ایاز امیر سے کیوں ڈر گئے؟


جب سے ایاز امیر پر حملہ ہوا ہے، حضرت غامدی بار بار یاد آتے ہیں۔
سگ آوارہ تو بستی میں کھلے ہیں، لیکن
حادثہ یہ ہے کہ پتھر کوئی آزاد نہیں

ایاز صاحب پر حملے سے یہ واضح ہو گیا کہ پاکستان کوئی ریاست نہیں ہے، پچھہتر سالوں سے پاکستان کو ریاست کا جو مکھوٹا چڑھایا گیا تھا وہ اب آخری درجے میں اتر چکا ہے۔ اس معاملے میں مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں کہ حملہ آوروں کے ہوتے ہوئے یہ ملک کبھی ریاست نہیں بن سکتا۔ ریاست کا یہ بنیادی فریضہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کا تحفظ یقینی بنائے گی، لیکن یہاں ایک جتھے نے خود کو ریاست ٹھہرا رکھا ہے، جو جب چاہے کسی کو اٹھا لے، کسی کو پیٹ ڈالے، اور کسی کو غدار ٹھہرا دے، غداری سے وصی شاہ یاد آ گئے ہیں۔

حرف تنقید علاج دل بیمار بھی ہے
ہر مخالف کو نہ غدار پکارا جائے

بات ہو رہی تھی ایک گروہ کی جو ریاست بن چکا ہے۔ اس گروہ کی جڑیں معاشرے میں اس قدر گہری ہو چکی ہیں کہ ان کو اکھاڑنا صحارا میں تقاطر امطار کے برابر ہے۔ حماد صافی نامی لونڈا ہو یا ارشاد بھٹی ایسا صحافی، یہ سب اس گروہ کی جڑیں ہیں۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ ان جڑوں کو کاٹنے والا کوئی لکڑ ہارا اپنے معاشرے میں موجود نہیں ہے۔

سنتے ہیں کہ قرب قیامت سورج مغرب سے طلوع ہو گا، سورج اگر مغرب سے طلوع ہو سکتا ہے تو کیا عجب کہ چند دہائیوں بعد یہ جڑیں بھی سوکھنا شروع ہو جائیں۔ لیکن یہ ایک کٹھن اور مشقت سے بھرپور مرحلہ ہو گا۔ اس مرحلے کا آغاز کسی حد تک تو ہو چکا ہے، سوشل میڈیا کی وجہ سے۔ لیکن ابھی وہ نعرہ مستانہ بلند نہیں ہوا کہ جس سے یہ گروہ لرزہ بر اندام ہو جائے۔ اب بھی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایاز صاحب پر حملہ کرنے کی کیا تک تھی، ان سے توقع ہی کیوں کی گئی تھی کہ وہ کوئی اشاروں کنایوں میں بات کریں گے، جو شخص اپنے بارے میں جھوٹ نہیں بولتا وہ کسی دوسرے کے بار میں جھوٹ کیسے بول سکتا تھا۔

ہمارے معاشرے میں ایاز صاحب وہ واحد آدمی ہیں جو اپنی ذات کے بارے میں سچ بولتے ہیں، وگرنہ تو خامہ فرسا سمیت ہر کوئی پارسائی و خود راستی کا مکھوٹا چڑھاتا ہے۔

دوسرا شخص جو اپنے بارے سچ بولتا تھا وہ معروف صحافی، وکیل، اور سیاست دان خشونت سنگھ تھا، وہ بھی کیا عجیب آزاد مرد تھا، جو تھا وہ لوگوں کو بتاتا تھا کہ میں یہ ہوں۔

سنگھ صاحب کی آٹو بائیو گرافی Truth، Love، and A Little Malice کے نام سے شائع ہو تھی، آٹو بائیو گرافی کیا ہے، یہ ایک تاریخی دستاویز ہے جو آزادی کے بعد کے حالات کا احاطہ کرتی ہے۔ اس بائیو گرافی میں سنگھ صاحب نے دو واقعے لکھے ہیں جو صرف سنگھ صاحب لکھ سکتے تھا یا پھر ایاز صاحب۔ وہ لکھتے ہیں جب میں لندن میں اعلیٰ تعلیم کے لیے گیا تو رستے میں ہمارا بحری جہاز مصر میں رکا۔ میں طبیعت کو بہلانے کے لیے ایک بازار چلا گیا، یہ ویسا ہی بازار ہے جو لاہور میں ہیرا سنگھ کے نام سے منسوب ہے۔ سنگھ صاحب مزید لکھتے ہیں کہ جب میں ایک کوٹھے میں داخل ہوا تو بند کمرے میں ایک سے ملاقات ہو گئی۔ اس کے بعد کیا ہوا، خود انہی کے الفاظ میں پڑھ لیجیے کہ ترجمہ کرنے سے قاصر ہوں۔

As her knees were kissing her chin, she took the rocket in one hand and directed it toward its target.

سنگھ اور ایاز صاحب جیسے لوگوں کے بغیر یہ معاشرہ بدبودار ہو جاتا ہے۔ اس لیے ایسے لوگوں سے ڈرنے اور گھبرانے کے بجائے انہیں بات کرنے کی آزادی دینی چاہیے تا کہ معاشرے کا حسن برقرار رہ سکے۔ سنگھ صاحب نے اپنی خود نوشت میں دوسرا واقعہ کیا لکھا تھا، وہ آپ کتاب خرید کر خود پڑھ لیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments