(2)جولائی 5 یوم سیاہ اور یوم وفات مسعود اشعر


( 2 ) جولائی۔ 5۔ یوم سیاہ اور یوم وفات مسعود اشعر
مسعود اشعر اور سید فخرالدین بلے داستان رفاقت
(مسعود اشعر : ولادت: 10 فروری 1930 ء۔ وفات: 5 جولائی 2021 ء)
داستان گو : ظفر معین بلے جعفری

ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی قائم کردہ ادبی تنظیم قافلہ کے زیر اہتمام جناب مسعود اشعر صاحب کی سال گرہ بہت ڈرامائی انداز میں منائی گئی۔ شاید ماہ فروری کی آٹھ تاریخ تھی اور شام کا وقت تھا۔ ڈاکٹر اجمل نیازی، شاہد واسطی، ظفر علی راجا، انتظار حسین، شہزاد احمد، منو بھائی، نجمی نگینوی، سلطان ارشد القادری، اسلم کولسری والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے مابین مختلف ادبی موضوعات پر گفتگو جاری تھی کہ اسی دوران اچانک مسعود اشعر صاحب کا فون آ گیا۔

انھوں نے بابا جانی فخرالدین بلے صاحب سے کوئی چار پانچ منٹ کی بات کی۔ جیسے ہی فون بند ہوا تو ہمارے بابا جانی سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے انتظار حسین صاحب سے کہا کہ انتظار بھائی آپ سے ایک کام ہے اور وہ یہ کہ پرسوں دس فروری ہے اور اسی شام آپ کا اور مسعود اشعر صاحب کا ایک ساتھ کہیں جانے کا ارادہ بھی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ہمارے لیے اپنا طے شدہ پروگرام بدل دیں اور دس تاریخ کے بجائے کسی اور دن کا پروگرام طے کر لیں لیکن اس پروگرام کی تبدیلی کا مسعود اشعر صاحب کو پہلے سے علم نہ ہو پائے۔

انتظار حسین صاحب نے بہ مشکل آدھا منٹ سوچا اور فرمایا جی جی بالکل لیکن آپ کے عزائم کیا ہیں۔ پھر جناب فخرالدین بلے شاہ صاحب نے انتظار حسین صاحب اور وہاں موجود دیگر احباب کو مخاطب فرماتے ہوئے کہا کہ جب پرسوں مسعود اشعر صاحب انتظار حسین صاحب کے گھر پہنچیں گے تو انتظار حسین صاحب اور ہماری بھابی صاحبہ انھیں یہ بتائے بنا کہ ہمارا پروگرام ملتوی ہو گیا ہے انھیں لے کر یہاں آ جائیں گے۔ آپ تمام احباب پہلے سے موجود ہوں گے۔

انتظار حسین صاحب، اجمل نیازی صاحب، شہزاد احمد صاحب، منو بھائی بہ طور خاص مسعود اشعر کی افسانہ نگاری اور صحافتی خدمات کے حوالے سے اظہار خیال فرمائیں گے اور ہم سب بھی اظہار خیال کرنے والوں میں شامل ہوں گے۔ اس کے بعد ہم مسعود اشعر صاحب سے ان کی سال گرہ کا کیک کٹوائیں گے پھر عشائیے کا اہتمام ہو گا اور کوشش کریں گے کہ عشائیہ کے بعد کچھ دیر مزید گفتگو ہو سکے۔ لیکن خیال رہے کہ اس سازش کا مسعود اشعر صاحب کو علم نہ ہو پائے۔

یہ خوش خبری سنتے ہی نشست میں شامل سب ہی لوگوں کے چہرے کھل اٹھے۔ انتظار حسین صاحب نے ہمارے والد کا یہ بیان سماعت فرما کر کہا کہ آپ کی ہر بات کی تائید اور حمایت کا ہمیں یہ پھل ملا کہ آپ نے اسے ایک سازش قرار دے دیا اور مجھے یعنی انتظار حسین کو اس سازش کا اہم کردار بنا ڈالا۔ انتظار حسین صاحب کا ردعمل ایسا فوری اور برجستہ تھا کہ سب نے ہی انہی کے موقف کی تائید کی۔ اللہ کے فضل و کرم سے سب کچھ طے شدہ منصوبے کے تحت ہوا۔

دس فروری کو مسعود اشعر صاحب کی سال گرہ کا قافلہ پڑاؤ بہت کام یاب رہا اور اس میں جناب احمد ندیم قاسمی صاحب اور ڈاکٹر سلیم اختر صاحب اور اس سازش میں شامل تمام اصحاب کے علاوہ بھی مستقل شرکائے قافلہ پڑاؤ میں سے اکثر نے شرکت کی۔ ہم پر بھی یہ عقدہ قافلہ کے زیراہتمام منائی جانے والی مسعود اشعر صاحب کی سال گرہ والے دن کھلا کہ یہ ان کی ساٹھویں سال گرہ تھی۔ جب مسعود اشعر انکل سے قافلے کے اس خصوصی پڑاؤ میں کیک کاٹنے کے لیے گزارش کی گئی تو انھوں نے کہا کہ اگر آپ سب لوگ اجازت دیں تو کیک کاٹنے کا معاملہ رات بارہ بجے تک موخر کر دیا جائے اور جب تک ایک اور کیک کا بھی اہتمام کر لیا جائے کہ جو ظفر معین بلے سے کٹوایا جائے۔

مسعود اشعر انکل کے اس بیان پر جناب سرفراز سید نے کہا اوبجیکشن اوبجیکشن اگر ایسا ہوا تو ہمارا مطالبہ ہو گا کہ کیک کاٹنے کی رسم کو مزید چوبیس گھنٹے کے لیے ملتوی کر دیا جائے کیوں کہ اگر گیارہ فروری کو ظفر معین بلے کی سال گرہ ہے تو بارہ فروری کو سرفراز سید کی بھی سال گرہ ہے۔ لہذا بہتر یہی ہو گا کہ مسعود اشعر صاحب کیک کاٹنے کی رسم بروقت ادا فرمائیں۔ اس پر ہال میں احباب کا زور دار قہقہہ گونجا۔ اور تمام شرکائے قافلہ پڑاؤ نے مسعود اشعر صاحب کو ان کی سال گرہ کی مبارک باد کے ساتھ ساتھ ظفر معین بلے اور سرفراز سید کو بھی سال گرہ کی پیشگی مبارک باد دی۔

مسعود اشعر انکل اپنی دفتری اور نجی مصروفیات کے باعث باقاعدگی سے قافلہ پڑاؤ میں شرکت نہیں کر پاتے تھے تو اس کے ازالے کے طور پر وہ اگلے یا دوسرے تیسرے دن وقت نکال کر ضرور ملنے کے لیے آتے تھے۔ لیکن جب جب بھی مسعود اشعر صاحب نے سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی اقامت گاہ پر منعقدہ قافلے کے پڑاؤ میں شرکت کی وہ بھی دیگر تمام تر شرکائے قافلہ پڑاؤ کی طرح ہماری بھی حسین یادوں کا حصہ ہیں۔ دو تین مرتبہ جب جب بھی محترمہ الطاف فاطمہ صاحبہ نے قافلے کے پڑاؤ میں افسانہ پڑھا تو جہاں اشفاق احمد صاحب، بانو قدسیہ صاحبہ، پروفیسر ڈاکٹر آغا سہیل صاحب، علامہ غلام شبیر بخاری علیگ، ڈاکٹر اجمل نیازی، شہزاد احمد، اسلم کولسری اور صدیقہ بیگم اور اسرار زیدی، بیدار سرمدی اور حسن رضوی جیسے مستقل شرکائے قافلہ پڑاؤ کے ساتھ مسعود اشعر انکل بھی تھے۔

ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر آغا سہیل، بانو قدسیہ، اشفاق احمد خاں، ڈاکٹر اجمل نیازی، انتظار حسین اور مسعود اشعر انکل کی گفتگو حد درجہ متاثر کرنے والی ہوا کرتی تھی۔ شرکائے قافلہ پڑاؤ تخلیق سے مستفید ہونے کے بعد اس تخلیق کے حوالے سے قابل ذکر اور اچھوتے پہلووٴں کی بنیاد پر ہونے والی گفتگو میں بھی بہت دل چسپی رکھتے تھے۔ ہم نے احمد ندیم قاسمی صاحب، عطا الحق قاسمی صاحب، ڈاکٹر آغا سہیل صاحب اور منو بھائی کو بھی مسعود اشعر انکل کا حد درجہ احترام کرتے دیکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments