد کر رکھی ہے کہ ہماری مشترکہ رہائش گاہوں پر بھلے سے وہ عارضی ہی کیوں نہ ہوں کوئی تیسرا فرد مہمان نہیں ہو گا۔

جس طرح قدیم زمانے میں فاتح بادشاہ کو مفتوحین کے حرم مل جاتے تھے اس طرح مجھے پیوما سعدی کی وفات حسرت آیات کے بعد ملی ہے۔ سچ پوچھیں تو پیوما کو سعدی سے ملوانے کا جرم بھی میرا ہے۔ سعدی کی پیوما سے اکثر ملاقاتیں میرے ہی اس فلیٹ پر ہوا کرتی تھیں۔ یہ تذکرہ بعد میں۔

کل سعدی کی دوسری برسی تھی۔ مجھے لگا کہ پیوما کچھ زیادہ ہی اداس ہے۔ میرے جیسے بے ربط (Random) مرد کا، اداس عورت کو بہلانا چھلنی میں برف جمانے کے مترادف ہوتا ہے۔

سو میں نے غنیمت جانا کہ اسے تجویز دوں کہ وہ کچھ دیر کو اپنی بڑی بہن کی طرف اور وہاں سے اپنی سوتیلی امی کی طرف چلی جائے۔ انہیں وہ خالا می یعنی خالہ امی کہتی ہے۔ وہ اس کی سب سے چھوٹی خالہ بھی ہیں (اس کی اپنی والدہ نے طلاق لے کر کسی بھارتی نژاد امریکی ہندو کلیان جی مہتہ سے شادی کرلی اور وہ اب ان کے ساتھ لاس اینجلس میں رہتی ہیں ) ۔ اسی شہر کی ایک نواحی بستی میں پیوما سے میری رفاقت ایک معنی خیز مرحلے میں داخل ہوئی اور وہ میری رہائشی گرل فرینڈ بنی۔ اس کی امی یہاں اس کے بھائی اور بھابھی کے ساتھ رہتی ہیں۔

میں آپ کو بتاتا چلوں کہ پیوما یہاں، اپنی سوتیلی امی، جنہیں وہ خالامی کہتی ہے ان کے زیادہ قریب ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اس کا وہاں امریکہ میں بھی ہے۔ وہ اپنی اصل والدہ روحانہ حسن کی نسبت اپنے سوتیلے ابو، کلیان جی مہتہ سے زیادہ قریب ہے۔

اس کا سگا بھائی جو کسی بین الاقوامی این جی او میں ملازم ہے، وہ آج کل کسی باہر کی پوسٹنگ پر گیا ہوا ہے، اسی لیے پیوما کی بھابھی اپنے دو عدد بچوں کے ساتھ اوپر والی منزل میں رہتی ہیں۔ خالہ امی کی اپنی کوئی اولاد نہیں۔

ایک دن سعدی کہہ رہا تھا کہ اس نے محسوس کیا ہے کہ پیوما کی شخصیت ثانوی رشتوں میں بہتر طور پر پنپتی ہے۔ بنیادی اور قریب کے رشتوں میں اس کا دم گھٹتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ اسے اپنے مرکز سے ذرا دور ہٹ کر جینے کی عادت ہے۔ بنیادی رشتے اس میں ایک احساس بے چارگی پیدا کرتے ہیں۔ پیوما دل کے ہاتھوں مجبور ہو تو خود کو بہت بے دست پا محسوس کرتی ہے۔ اس کی سانس سی رکنے لگتی ہے۔ مرکزی رشتوں کا بنیادی تقاضا دل کے فیصلے ہوتے ہیں۔ اس کا ناز اور اعتماد اپنے دماغ پر زیادہ رہتا ہے یوں وہ ثانوی رشتوں کو بہتر نبھا پاتی ہے۔

اس میں ایک اور عادت بھی ہے۔ وہ ایک رشتے کی موجودگی میں دوسرا رشتہ بہت خاموشی سے اپنا لیتی ہے۔ سعدی اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا گیلانی کی موجودگی میں اس نے مجھے گلے لگا لیا۔ آیت اللہ آپ دیکھو گے میری موجودگی میں وہ کسی اور اپنا لے گی۔ رشتے پر پہلی پھپھوندی (Fungus) دکھائی دیتے ہی وہ اس سے جان چھڑا لیتی ہے۔ تعلقات میں وہ بائی پاس سرجری کی ماہر ہے۔ سعدی کی موت کے بعد اب ایسے مشاہدے بیان کرنے والا کوئی نہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments