پیوما (1)


پیوما کو میں اس کی امی کی طرف اتار کر اپنے صحراؤں کی مانند پیاسے حلقوم والے دوستوں رفیع اور جواد کی طرف چلا گیا۔ دھیمی پھوار اور پھر سندھی دوست کے ہاں میزبانی۔ کیا کیا رہے ہیں حرف و حکایت کے سلسلے۔ خیال تھا کہ رات دیر تک پئیں گے۔ خاندانی وڈیرہ، دسترخوان کا وسیع اور دلدار طبع جواد ایک پائلٹ ہے۔ اس کے ہاں بھی نسوانی دوستوں کی بڑی آوک جاوک لگی رہتی ہے۔ اس شام بھی ایسا تھا۔ ایک فضائی میزبان اور دو سیل فون کمپنی کی ملازم خواتین بھی وہاں مہمان تھیں۔ یہ تینوں شراب کی بوتل سے کہے چلی جاتی تھیں کہ میں پیاس کا صحرا ہوں میری پیاس بجھا دے۔ جام پہ جام لنڈھائے جاتی تھیں اور عالم بے خودی میں سرکاری اور نجی راز کھولے چلے جاتی تھیں۔ لگتا تھا ایک عالم رسائی انہیں دستیاب ہے۔ جواد نے ان میں سے ایک بارے میں بتایا کہ وہ اقتدار کے کن مساکن سے وابستہ خواب گاہوں کے multiple۔ entry visas ہر وقت ان کے پاس ہوتے ہیں۔ سعدی اس طرح کی سماجی تتلیوں کو بیڈ روم بطوطہ کہا کرتا تھا۔ محفل شراب سے مخمور اور دل چسپ تھی مگر نو بجے پیوما کا اچانک فون آ گیا کہ ”آتے ہو؟“ ۔

آپ اگر موسموں کی ادا جانتے ہوں تو یہ آپ کے علم میں ہو گا کہ ہمارے پاک و ہند کے علاقوں میں برسات سے پہلے ماحول میں ایک امس (گھٹی ہوئی گرمی) ہوتی ہے۔ جب یہ حبس ذرا گیلا ہٹ اچک لیتا ہے تو پھر پروائی ( برسات سے پہلے چلنے والی خنک ہوا ) پھبک پھبک کر چلنے لگتی ہے۔ ذرا سی دیر میں تڑاتڑ بوندیں برسنے لگتی ہیں۔ پیوما کے اس ”آتے ہو“ میں ایک امس، ایک دعوت تھی۔ مجھے یہ اندازہ اس کے لہجے میں لگاوٹ اور احتیاط کے ساتھ ایک سپردگی والا تھرو (throw) بھی محسوس ہوا۔ یہ دعوت اپنی سادگی کے باوجود وعدہ وصل کی پھبک اور سپردگی کی فرحت بخش بوندوں سے جل تھل تھی۔

اس نے پوچھا کہ اگر میں جلد آ رہا ہوں تو وہ کسی رشتہ دار کے ساتھ میرے فلیٹ پر ڈراپ لے لی گی۔ میں نے بھی موقع غنیمت جانا اور فرمائش کردی کہ ایک شرط پر کہ وہ چولی بلاؤز والی نیلی شفون کی ساڑھی پہنے گی اور میں لابی میں پہنچ کر مس کال دوں گا۔ دروازے کی گھنٹی نہیں بجاؤں گا۔ وہ میرا دروازے سے لگ کر انتظار کرے گی۔ تب تک نہ تو Fifty Shades of Grey والی تین کتب شائع ہوئی تھیں نہ ہی اس پر اداکارہ ڈکوٹا جانسن والی فلم بنی تھی۔

بہت بعد میں نے جب یہ فلم دیکھی تو سعدی اور پیوما کو بہت اشکبار ہو کر یاد کیا تھا۔ میں نے یہ راز بہت جلد جان لیا تھا کہ اگر کوئی خاتون آپ کا پسندیدہ لباس پہن کر آپ سے ملنے کی منتظر ہو تو بات دور تک جاتی ہے۔ میاں دے نعرے وج جاتے ہیں پنجابی میں کڑاکے کڈ جاتے ہیں۔ آپ کے پہناوئے اور بناؤ سنگھار کی فرمائشوں کی تفصیلات پر جس قدر خوش دلی سے عمل ہو گا، سپردگی کے اہتمام کا پھیلاؤ بھی ایسا ہی وسیع اور مکمل ہو گا۔

چولی بلاؤز والی نیلی شفون کی ساڑھی کی فرمائش اس لیے کی تھی کہ سعدی کی برسی بھی تھی۔ میں اور سعدی جب پہلی بار گیلانی کی ضد اور دعوت پر اس کے گھر گئے تھے تو اس کی بیوی، پیوما نے یہ ہی ساڑھی پہنی تھی۔ عالم سرور میں جب میں اپنے فلیٹ پر پہنچا تو دروازے کا پٹ معمولی سا کھلا تھا۔ پیوما دروازے کے پیچھے اک ادائے سپردگی سے اسی بلیو ساڑھی میں سر جھکائے کھڑی تھی، گلے میں منگل سوتر (کالے موتیوں کی وہ مالا جو جنوبی ہند میں سہاگنیں گلے میں پہنتی ہیں ) کے ساتھ سونے کی ڈھولکی جس میں چھوٹے چھوٹے روبی کے پتھر لٹک رہے تھے اور ماتھے پر مانگ ٹیکا اور دونوں پیروں میں پتلی دوپٹی کی چپلوں پر چاندی کی نرم و نازک ایک گھنٹی والی لاپروا سی پائل۔ میرے ہی میوزک سسٹم جو میرے ڈیسک ٹاپ سے جڑا تھا اس پر بہت مدھم سروں میں عابدہ پروین کا رقص بسمل البم والا حضرت ذہین شاہ تاجی ؒ کا جی چاہے تو شیشہ بن جا، جی چاہے پیمانہ بن جا بج رہا تھا۔ خود سپردگی کا یہ اہتمام مجھے بہت ڈرامائی اور دل فریب لگا۔

ایک سال کی رفاقت میں اور اس سے پہلے سعدی کی زبانی مجھے علم تھا کہ پیوما کی شخصیت میں خود سری، خود پسندی، غیر جانبداری، بے حسی اور بے رحمی کے ساتھ ذہانت، دلیری، لبھاؤ اور خوش گفتاری کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ پاکستان میں نسوانی حسن کا جو محدود کتابی تصور محض چہرے کے خد و خال تک عام ہے۔ اس معیار حسن پر پیوما پوری نہیں اترتی تھی۔

اس کی آواز بھی عام پاکستانی عورتوں کے برعکس بھاری اور تربوز کی طرح رسیلی یعنی Raspy تھی۔ پیوما کو اپنے جملوں کو ادھورا چھوڑ کر اپنے بیانیے کو کھل کھلاتی ہنسی کے کنویں میں ڈبونا بھی خوب آتا تھا اور اس پر انگریزی، اردو اور پنجابی تو ایسی کہ لگتا تھا کہ بی بی سی والوں نے خبریں پڑھنے کے لیے سکھائی ہے۔

وہ اپنی نسوانیت کا اظہار موقع محل کی مناسبت سے کرتی تھی۔ اس طرح کے مواقع پر وہ لباس اور اداؤں کا ایک نیا حرم آباد کرتی تھی اور پیوما کے بجائے چھوٹا سا پوڈل یا لیپ ڈاگ بن جاتی تھی۔ ورنہ اس کا سارا وجود ایک خنجر آب دار کی طرح تھا۔ یوگا اور پلیٹس کی ورزشوں کا پالا بدن، بہت بھرپور، لچک دار، سجیلا۔

دیگر خواتین کے مقابلے میں وہ اپنی وضع قطع اور جسمانی ساخت سے دراز قد مگر بہت Curvy دکھائی دیتی تھی۔ آپ کو اگر اشعار یاد رہتے ہوں تو جاوید اختر کی نظم آفریں، آفریں بھی یاد ہو گی جس میں کہا گیا ہے کہ۔

جسم جیسے مچلتی ہوئی راگنی،
جسم جیسے کہ کھلتا ہوا ایک چمن،
جسم جیسے کہ سورج کی پہلی کرن،
جسم ترشا ہوا، دلکش و دل نشین،
صندلیں صندلیں، مرمریں مرمریں!

خوش لباس بھی بہت تھی، جو پہن لیتی۔ اس کی جامہ زیبی کی روشنی میں Fashion Statement لگتا تھا۔ سرو قد ہونے کے ناتے ساڑھی تو ایسی چنتی تھی کہ لگتا کہ ظالم نے ایلفی سے چپکائی ہے۔ سعدی کہتا تھا کہ یہ مرے گی تو اسے کفن کی بجائے ریتو کمار (بھارت کی مشہور ساڑھی ڈیزائنر ) کی ساڑھی میں لپیٹ کر دفن کریں گے۔ مدفون مردوں کا وقت اچھا کٹے گا۔

ritu kumar

پیوما سے برسوں کی رفاقت میں بھی آپ آشنائی یا اختیار کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ یہ میرا نہیں سعدی کا کہنا تھا۔ مجھے سعدی نے جب اس کے مزاج کے حوالے سے یہ انکشاف کیا، تو مجھے حیرت ہوئی۔ ہمارا خیال تھا کہ سعدی اسے اپنی چھوٹی انگلی کے گرد لپیٹے پھرتا ہے اور کھیلتا رہتا ہے۔ ابھی ہفتہ بھر پہلے ہی کرنی کچھ یوں ہوئی کہ میری دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ سعدی اور پیوما کے تعلقات میری سمجھ میں نہیں آتے۔ تقابل کرتے وقت میری دوست سیمی نے، گیلانی ور سعدی کی شخصیات میں گیلانی یعنی پیوما کے میاں کو کچھ زیادہ ہی نمبر دے دیے، سعدی کے حصے میں صرف علمیت اور شیریں گفتاری کے خانے میں نمبر زیادہ تھے۔ مردانہ وجاہت میں دونوں ہی مذکور نہ تھے۔ اس معاملے میں الحمد للہ آپ کا خادم، یہ خاکسار اور ثمر جعفری ان دونوں سے نوری سال آگے تھے۔

سیمی کے اس سوال کا جواب کہ پیوما سعدی پر ہاتھ پاؤں چھوڑ کر عاشق ہے کہ نہیں، جلد ہی مل گیا۔ اتفاقاً کہیں سے اس دوران پیوما اور سعدی آ گئے۔ پیوما کسی مہندی پر گئی تھی۔ میرے بیڈ روم میں کرسیاں دو تھیں خاکسار پلنگ کی پائنتی پر تو سیمی ایک کرسی پر بیٹھی تھی۔ سعدی نے بہت کہا وہ ساتھ والے کمرے سے کوئی اسٹول وغیرہ لے آئے گا مگر پیوما نے اسے دھکا دے کر خالی کرسی پر بٹھا دیا اور خود اس کے پیروں میں پالتی مارکر بیٹھ گئی۔ چونکہ کمرے میں داخل ہوتے وقت یہ دونوں ننگے پاؤں تھے لہذا پیوما نے ایک اور غضب یہ کیا کہ سعدی کے پیر کھینچ کر اپنی گود میں رکھ لیے اور خود ٹانگوں کے درمیان اس کے گھٹنے پر سر رکھ لیٹ سی گئی۔

اس رات ”آتے ہو“ کے حوالے سے میرے اور پیوما کے درمیان جو کچھ ہوا اسے عبید اللہ علیم کا یہ شعر شاید بہتر بیان کر پائے۔

سائے پہ پڑ رہا تھا، سایہ
خود اپنی ہی تعبیر پر دنگ تھا میں

وصال بے پایاں کے ان لمحات میں مجھے ایسا لگا کہ سعدی کا بنایا ہوا نقشہ اپنے وجود کی گہرائیوں سے نکال کر مجھے بھی لگا کہ وہ مجھے اپنے بدن کے Guided tourپر لیے لیے پھر رہی ہے۔

میں قرطبہ و غرناتا کا ایک ایسا سیاح ہوں جو پہلی دفعہ ہی تاج محل کو دیکھ رہا ہو۔ سارے وجود میں اٹھتے ہوئے خورشید کی سی عریانی تھی۔ تنگ گردن کے کرسٹل کے جام سے برآمد ہوتی decanter جسے فارسی میں مینا کہتے ہیں۔

Moans میں جھرنے کی سی تراوٹ اور اس کی وحشت وصل میں اس سے انڈیلی جانے والی شراب کی مستی بھری خوشبو لٹاتی قلقل تھی۔ اس سے قطع نظر کہ اس کے ان انکشافات کا مجھ بے کس و لاچار پرکیا اثر ہو گا، وہ بتاتی رہی کہ لطف و سپردگی کے ان لمحات میں سعدی اسے کیسے برتتا تھا۔

سعدی بھلے سے مجھے عزیز از جان تھا۔ ان لمحات میں مگر ان حوالوں نے حسد کی عجب آگ بھڑکائی۔ ممکن تھا کہ کسی اور موقع پر یہ شیطانی مشاغل مجھے اس پریم چتا میں حسد سے بھسم کر ڈالتے مگر میں نے یہ سوچ کر کہ اگلی باری، صرف بخاری کے نعرے وجن گے، میں نے بھی خود کو اس کے بدن سے اٹھتی ہوئی موج طوفان کے حوالے کر دیا۔ سعدی کو استاد ملا عبدالصمد مان کر خود کو یہ سمجھا کر بہلاتا رہا کہ استاد عبدالصمد کو کون جانتا ہے سب ہونہار شاگرد غالب کو داد دیتے ہیں۔

جب مجھ پر تھکاوٹ غالب آئی تو وہ شاور لینے چلی گئی۔ بعد از وصال غنودگی کا وہ سکون آمیز دور جو مجھ پر اس کی غیر موجودگی میں طاری ہوا تھا وہ اس کے بستر میں ایک مختصر سی نائیٹی میں واپس آن کر سینے پر سر رکھنے کی وجہ سے بھک سے اڑ گیا۔ میں جب خود بھی شاور لے کر آیا تو وہ Antinori Toscana کی ریڈ وائن کے دو گلاس اور چرس کا ایک سگریٹ سلگائے کچھ نیم خوابیدگی کے عالم میں کسی گہری سوچ میں گم تھی۔

جب پیوما میرے سینے پر سر رکھ کر لیٹی تو میں اس کی کمر کے کٹاؤ میں اپنے تئیں استاد ولایت خان بن کر ستار پر راگ شنکارا بجاتا رہا۔ کوئی وقت تھا کہ جب شراب اور سگریٹ دونوں ہی ہمیں سلگا چکے تھے، آہوں اور وحشتوں کے اس عالم وصال میں جب وہ سر پٹختی نڈھال ہو کر بستر پر گری تو اپنی نیم وا آنکھوں اور کپکپاتے ہونٹوں سے میری تعریف کرتے ہوئے کہنے لگی کہ ”تم بھی نا وسیم اکرم کی طرح آخری اوورز کے بالرز ہو۔ Tail۔ enders کو آؤٹ کر کے اپنی وکٹوں میں اضافہ کر کے اتراتے ہو۔ چلو ایک اور گلاس اور سگریٹ لگاتے ہیں۔ مرحوم سعدی کی یاد میں ایک بینفیٹ میچ اور“ ۔ میں نے شرارتاً کہا ”لیمٹڈ اوورز کا میچ تھا، ختم ہو گیا“ تو وہ کہاں کی چوکنے والی تھی کہنے لگی ”

دوسری ٹیم کی باری نہیں آئے گی کیا؟

ایسی ہی باتوں کا جنہیں انگریزی میں Banter کہتے ہیں کرتے کرتے اچانک اس نے دو باتیں ایسی کیں جن میں سے ایک نے مجھے بے لطف تو دوسری نے میرے اوسان خطا کر دیے۔

(جاری ہے )

اقبال دیوان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 96 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments