نئے پکوان: مخلوط پلاؤ، نیوٹرل گوشت، کفایتی کوفتے


یوں تو کھانے کی ترکیبوں کے نام پر ہمیں بس چند ہی ترکیبیں آتی ہیں جیسے جہاں تنبو گڑا اور دری بچھی دیکھنا وہاں بیٹھ کر مرحوم کی قبر بند ہونے اور بریانی کی دیگ کھلنے کا انتظار کرنا، عزیزواقارب کے گھر عین کھانے کے وقت نازل ہوجانا اور بیگم سے اپنی بہن کے گھر پکنے والی بریانی کی برائی کرتے ہوئے کہنا ”مجھے تو بس تمھارے ہاتھ کی بریانی پسند ہے، آج بنا لو“ رہیں پکانے کی ترکیبیں ہم بس ان اصحاب کو شعر و ادب پر بات کر کے پکا سکتے ہیں جو کرنل محمد خان کی تصنیف ”بزم آرائیاں“ کا عنوان دیکھ کر بزم کو زیر کے ساتھ پڑھتے اور سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہو نہ ہو یہ آرائیں برادری کی تنظیم کا منشور ہے، لیکن پکوانوں کی تراکیب سے نابلد ہونے کے باوجود کیوں کہ ہمیں خواتین کا بہت خیال ہے اس لیے سوچا بقرعید پر گوشت کے پکوانوں کی کچھ نئی ترکیبیں جانی اور پیش کی جائیں تاکہ اس بار بی بیاں کچھ نئے اور منفرد کھانے بنائیں۔ ترکیبیں پیش ہیں :

مخلوط پلاؤ

یہ پلاؤ مرغ پلاؤ یا بڑے کے گوشت پر عدم اعتماد کرتے ہوئے پکایا جاتا ہے، مقصد یہ ہے کہ ایک جانور کے گوشت کے بہ جائے مختلف النوع گوشت کا ذائقہ ایک ہی پکوان میں سما جائے۔ سو اس میں گائے، بکرے، اونٹ اور بھیڑ کی بوٹیاں ڈالی جاتی ہیں۔ اس پلاؤ کے پکانے اور کھانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ کھا کر ہاضمہ خراب ہونے کی صورت میں کسی ایک جانور کے گوشت کو مورد الزام ٹھہرانا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ پلاؤ تیز آنچ پر بڑی عجلت میں پکایا جاتا ہے، ورنہ خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں اونٹ، گائے، بکرے اور بھیڑ کی بوٹیاں ایک دوسرے سے جل نہ جائیں۔

سازشی کڑھائی

یہ بڑی مشکل ترکیب ہے، جسے یاد نہیں رکھا جاسکتا، چناں چہ پکاتے سمے ہاتھ میں ترکیب لکھا پرچا ہونا ضروری ہے۔ اس کڑھائی کے لیے ایسی گائے کا گوشت لیں جو ہرگز اللہ میاں کی گائے نہ ہو، سازشی کڑھائی کے لیے سب سے موزوں گوشت تو مقدس گائے کا ہے، لیکن اس گائے کے لیے ایسا سوچنا بھی آ بیل مجھے مار، کے مترادف ہو گا، بہتر ہو گا کہ لومڑیوں میں پلی گائے سے کام چلا لیں۔ پتیلی میں گوشت اور دیگر سارے لوازمات ڈال کر ”چمچوں“ کے ذریعے ہلاتی رہیں، یاد رکھیں کہ یہ وہ چمچے ہوں جن کے بارے میں کہا گیا ہے ”دیگ سے گرم چمچا“ ، یعنی وہ چمچے جو ہانڈی پکانے میں پکانے والے سے زیادہ پرجوش ہوتے ہیں، اس کے ساتھ ہاتھ میں پکڑا ترکیب کا پرچا بھی لہراتی رہیں۔ اس سے ایک طرف تو آپ کو ہوا لگتی رہے گی دوسری طرف چولہے کی آگ بھڑک بھڑک کر گوشت جلدی گلانے میں آپ کی مدد کرے گی۔

ساجھے کی ہنڈیا

ساجھے کی ہنڈیا پکانا آسان ہے لیکن سنبھالنا بہت مشکل۔ پھر یہ بیچ چوراہے پر پھوٹ جاتی ہے، جس کی وجہ سے چوراہے پر ٹریفک جام ہوجاتا ہے، پیٹرول کے چڑھتے داموں کی وجہ سے پیٹرول کی ایک بوند بھی ضائع ہونا کسی کو برداشت نہیں، اس لیے عین چوراہے پر ہنڈیا کا پھوٹنا اشتعال انگیزی اور سر پھٹول کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسا فسادی پکوان فساد خلق کا باعث ہو گا، تو چھوڑیں ہم اس کی ترکیب نہیں بتا رہے۔

نیوٹرل گوشت

یہ ہر گھر کا مسئلہ ہے کہ کسی فرد کو ایک کھانا پسند ہے کسی کو دوسرا، کوئی جس کھانے کا شوقین ہے دوسرا اسے سامنے دیکھتے ہی غمگین ہوجاتا ہے۔ اس مسئلے کا واحد حل ہے نیوٹرل گوشت۔ ترکیب یہ ہے کہ ایک کلو چھیچھڑے، ہڈیاں اور ربڑ جیسی بوٹیاں پتیلی میں بھریں اور جہنم کی طرح دہکتے آگ کے الاؤ پر رکھ دیں، پھر اس گوشت پر ایک کلو سرخ مرچ اور ایک پاؤ نمک ڈال دیں، ہانڈی پکتی چھوڑ کر پانچ منٹ کے لیے پڑوسن کے پاس چلی جائیں، تین گھنٹے بعد جب آپ واپس آئیں گی تو نیوٹرل گوشت تو پک کر تیار ہو چکا ہو گا لیکن اسے کھانے پر کوئی تیار نہیں ہو گا۔ لیجیے آپ نے پورے گھر کو کم ازکم ناپسند پر متفق کر دیا۔

چوں کہ یہ پکوان کسی کی خواہش اور مرضی کے مطابق نہیں ہوتا چناں چہ اسے نیوٹرل گوشت کہتے ہیں۔

کفایتی کوفتے

اس مہنگائی میں بقرعید کا ڈھیروں گوشت جمع ہوجانا کسی نعمت سے کم نہیں۔ کوشش کریں کہ یہ گوشت پورا سال چل جائے اور یہ کوشش تب کام یاب ہو سکتی ہے جب گوشت کا کم سے کم استعمال ہو۔ اس کفایت شعاری کی ایجاد ہیں کفایتی کوفتے۔ کریں یہ کہ کنچوں یا آنکھ کے ڈھیلے کے حجم کی چھوٹی چھوٹی گولیاں بنا لیں، انھیں کوفتے کا نام دے کر پکا لیں، سب کی پلیٹ میں چار چار پانچ پانچ کوفتے ڈالیں، اور قسم کھالیں کے آپ نے کوفتے پکائے اور سب نے فی فرد ایک درجن کھائے۔

سورج مکھی کوفتے

نرگسی کوفتے تو آپ نے سنے ہوں گے۔ انھیں نرگس کے پھول سے تشبیہ دینے کا واحد سبب وہ آدھا کٹا ابلا انڈا ہے جو گوشت میں پھنس کر اکلوتی آنکھ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ شکر ہے کہ اب تک کسی کو اس پکوان کے یک چشمی ہونے کے باعث اسے ”دجالی غذا“ قرار دینے کا خیال نہیں آیا۔ نرگسی کوفتے کا ذکر آتے ہی ہمیں اپنے محلے کے ایک صاحب یاد آ جاتے ہیں جن کی بیگم کا نام نرگس تھا۔ یہ نرگس بی بی سراپا نور تھیں لیکن اپنی بے قدری پر گھر گھر جاکر روتی تھیں، اس لیے محلے میں کئی دیدہ ور پیدا ہو گئے تھے جن کے دیدوں کا پانی مر چکا تھا، سو وہ ان خاتون کی دید ہوتے ہی انھیں دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگتے، یہ دیکھ کر نرگس بی بی کے شوہر ہر وقت کوفت میں مبتلا رہتے اس لیے ان کا نام نرگسی کوفتہ پڑ گیا اور جو حضرات نرگس بی بی کو اپنے آنگن میں کھلانے کی خواہش کے تحت ان کے شوہر کو منہ اور دل بھر کے کوستے تھے محلے کی تاریخ میں وہ نرگسی کوستا کہلائے۔

خیر یہ ذکر تو برسبیل تذکرہ آ گیا ہم ترکیب بتا رہے تھے سورج مکھی کوفتے کی۔ یہ کوفتے سورج مکھی کے پھول کی شکل کے بنائے جاتے ہیں، کیسے؟ یہ بتانا ہمارا درد سر نہیں۔ یہ کوفتے خاص طور پر مخلوط دعوتوں میں ذی اثر اور برسراقتدار مہمانوں کی خاطر کے لیے پکائے جاتے ہیں۔ یہ دیکھنے میں بڑے ”نفیس“ ہوتے ہیں۔ یہ خاص کراچی کا پکوان ہے جو لکھنؤ، دہلی سے وارد نہیں ہوا بلکہ یہیں ایجاد ہوا۔ سورج مکھی بنانے کی شرط یہ ہے کہ جس جانور کے گوشت کے ہوں وہ کراچی کا ہو، جسے اسی شہر میں قربان کیا گیا ہو۔ ان کوفتوں رکابی میں سجا کر رکھیں۔ یہ با اثر اور صاحب اقتدار مہمان کی طرف خود بہ خود مڑ جائیں گے بلکہ ممکن ہے رکابی سے کود کر اس کی پلیٹ میں جا گریں۔

عوامی کباب

گوشت کو یوں نچوڑیں کے خون کا ایک قطرہ نہ بچے، پھر اس کی بڑے سے بغدے سے چھوٹ چھوٹی بوٹیاں بنا لیں، ان بوٹیوں کو مشین میں ڈال کر قیمے میں بدل دیں، اس قیمے کو سل پر بٹے سے خوب پیسیں، اس کے بعد گرینڈ کریں، اب کوئی بھاری پتھر لے کر اس بھوسا بن جانے والے گوشت کو مزید کچلیں۔ اس روندنے، کچلنے، مسلنے کے بعد جو بچے اسے چولہے پر چڑھا دیں۔ کچھ دیر میں گلتے ہی خستہ کبابوں کی ٹکیاں تیار کر لیں اور مزے لے کر کھائیں۔ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ انھیں عوامی کباب کیوں کہا جاتا ہے۔

پرمغز

مغز تو آپ کھاتی رہی ہوں گی، پرمغز ایک الگ پکوان ہے۔ اسے پرمغز اس لیے کہتے ہیں کہ یہ پرمغز گفتگو اور خیالات کی طرح برداشت نہیں ہوتا۔ اس پکوان کو بنانا نہیں پڑتا یہ ازخود بن جاتا ہے، کوشش کریں کہ جب آپ مغز پکانے کی ٹھانیں تو آپ کی شوہر سے ٹھنی ہوئی ہو، نندوں سے آپ جلی بھنی ہوں اور ساس کی کسی بات نے مرچیں لگادی ہوں، اس حالت میں جو مغز پک کر تیار ہو گا وہ نمک مرچ کی تیزی اور جلنے بھننے کی وجہ سے کسی کے حلق سے نہیں اترے گا۔ یاد رکھیے ایک سیاست داں کے لیے جمہوریت اور بہو اور بیوی کے لیے کھانا بہترین انتقام ہے۔ یہ مغز کسی کو نہیں بھاتا اس لیے پرمغز کہلاتا ہے۔

پوسٹ پائے

پائے دو طرح کے ہوتے ہیں گائے، بھینس، بکرے کے پائے اور اعلیٰ پائے۔ اعلیٰ پائے کے شاعر، ادیب ہوتے ہیں، جنھیں سننا پڑتا ہے کہ ”دلہا بھائی گائے کے اتنے اعلٰی پائے پکاتے ہیں، اور ایک آپ ہیں خیال ہی پکاتے رہتے ہیں۔“ اس سے ہمارے ہاں اعلیٰ پائے پر گائے بھینس کے پائے کی فضیلت صاف ظاہر ہے۔ اگرچہ بقرعید پر پائے پکانا لازمی ہے، لیکن یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ جن کے یہ پائے تھے انھوں نے ان پر ذرا سی توجہ بھی نہیں دی، نہ کبھی نیل پالش لگائی نہ مہندی، ویکس کرایا نہ چمکتی دمکتی سینڈل پہنی، مگر ہماری بے چاری خواتین گایوں بھینسوں کے جی بھر کے نظرانداز کیے جانے والے ان پایوں پر گھنٹوں محنت کر کے انھیں پکاتی اور لوازمات کے ساتھ دسترخوان پر سجاتی ہیں۔

یقیناً آپ بھی بقرعید پر پائے پکانا اور لوگوں کو بتانا چاہتی ہوں گی کہ آپ نے جو پائے پکائے وہ سب نے کتنے شوق سے کھائے۔ لیکن اس کے لیے کٹھنائیاں جھیلنے اور وقت صرف کرنے کی ضرورت نہیں، بھئی اگر آپ پائے پکانے میں جت گئیں تو فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام پر سرگرمیاں کون انجام دے گا؟ تو کریں بس اتنا کہ گوگل پر ڈھونڈ کر پکے ہوئے اور میز پر سجے پائے کی اچھی سی تصویر نکال کر فیس بک اور انسٹاگرام پر بہ طور پوسٹ لگائیں اور واٹس ایپ پر اسٹیٹس بنائیں اور لوگوں سے داد پائیں۔ اسے کہتے ہیں پوسٹ پائے جو وقت اور توانائی بچائے۔

بھائی بریانی

یہ دراصل دو علیحدہ بریانیاں ہوتی ہیں جو الگ الگ پکتی ہیں۔ ایک میں مسالا نہایت تیز ہوتا ہے دوسری میں بے حد ہلکا، تیز مسالے والی بریانی میں پڑی ادھ گلی بوٹیاں چبائے نہیں چبتیں، ہلکے مسالے والی بریانی کی بوٹیاں بالکل حلوہ، ان بریانیوں کو الگ الگ پکا کر ایک ہی دیگ میں یوں جمع کر دیا جاتا ہے کہ یہ ایک نظر دیکھنے ہی میں الگ الگ دکھائی دیتی ہیں۔ کھانے والے کو یہ سہولت حاصل ہوتی ہے کہ ان میں سے جو بریانی پسند ہو اس سے پلیٹ بھر لے۔ پتا نہیں اسے بھائی بریانی کیوں کہتے ہیں، لگتا ہے کوئی دو بھائی ہوں گے جن کی حکمت عملی اس پکوان جیسی ہوگی۔

بھنا کلیجا

یہ ترکیب خاص طور پر بہوؤں کے لیے ہے۔ یہ تو آپ جانتی ہیں کہ بقرعید کے دن سب سے پہلے پکنے ولا پکوان بھنی کلیجی ہوتی ہے۔ آپ اس کلیجی کو اتنا بھون دیں کہ یہ جل کر کوئلہ ہو جائے، جسے دیکھ کر سسرال والے بھنا جائیں گے اور ان کا کلیجا جل بھن جائے گا۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ بقرعید پر کچھ بھی پکانے اور شادی شدہ نندوں کی دعوتوں میں خود کو ہلکان کرنے سے بچ جائیں گی۔

قانونی گھٹالا

یہ عنوان پڑھتے ہی آپ کے ذہن میں انڈا گھٹالا کا خیال آیا ہو گا، لیکن یہ خالص گوشت کا پکوان ہے، جس میں انڈے نہیں پڑتے، البتہ کبھی کبھی گندے انڈے شامل کر دیے جاتے ہیں۔

یہ بڑا پیچیدہ پکوان ہے، پتیلی میں بوٹیاں ڈال دیں پھر اس گوشت پر یکے بعد دیگرے کڑھائی مسالا، حلیم مسالا، قورمہ مسالا اور نہاری مسالے کے پورے کے پورے پیکٹ چھڑک دیں۔ یاد رکھیں اسے گیس کی لوڈشیڈنگ کے اوقات میں نہایت نیک خواتین کی پاکیزہ محبت کی دھیمی آنچ سی محبت جیسی آنچ پر کئی مہینے تک پکانا ہے۔ جب قانونی گھٹالا پک کر تیار ہو گا تو نہ آپ سمجھ پائیں گی نہ کھانے والے کہ آخر کیا پکا ہے۔ سب حسب منشا اسے کڑھائی، حلیم، نہاری اور قورمہ قرار دے کر کھائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments