پاکستان میں صحافت کرنا خطرناک


صحافیوں کی عالمی تنظیم کے مطابق گزشتہ سال 2021 ع میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں 55 سے زائد صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ گزشتہ 27 سالوں میں اب تک دنیا بھر میں 1500 سے زائد صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ جن میں پاکستان، برطانیہ اور امریکا جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔ جولائی 2022 ع کے ابتدائی ماہ میں پاکستان میں مزید دو صحافیوں کو قتل کر دیا گیا جبکہ ایک اینکرپرسن سینیئر صحافی کو آفس کے سامنے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

صحافیوں پر تشدد کے واقعات قتل و غارت اور ہراسان کرنے کے واقعات صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا آزاد صحافت، اور نڈر صحافیوں کے لئے دھرتی تنگ کردی جاتی ہے۔ صحافیوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے جب سالانہ صحافیوں کے قتل، تشدد اور مختلف طریقوں سے ہراساں کرنے کے اعداد و شمار سامنے آتے ہیں تو ہماری آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ اسلام آباد میں اسد طور پر گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

اسلام آباد میں سینیئر صحافی مطیع اللہ جان کو اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بعد میں چھوڑا گیا۔ جیو نیوز کے سینیئر اینکرپرسن حامد میر کو کراچی میں فائرنگ کر کے گولیاں مار کر زخمی کر دیا گیا۔ اللہ پاک نے نئی زندگی دی وہ آج زندہ اور سلامت ہیں۔ اسلام آباد میں پارک میں واک کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور سابق پیمرا چیئرمین ابصار عالم گو فائرنگ کر کے زخمی کر دیا گیا۔ اسلام آباد کے صحافی احمد نورانی پر تشدد کیا گیا اور بعد میں لاہور میں اس کی بیوی صحافی عنبرین فاطمہ اور بچوں تک حملہ کیا گیا تھا۔

صحافیوں کے لئے دنیا بھر میں کام کرنے والی تنظیم IFJ کے مطابق 146 ممالک میں ان کی 187 تنظیمیں ہیں، جن میں 600,000 سے زیادہ میڈیا ورکرز ان کے ممبر ہیں۔ پی ایف یو جے کے مطابق 2000 ع سے لے کر اب تک 120 سے زائد صحافیوں کو قتل کیا گیا ہے۔ جبکہ پی پی ایف کے مطابق 75 صحافیوں کو دوران رپورٹنگ ڈیوٹی قتل کیا گیا ہے۔ بھارت 58 سے زائد صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ افغانستان میں سے 90 سے زائد صحافی قتل ہوئے۔ بنگلادیش میں 30 سے زائد صحافیوں کو قتل کیا گیا۔

روس اور یوکرین جنگ میں اس وقت 12 صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ جبکہ فلسطین میں ایک لیڈی رپورٹر خاتون کو دوران کوریج اسرائیلی فوج نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ کچھ روز قبل سندھ کے ضلع خیرپور کے علاقے رانی پور کے صحافی اشتیاق احمد سوڈھڑ کو مسلح افراد نے گھر میں گھس کر فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ سندھ میں کسی صحافی کا یہ پہلا قتل نہی بلکہ ہر سال ایک سے دو صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ اور متعدد صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سینکڑوں صحافیوں کو ہراساں کرنے کے ساتھ جھوٹے مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔ اشتیاق احمد کے قتل کے بعد ایس ایس پی خیرپور نے موقف اختیار کیا کہ وہ رانی پور میں صحافت کرتے تھے جہاں وہ رہائش پذیر تھے اسے قتل کر دیا گیا ہے لہذا یہ صحافی کا قتل نہی ہے۔ دوسری جانب 24 گھنٹوں کے دوران چارسدہ کے علاقے شب قدر میں ایکسپریس میڈیا گروپ میں کام کرنے والے صحافی افتخار احمد کو اس وقت قتل کیا گیا جب وہ عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد واپس گھر جا رہے تھے تو اسے نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔

اشتیاق احمد کے بعد افتخار احمد کے قتل پر شکر ہے کہ ایس ایس پی چارسدہ نے یہ نہیں کہا کہ افتخار احمد مسجد نماز پڑھنے گئے تھے لہذا وہ صحافی نہی ہے۔ تیسرا واقعہ لاہور میں پیش آیا، دنیا نیوز میں پروگرام کرنے کے بعد واپس گھر جاتے ہوئے سینیئر صحافی اینکرپرسن ایاز امیر پر مسلح افراد نے آگے گاڑی دے کر روکا تشدد کا نشانہ بنایا اور موبائل ساتھ لے گئے۔ ایاز امیر نے تشدد والے واقعہ سے ایک دو روز قبل ایک پروگرام میں سابق وزیراعظم عمران خان اور موجودہ حکمرانوں پر تنقید کی تھی۔

بہرحال ملک جہاں ایک طرف صحافیوں کا معاشی قتل کیا جا رہا ہے وہیں پر صحافیوں کو قتل بھی کیا جا رہا ہے اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان سب سے زیادہ سندھ وہ بدنصیب صوبہ ہے جہاں ہر سال دو سے تین صحافیوں کو قتل کیا جاتا ہے۔ گزشتہ 15 سالوں میں صرف سندھ میں سب سے زیادہ صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ جھوٹے مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔ جن میں دہشتگردی ایکٹ 7 ATA، اغوا برائے تاوان، ریپ، چوری، ڈاکا، بغاوت اور قتل جیسے مقدمات میں نامزد کیا جاتا ہے۔

سندھ میں گزشتہ 15 سالوں میں 200 سے زائد مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں سکھر، لاڑکانہ، نوابشاہ ڈویژن سر فہرست ہے۔ ایک طرف سندھ میں جمہوریت کے دعوے داروں کی حکومت ہے تو وہیں پر صحافیوں کے حقوق کے لئے بھی آواز اٹھائی جاتی ہے اور سب سے زیادہ پریس کلبوں اور یونین کو فنڈز بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ حقیقت کو دیکھا جائے تو جو صحافی سندھ میں کرپشن، نا اہلی، لاقانونیت اور مسائل پر لکھتا ہے بات کرتا ہے وہی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

سندھ میں 1999 ع سے اب تک 2022 ع تک جتنے بھی صحافی قتل ہوئے ہیں، تشدد کا نشانہ بنے ہیں یا مقدمات میں ملوث ہوئے، ان کے پاؤں نشانات حکمران جماعت کے وزیروں، مشیروں، عہدے داروں اور ذمہ داران کے ہاں جاتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی ایک بھی صحافی کے قاتل کو سزا نہیں مل سکی ہے۔ عالمی تنظیم سی پی جے کے مطابق روس یوکرین جنگ میں اس وقت کم از کم یوکرین میں کم از کم 12 صحافیوں کو قتل کیا گیا ہے۔ جن میں مزید 3 صحافیوں کے قتل کی تفتیش کی جا رہی ہے۔

14 مئی کو فلسطین میں الجزیرہ ٹی وی کی رپورٹر شیریں ابو عاقلہ کو دوران رپورٹنگ فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ ابو عاقلہ اس وقت ڈیوٹی سرانجام دے رہی تھی جس وقت اسرائیلی افواج فلسطینی عوام پر گولا باری میں مصروف تھی۔ پاکستان میں جو صحافی شہید ہوئے ہیں ان شہید سلیم شہزاد، خیرپور کے شہید مشتاق کھنڈ۔ نوشہرہ فیروز کاوش کے ٹی این نیوز کے عزیز میمن، جیو نیوز کے ولی خان بابر، کندھ کوٹ کے شہید شاھد سومرو، لیڈی جرنلسٹس عروج اقبال اور شاہنہ شاہین جن کو بھی قتل کیا گیا تھا۔

شہید ثاقب خان، عبد الحق بلوچ، رزاق گل، حاجی زئی، ملک ممتاز، محمود آفریدی، مرزا اقبال، سیف الرحمان، اسلم درانی، ایوب خٹک، عمران شیخ، مکرم خان، عارف خان، موسی خیل، چشتی مجاہد، ہدایت اللہ خان، عامر نواب، راجہ اسد حمید، فضل وہاب، صلاح الدین، غلام رسول، عبد الرزاق، محمد ابراہیم، ساجد تنولی، لالہ حمید بلوچ۔ پڈ عیدن کے صحافی علی شیر راجپر کو بھی یوم عالمی صحافت کے دن قتل کیا گیا تھا، سکھر کے علاقے صالح پٹ میں اجئے کمار لالوانی کو قتل کر دیا گیا تھا۔

فروری 2022 میں کراچی میں نجی چینل کے نیوز ڈائریکٹر اطہر متین کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ 2014 ع میں بلوچستان میں جیکب آباد سندھ کے رہائشی ارشاد مستوئی کو آفس میں گھس کر فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ حق سچ لکھنے والے صحافی دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں انہیں کسی نہ کسی طریقے سے قتل کر دیا جاتا ہے۔ صحافی سب کی آواز بن کر ایوانوں تک پہنچاتے ہیں مگر صحافی کی کوئی آواز نہیں بنتا۔ جب سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو وہ صحافیوں کے لئے فرینڈلی دکھتی ہیں مگر جب حکومت میں آجاتی ہیں تو وہ صحافیوں کی دشمن بن جاتی ہیں۔

صحافی تنقید کرتا ہے خلاف لکھتا ہے وہ مسائل کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ بدلے میں وہ دشمنی مول لیتا ہے۔ مقدمات کو فیس کرتا ہے تشدد کا نشانہ بنتا ہے۔ اور قتل کر دیا جاتا ہے۔ سندھ سمیت پاکستان میں آج بھی ہزاروں کی تعداد میں میڈیا ورکرز بیروزگاری کی چکی میں پیس رہے ہیں۔ صحافیوں معاشی طور پر بدترین مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ صحافیوں کو بھی انسان سمجھیں، اور ان کے حقوق کے لئے قانون سازی کرے اور انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments