مہندر سنگھ دھونی: انڈیا کا کامیاب ترین کپتان، رانچی کا ’پل دو پل کا شاعر‘ جو انڈین کرکٹ کا ’مطمئن‘ راک سٹار بنا

عبدالرشید شکور - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


دھونی
انڈین کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان مہندر سنگھ دھونی کو دنیا ان کی ذہانت، قائدانہ صلاحیت اور بذلہ سنجی کی وجہ سے یاد رکھتی ہے۔

وہ دنیا کے واحد کپتان ہیں جنھوں نے آئی سی سی کے تینوں بڑے ٹورنامنٹس یعنی پچاس اوورز کا عالمی کپ، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور چیمپیئنز ٹرافی جیتی لیکن ان کی زندگی کے ایسے کئی دوسرے پہلو بھی ہیں جو ان کے پرستاروں کے لیے ہمیشہ دلچسپی کا باعث رہے ہیں۔

دھونی کے لمبے بال

مہندر سنگھ دھونی اپنے کریئر میں لمبے بالوں کی وجہ سے مشہور رہے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی بار انھیں سخت اور طنزیہ فقروں کا بھی سامنا رہا لیکن یہ لمبے بال ان کی پہچان بن چکے تھے جو انھوں نے اپنی مرضی سے بڑھائے اور اپنی مرضی سے ہی کٹوائے۔

مہندر سنگھ دھونی پر تحریر کردہ کتاب ʹدی دھونی ٹچʹ کے مصنف بھرت سندریسن لکھتے ہیں کہ ʹرانچی کی میٹالرجیکل اینڈ انجینیئرنگ کنسلٹنٹس کالونی میں رہنے والے مہندر سنگھ دھونی کے والد پمپ آپریٹر تھے۔ مطلب یہ کہ ان کی فیملی اس کالونی کی ایگزیکٹیو کلاس میں شامل نہیں تھی۔

’دھونی اپنے دوستوں کے ساتھ اسی کالونی کے سٹیڈیم میں فٹبال اور کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ ایک دن جب کالونی کی کرکٹ ٹیم بنانے کا وقت آیا تو وہاں کے چیف سلیکٹر نے دھونی کو محض ان کے لمبے بالوں کی وجہ سے مسترد کر دیا بلکہ انھوں نے یہاں تک کہہ دیا ‘ارے یہ لڑکی جیسا نظر آنے والا، ڈھابے میں کھانے والا کرکٹ کیا کھیلے گا؟‘

یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گی کہ دھونی نے فیشن کے طور پر اپنے بال نہیں بڑھائے تھے بلکہ بچپن میں سر منڈوانے کی ان کی رسم نہیں ہوئی تھی۔ یہ رسم سنہ 2002 میں ہوئی جس کے بعد انھوں نے بال لمبے کرنے شروع کر دیے تھے۔

دھونی اپنے دوستوں سے کہا کرتے تھے کہ ’اچھا لگ رہا ہے، رہنے دو، کیا فرق پڑتا ہے۔‘

جب ان کے کوچ کیشوو بینرجی نے بھی ان سے لمبے بالوں کے بارے میں پوچھا تو دھونی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’دیکھتے ہیں کیسا لگے گا؟‘ بینرجی نے کہا ’اچھا نہیں لگتا۔ اب تم بڑے ہو گئے ہو میں تمھیں حکم نہیں دے سکتا کہ تم بال کٹواؤ۔‘

پرویز مشرف بھی لمبے بالوں کے مداح

دھونی کے لمبے بالوں کے چرچے صرف انڈیا میں ہی نہیں تھے بلکہ سنہ 2006 میں انڈین ٹیم کے دورۂ پاکستان کے موقع پر سابق صدر جنرل پرویز مشرف بھی ان کے لمبے بالوں کے مداح دکھائی دیے اور انھوں نے لاہور کے ون ڈے میچ کے موقع پردھونی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر آپ میری رائے جاننا چاہتے ہیں تو میں آپ کو یہی کہوں گا کہ آپ لمبے بالوں میں اچھے لگتے ہیں، لہٰذا انھیں مت کٹوائیے گا۔‘

دھونی اس بات پر مسکرا دیے تھے۔ یہ وہی میچ ہے جس میں انھوں نے صرف 46 گیندوں پر 72 رنز ناٹ آؤٹ کی اہم اننگز کھیل کر انڈیا کو پانچ وکٹوں سے کامیاب دلوائی تھی۔

کپتان بننے کے بعد دھونی نے بال چھوٹے کرنے شروع کر دیے تھے اور سنہ 2011 کا عالمی کپ جیتنے کے بعد انھوں نے سر ہی منڈوا دیا تھا۔

دھونی

رانچی کی وجہ شہرت بدل گئی

مہندر سنگھ دھونی نے سات جولائی سنہ 1981 کو رانچی میں آنکھ کھولی۔ ان کے سکول کے زمانے کے سب سے پرانے دوست سیمنت لوہانی جو ِچٹو کے نام سے مشہور ہیں کتاب ’دی دھونی ٹچ‘ میں بتاتے ہیں کہ رانچی کسی زمانے میں پاگل خانے کے لیے جانا جاتا تھا لیکن میکون کالونی کے ایک لڑکے (دھونی) نے ہم سب کو مشہور کر کے آسمان تک پہنچا دیا۔

خود دھونی نے ٹائمز آف انڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’جب میں نے انٹرنیشنل کریئر شروع کیا تو غیر ملکی دوروں پر مجھ سے پوچھا جاتا تھا کہ میرا تعلق کہاں سے ہے؟ میں کہتا انڈیا سے۔ پھر کہتا جھاڑکھنڈ سے۔ پھر کہتا رانچی سے۔ اگلا سوال ہوتا کہ رانچی کہاں ہے اور مجھے مختلف انداز سے سمجھانا پڑتا تھا۔‘

دھونی کا کہنا تھا ’اب میں بڑے فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ میں رانچی سے ہوں کیونکہ وہاں اب ایک انٹرنیشنل سٹیڈیم ہے۔‘

دھونی

میچ ہارنے پر سزا

مہندر سنگھ دھونی کے سکول کے زمانے کے واقعات بھی کم دلچسپ نہیں۔ ایک مرتبہ ان کی سکول ٹیم ایک ایسی ٹیم سے میچ ہار گئی جو ان سے کمزور تھی۔

ان کے کوچ کیشوو بینرجی اس قدر خفا تھے کہ انھوں نے میچ کے بعد حکم دیا کہ سکول کی بس میں ان کے ساتھ صرف جونیئر کھلاڑی بیٹھیں گے اور مہندر سنگھ دھونی سمیت تمام سینیئر لڑکے گراؤنڈ سے پیدل سکول واپس جائیں گے۔ یہ فاصلہ چھ کلومیٹر تھا اور موسم بھی گرم تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان لڑکوں کو سزا دینے کا مقصد صرف یہ تھا کہ انھیں احساس ہو کہ انھوں نے غلط کیا۔

بینرجی سکول پہنچ کر گیٹ پر پیدل آنے والے کھلاڑیوں کا انتظار کر رہے تھے کہ دیکھا کہ آدھے گھنٹے بعد لڑکے چلے آ رہے تھے اور دھونی سب سے آگے تھے۔

بینرجی کو یقین تھا کہ ان لڑکوں نے پیدل آنے کے بجائے لفٹ لی تھی۔ دھونی کے چہرے پر کوئی ناگواری نہیں تھی بلکہ ہلکی سی مسکراہٹ تھی اور وہ بہت پرسکون نظر آ رہے تھے۔

یہ بینرجی ہی تھے جنھوں نے فٹبال گول کیپر دھونی کو وکٹ کیپر بیٹسمین دھونی میں تبدیل کر دیا تھا اور وہ بھی ایسا کرکٹر جو انڈین کرکٹ کی تاریخ کا سب سے کامیاب وکٹ کیپر بیٹسمین بن گیا لیکن کرکٹر بننے کے بعد بھی فٹبال سے دھونی کی محبت ختم نہیں ہوئی تھی اور جب بارش کی وجہ سے کرکٹ کی پریکٹس رک جاتی تو وہ اپنے بیگ میں رکھے ہوئے فٹبال کے جوتے نکال کر پہنتے اور فٹبال کھیلنا شروع کر دیتے تھے۔

یہ بارہویں جماعت کے امتحانات کے دن تھے جب دھونی اڑیسہ جا کر اپنے کلب سینٹرل کول لمیٹڈ (سی سی ایل) کی طرف سے کھیلنا چاہتے تھے لیکن ان کے کوچ بینرجی سخت پریشان تھے کہ امتحانات کے دوران کرکٹ میچ کھیلنا کس طرح ممکن ہو سکے گا۔

انھوں نے دھونی کو کہا ’بیٹا یہ عام امتحانات نہیں۔ کیا تمھیں فکر نہیں؟ دھونی نے اطمینان سے جواب دیا کہ ’سر میں پاس ہو جاؤں گا۔‘

بینرجی بتاتے تھے کہ ’رانچی میں امتحان صبح دس بجے شروع ہو کر دوپہر ایک بجے ختم ہوا۔ امتحانی مرکز کے باہر سی سی ایل کی گاڑی دھونی کی منتظر تھی۔ انھوں نے سکول یونیفارم کی جگہ کرکٹ کٹ پہنی اور سیدھے رانچی ریلوے سٹیشن پہنچے اور اڑیسہ چلے گئے۔

’اگلا امتحان دو دن بعد تھا۔ دھونی میچ کھیل کر واپس آئے اور بڑے اطمینان سے امتحان میں شریک ہو گئے۔ نہ صرف یہ بلکہ 60 فیصد نمبر لے کر پاس بھی ہو گئے بلکہ ان دوستوں کو پیچھے چھوڑ دیا جو رات دن پڑھائی میں مصروف تھے۔‘

’آٹوگراف لے لیں پھر موقع نہیں ملے گا‘

دھونی جب دسویں جماعت کے طالبعلم تھے تو ایک کلب میچ میں انھوں نے اپنے کوچ بینرجی سے اوپننگ بیٹنگ کرنے کا اصرار کیا اور 213 رنز کی شاندار اننگز کھیلنے کے ساتھ ساتھ شبیر حسین کے ساتھ پہلی وکٹ کے لیے 378 رنز کا اضافہ کر ڈالا۔

دھونی کے کوچ اور سپورٹس ٹیچر بینرجی کا کہنا تھا کہ ’ایک دن وہ دھونی کی کلاس میں گئے تاکہ انھیں میچ کے لیے لے جا سکیں۔ ان کی خاتون ٹیچر اس وقت اکاؤنٹس اور بزنس پڑھا رہی تھیں۔ جب دھونی کلاس سے باہر جانے لگے تو ان کے ساتھ پڑھنے والی ایک طالبہ کھڑی ہو گئی اور ٹیچر سے کہنے لگیں ʹمیم اسے ایسے نہیں جانے دیں پہلے اس کا آٹوگراف لے لیں کیونکہ بعد میں آپ کو یہ موقع نہیں ملے گا۔‘

بینرجی کا کہنا تھا کہ جب دھونی انڈیا کے لیے منتخب ہوئے تو انھیں اسی لڑکی کا خیال آیا تھا جو ان چند لوگوں میں سے ایک تھی جو اس وقت بھی دھونی کو بہت آگے جاتے دیکھ رہے تھے۔

دھونی یوراج

موٹربائیکس کے دیوانے

مہندر سنگھ دھونی موٹربائیکس کے دیوانے ہیں۔ آخری بار کسی نے ان کی موٹر بائیکس کی تعداد گننے کی کوشش کی تھی تو وہ 68 تھی۔

دھونی کے پاس ان 68 میں سے 13 ہیوی بائیکس وہ ہیں، جو عام طور پر آرمی اور پولیس والے استعمال کرنا پسند کرتے ہیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ دھونی نے اپنی زندگی میں جو پہلی موٹر بائیک خریدی تھی، اسے آج بھی سنبھال کر رکھا ہے اور جب بھی موقع ملتا ہے اس پر سوار ہو کر نکل جاتے ہیں۔

’میں پل دو پل کا شاعر ہوں‘

فلم ’کبھی کبھی‘ کا گانا ’میں پل دو پل کا شاعر ہوں‘ مہندر سنگھ دھونی کا پسندیدہ گانا ہے، جسے انھوں نے خود گنگناتے ہوئے انسٹاگرام پر پوسٹ بھی کیا۔

ان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ فوجی وردی میں ملبوس اپنے سامنے بیٹھے فوجی جوانوں کو یہ گانا سنا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہ گانا ان کے کریئر سے بہت مماثلت رکھتا ہے کہ آج وہ ہیں کل کوئی اور ان سے اچھا آ جائے گا۔

یاد رہے کہ دھونی انڈین آرمی کی 106 پیراشوٹ رجمنٹ میں اعزازی لیفٹننٹ کرنل ہیں۔ انھوں نے سنہ 2019 کے عالمی کپ میں جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں وکٹ کیپنگ کے دوران ایسے گلووز استعمال کیے تھے جن پر ان کی رجمنٹ کا نشان تھا جس پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے بھی اعتراض کر دیا تھا اور انڈین آرمی کو یہ وضاحت کرنی پڑی تھی کہ اس معاملے کا آرمی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور یہ گلووز پہننا دھونی کا ذاتی فیصلہ تھا۔

دھونی

’وہ چیزوں کو آسان بناتے ہیں اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی۔ اور عام سمجھ بوجھ کے حساب سے فیصلے کرتے رہے ہیں‘

دھونی کا انوکھا مزاج

مہندر سنگھ دھونی اپنی بذلہ سنجی کے لیے مشہور رہے ہیں۔ وہ غیرملکی دوروں سے واپسی پر ڈیوٹی فری شاپس سے اپنے ایک دوست کے لیے سگریٹ لایا کرتے تھے لیکن انھیں اس دوست کے حوالے کرتے وقت یہ طنزیہ فقرہ ادا کرنا کبھی نہیں بھولتے تھے ’میرے پیسے سے تو خود کی زندگی جلا رہا ہے۔‘

سنہ 2016 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے موقع پر ایک آسٹریلوی صحافی سام فیریس کو اس وقت دلچسپ صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب انھوں نے دھونی سے سوال کر ڈالا کہ کیا وہ اس ٹورنامنٹ کے بعد اپنا کریئر جاری رکھتا ہوا دیکھ رہے ہیں؟

دھونی نے سام فیریس کو اپنے پاس بلا کر ساتھ بٹھا لیا اور ان سے مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ سوالات شروع کر دیے لیکن اس سے قبل انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ اس طرح کے سوال کی توقع کسی انڈین صحافی سے کر رہے تھے۔

دھونی نے آسٹریلوی صحافی سے پوچھا ʹکیا آپ چاہتے ہیں میں ریٹائر ہو جاؤں۔ سام نے جواب دیا نہیں۔ دوسرا سوال تھا کہ کیا میں ان فٹ ہوں؟ جواب ملا نہیں آپ میدان میں بہت تیز دوڑ رہے تھے۔

آخری سوال تھا کہ کیا میں 2019 کے عالمی کپ تک کھیل سکوں گا؟ جواب تھا جی ہاں۔ جس پر دھونی نے سام فیریس کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا کہ ’پھر آپ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے انڈیا کو دھونی کی ضرورت کیوں پڑی

دھونی کی سرفراز احمد کے بیٹے کے ساتھ تصویر وائرل

’دھونی انڈیا کو ہر میچ نہیں جتوا سکتے‘

دھونی کھیل کے میدان سے سٹرابری فارم اور ساہیوال نسل کی گایوں تک

میڈیا سے فاصلہ

انڈیا کے سینئیر صحافی نتن نائیک بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے سنہ 2005 کا وہ میچ یاد دلاتے ہیں جب مہندر سنگھ دھونی نے ایسٹ زون کی طرف سے ویسٹ زون کے خلاف سنچری بنائی تھی۔

انھیں انٹرنیشنل کرکٹ میں آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا اور وہ خوشی خوشی نہ صرف میڈیا سے بات کر رہے تھے بلکہ ہر صحافی کو اپنا فون نمبر بھی دے رہے تھے لیکن بعد میں وہ وقت بھی آیا جب میڈیا سے ان کے تعلقات میں اتارچڑھاؤ آیا اور قربتیں فاصلوں میں بدل گئیں۔

نتن نائیک کہتے ہیں کہ ʹان تعلقات میں دراڑ کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ یہ کہ سنہ 2007 کے عالمی کپ میں انڈین ٹیم پہلے راؤنڈ میں ہی باہر ہو گئی اور سری لنکا کے خلاف اہم میچ میں دھونی پہلی گیند پر ہی آؤٹ ہو گئے۔ اس کے بعد ان کے گھر کے باہر کافی ہنگامہ ہوا تھا۔‘

’میڈیا نے بھی ان کے خلاف بہت کچھ لکھا تھا لیکن جب اسی سال ان کی کپتانی میں انڈیا نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتا تو وہی میڈیا ان کی تعریف کر رہا تھا۔ میڈیا کی غیر مستقل مزاجی کو دھونی نے خاص طور پر محسوس کیا تھا۔ اسی وجہ سے انھوں نے کبھی میڈیا سے خاص لگاؤ نہیں رکھا اور یہ تعلقات مزید اس وقت ٹوٹ پھوٹ گئے جب سنہ 2013 کی آئی پی ایل میں چنئی سپر کنگز کا سکینڈل سامنے آیا، جس میں دھونی کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے گئے تھے۔‘

دھونی

نتن نائیک کہتے ہیں کہ ʹمجھے ایسا لگتا ہے کہ دھونی نے اپنے بارے میں ہمیشہ میڈیا میں تجسس قائم رکھنے کی کوشش کی کیونکہ جب بھی کسی کے بارے میں کم لکھا جائے گا اس کے بارے میں کچھ زیادہ ہی جستجو اور تجسس رہتا ہے۔

’اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے لیے بھی کسی روایتی پریس کانفرنس کا انتخاب کرنے کے بجائے انسٹاگرام پر چند لفظ لکھ کر ریٹائر ہونے کو ترجیح دی۔‘

نتن نائیک کا کہنا ہے کہ ʹدھونی کے وریندر سہواگ سے تعلقات کے بارے میں خبروں سے بھی خوش نہیں تھے اور ایک پریس کانفرنس میں وہ پوری انڈین ٹیم کو اپنے ساتھ لے آئے تھے جس سے وہ یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ ٹیم میں اختلافات کی خبریں درست نہیں۔‘

’ایک مرتبہ عرفان پٹھان پر آر پی سنگھ کو فوقیت دینے کے بارے میں خبر پر وہ اس قدر بھڑکے تھے کہ انھوں نے کپتانی چھوڑنے کی دھمکی دے ڈالی تھی۔‘

’دل صاف ہے تو ہنسی کہاں جائے گی؟‘

سپاٹ فکسنگ سکینڈل کی وجہ سے دھونی کی ٹیم چنئی سپر کنگز دو سال آئی پی ایل سے باہر رہی تھی۔

انڈین سینیئر صحافی سنندن لیلے بی بی سی اردو کو بتاتے ہیں کہ ’سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے سامنے آنے کے بعد انڈین ٹیم سنہ 2013 کی چیمپیئنز ٹرافی کھیلنے انگلینڈ گئی تھی۔

’جب میں دھونی سے ٹیم کی پریکٹس کے موقع پر ملا تو وہ معمول کے مطابق پُرسکون دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے دھونی سے پوچھا کہ آپ کے چہرے سے ہنسی نہیں گئی؟‘ تو دھونی نے اطمینان سے جواب دیا تھا ʹجب دل صاف ہے تو ہنسی کہاں جائے گی؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments