عامر لیاقت حسین طبعی موت یا مبینہ قتل؟


مورخہ 9 جون ہماری قدرتی طور پر ہماری آنکھ کافی تاخیر سے کھلی۔ اٹھتے ہی حسب عادت سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا اپنا فون اٹھایا، ٹائم دیکھ کر ہمارے ہوش ہی اڑ گئے کیونکہ گھڑی کی سوئیاں گیارہ بجا رہی تھیں۔ کیونکہ آج ہمیں جلدی دفتر پہنچنا تھا اور باس کے ساتھ ایک اہم میٹنگ سیٹ تھی۔ لہذا وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے فوری بستر چھوڑتے ہوئے غسل سے فارغ ہوئے اور کپڑے تبدیل کرتے ہی دفتر کے لیے روانہ ہو گئے۔

دفتر پہنچتے ابھی چند اہم امور نمٹا ہی رہے تھے کہ اس ہی اثنا میں یہ المناک خبر ملی کہ معروف اسکالر، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین انتقال فرما گئے ہیں۔ ابتدا میں ہم نے اس خبر کو سنتے ہی اس کی صداقت کو مسترد کر دیا۔ اور اپنے ایک ساتھی سے کہا یہ سوشل میڈیا کی شرارت لگتی ہے۔ مگر پھر جب ہم نے اس خبر کی تصدیق کے لیے اپنے اہم اور مختلف ذرائع سے رابطہ کیا تو ہر طرف سے اس خبر کی تصدیق ہوتی رہی۔

خبر تو غمناک تھی ہی، افسردہ اور نمناک بھی کر گئی۔ لیکن ساتھ ہی یادوں کی ایک پٹاری کھل گئی۔ ابھی چند روز قبل خاکسار نے ڈاکٹر صاحب کی زندگی پر ”ہم سب“ میں ہی ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے ایک خصوصی بلاگ تحریر کیا تھا۔ جس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے انتہائی محبت اور خلوص کے ساتھ میرے اس بلاگ پر اظہار تشکر فرماتے ہوئے مجھے ڈھیروں دعاؤں سے نوازا تھا۔

گزشتہ کچھ عرصے سے ڈاکٹر صاحب سے میرے کچھ سیاسی امور پر نظریاتی اختلافات ضرور رہے۔ مگر انھوں نے میرے ان اصولی اور نظریاتی اختلاف کا جواب ہمیشہ انتہائی مثبت انداز میں دیا۔ میں اکثر ان سے پوچھا بھی کرتا عامر بھائی میں نے دیکھا ہے کہ آپ اپنے اوپر کی گئی تنقید کرنے والے ناقدین کو فوری بلاک کر دیتے ہیں۔ مگر آپ کی مجھ پر خصوصی کرم نوازی کی وجہ مجھے سمجھ نہیں آتی۔ جس کے جواب میں انہوں نے مجھے کہا سلمان بھائی میں آپ کو کبھی بلاک نہیں کروں گا کیونکہ تنقید اور تذلیل میں بہت فرق ہوتا ہے۔ آپ مثبت تنقید کرتے ہیں تذلیل نہیں۔ اور آپ کی جانے والی تنقیدیں کافی حد تک حقیقت سے قریب تر ہوتی ہیں۔ اور ویسے بھی دنیا میں کوئی بھی انسان غلطیوں اور کوتاہیوں سے مبرا نہیں ہوتا۔

میں بھی ایک انسان ہوں، جس سے لاتعداد غلطیاں اور کوتاہیاں ہوتی ہیں۔ مگر جہاں میری غلطی ہوتی ہے۔ میں اپنی غلطی و کوتاہیوں کو تسلیم کرنے میں ذرا بھی دیر نہ لگاتے ہوئے اس متاثرہ شخص اور اپنے رب باری تعالیٰ سے فوری رجوع کر لیتا ہوں۔

یہ بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ عامر بھائی نے کبھی اپنے اوپر کی جانے والی کسی بھی مثبت تنقید کا برا نہیں منایا اور اگر وہ غلطی پر ہوتے تو معذرت کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگایا کرتے تھے۔

بلاشبہ عامر لیاقت پاکستانی میڈیا انڈسٹری کا وہ لیجنڈ تھا۔ جیسا نہ کبھی پہلے کوئی آیا اور نہ کبھی آئے گا۔ الفاظ کا جو ذخیرہ ان کے پاس موجود تھا شاید ہی وہ کسی دوسرے کے پاس موجود ہو۔ وہ جب بولتے تو سننے والا ان کے سحر میں گم سا ہوجاتا۔ عامر بھائی ان خوش قسمت انسانوں میں سے تھے جنھیں خدا نے زور قلم اور زور خطابت کا پیش بہا عطیہ بخشا۔

اپنے صحافتی کریئر کا آغاز اپنے ذاتی پرچے ندائے ملت سے کیا۔ اس کے بعد روزنامہ پرچم اور دی نیوز سے وابستہ رہے۔ پھر ایف ایم ون او ون پر بحیثیت پریزینٹر کام کیا۔ ان کے اندر چھپی خداداد صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے جنگ گروپ آف پاکستان نے انھیں جیو نیوز میں بحیثیت نیوز کاسٹر منتخب کیا اور پھر وہاں سے عالم آن لائن، انعام گھر، اور رمضان کی خصوصی نشریات کے ذریعے مقبولیت کے ایسے جھنڈے گاڑے کہ پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کے بڑے بڑے قد آور دیوتا ان کے پیچھے دوڑنے لگے۔ سب کی اولین خواہش ہوتی کہ عامر لیاقت ان کے چینل کے لیے کام کریں۔ وہ جیو سے منسلک ہوں، یا پھر اے آر وائی، پی ٹی وی، ایکسپریس یا بول۔ جہاں بھی گئے، انھوں نے اپنے اندر چھپی فنی صلاحیتوں کی بناء پر چینل کو نمبر ایک ریٹنگ پر پہنچا دیا۔

ڈاکٹر عامر لیاقت بنیادی طور پر ایک حساس دل رکھنے والی شخصیت کا نام ہے۔ جن کی زندگی ان کی ”ماں“ محترمہ محمودہ سلطانہ صاحبہ تھیں۔ یوں تو دنیا کی ہر اولاد کو اپنے والدین عزیز ہوتے ہیں۔ مگر ڈاکٹر صاحب کے دل میں ہم نے ان کی والدہ کے لیے دیوانہ وار محبت دیکھی ہے۔ جب بھی کسی نجی محفل یا چینل پر اپنی والدہ مرحومہ کا ذکر فرماتے تو ان کی آنکھیں اشکبار ہو جایا کرتیں۔ امی کے ہاتھ کے پکائے ہوئے کھانوں کا خصوصی ذکر فرماتے۔ خاص کر ان کے ہاتھوں پکائی ہوئی ارہر کی دال اور چاول کو وہ بہت یاد فرماتے۔

صرف یہ ہی نہیں ڈاکٹر صاحب نے اپنی والدہ کے نام سے محمودہ سلطانہ فاؤنڈیشن بھی قائم کی۔ محمودہ سلطانہ فاؤنڈیشن کے تحت انھوں نے 900 سے زائد مستحق خاندانوں کی کفالت، بیروزگاروں کے لیے روزگار اسکیم، بیماروں کے لیے مفت علاج اور ادویات، غریب و مسکین لڑکیوں کی شادی، مفت تعلیمی سہولیات، غریب عوام کے لیے مفت کھانے کی سہولت، روزمرہ کی بنیاد پر مفت راشن تقسیم کیے۔

علم، فہم و فراست سے بھرپور الفاظ کے جادوگر عامر لیاقت جو پاکستانی میڈیا انڈسٹری کے لیجنڈ تھے۔ اپنے کریئر کی ابتدا سے ہی ان کی شخصیت کو متنازع بنانے کا عمل جاری رہا۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے پاکستانی میڈیا انڈسٹری میں جتنی تنقید و تذلیل کا نشانہ انھیں بنایا گیا شاید ہی کسی دوسری شخصیت کو بنایا گیا ہو۔ کبھی ان کو مسلکی و لسانی بنیادوں پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا تو کبھی سیاسی وابستگی کی بناء پر ان کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی جاتیں۔

مگر 2016 میں چند ناگزیر حالات میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد سے لے کر زندگی کے آخری ایام تک ان کی زندگی شدید کرب و بلا کا شکار رہی۔ جس کی وجہ سے نہ صرف ان کے شاندار فنی کیریر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ بلکہ ان کی نجی زندگی بھی ہچکولے کھاتی رہی۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد بھی ان کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا۔ اور ان کے خلاف وہاں بھی نفرت انگیز مہم چلائی جاتی رہیں۔ جس کا وہ کئی بار برملا اظہار بھی کرتے رہے۔

یا یوں سمجھیں کہ ڈاکٹر صاحب کو سیاست راس ہی نہیں آئی۔ جس کا انھیں ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔ قارئین جیسا کہ میں ابتدائی سطور میں بیان کرچکا ہوں کہ وہ ایک حساس شخصیت کے مالک تھے۔ معاشرے کا منافقانہ رویہ حساس انسان کو ڈپریشن کا شکار بنا دیتا ہے۔ اور وہ اس ہی منافقانہ رویوں کا شکار رہے۔ ان کی زندگی میں موجود ہر شخص نے انھیں اپنی کامیابی کی سیڑھی سمجھتے ہوئے نہ صرف استعمال کیا بلکہ مطلب نکلنے کے بعد ان کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔

اور پھر ان کے دل پر سب سے بڑی ضرب دانیہ شاہ نامی ایک خاتون نے لگائی۔ جس کو انہوں نے ایک عزت دار زندگی دینے کی غرض سے اپنی شریک حیات بنایا۔ وہ اس کو اس گندگی کے ڈھیر سے نکال کر ایک عزت دار زندگی دینے کی خواہش رکھتے تھے۔ اور شاید یہ ہی نیکی ان کی زندگی کی سب سے بڑی سنگین غلطی بن گئی۔ اس بدبخت عورت نے میاں بیوی کے پاکیزہ رشتے کو بری طرح مجروح کرتے ہوئے ان کے ساتھ جو انتہائی غلیظ کھیل کھیلا اس سے آپ سب باخبر ہیں۔ لہذا میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔

مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دانیہ شاہ کی اس غیر شرعی و غیر اخلاقی حرکت کو جس طرح نام نہاد یوٹیوبرز اور فیس بک پیجز چلانے والے چند جہل سے بھرپور اور بدبودار سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے اس شرمناک فعل پر اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے نہ صرف اس کو سپورٹ کیا بلکہ ڈاکٹر صاحب پر بیہودہ اور گھٹیا ترین الزامات بھی عائد کیے۔ جس نے ڈاکٹر صاحب کے دل و دماغ پر شدید وار کیے۔

اور ستم ظریفی دیکھیں کہ جب ڈاکٹر صاحب نے اپنے ویڈیو پیغام میں نم آنکھوں کے ساتھ اپنے خلاف چلائی جانے والی اس گھٹیا مہم پر اپنی تکلیف کا اظہار کیا تو اس پر بھی ان نام نہاد سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے ان کا مذاق بنایا۔ ان کی آنکھ سے بہنے والے آنسوؤں کو مگر مچھ کے آنسوؤں سے تشبیہ دی۔ اور بالآخر ڈاکٹر صاحب کو اپنی سچائی ثابت کرنے کے لیے مر کر دکھانا پڑا۔

ڈاکٹر صاحب کی موت طبعی تھی یا مبینہ قتل یہ ایک معما ہے۔ جو شاید کبھی حل نہیں ہو سکے گا۔ مگر کیا یہ معاشرہ جہاں ہم سانس لے رہے ہیں انتہائی آلودہ نہیں ہو چکا ہے۔ جہاں اولاد ابو جہل جن کے پاس نہ نظریہ ہے نہ افکار، تہذیب و تمدن سے خالی ہر دو کوڑی کا شخص اپنا یوٹیوب چینل بنا کر خود کو صحافی سمجھ بیٹھا ہے۔ جن کا کام سنسنی خیز اور شرمناک سرخیاں لگا کر چند لائیکس کے حصول کے لیے بنا ثبوت دوسروں کی عزتوں پر حملہ کر کے ان کی پگڑیاں اچھالنا ہے۔ کیا ہمارے ملک میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے جو ایسے سڑک چھاپ دو نمبر نام نہاد صحافیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کو قانون کے کٹہرے میں لاکر ان کو عبرتناک سزا دے سکیں۔

عامر لیاقت حسین کی پراسرار موت کا معما کبھی حل نہیں ہو سکے گا۔ مگر کیا دانیہ شاہ اور ان نام نہاد یوٹیوبرز اور فیس بک پیجز چلانے والوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ جنھوں نے چند ٹکوں کے عوض ایک جیتے جاگتے انسان کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔

آج شہر کراچی کے ایڈوکیٹ عبد الاحد اگر فرزند کراچی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے مبینہ قتل کا مقدمہ لڑ رہے ہیں اور ان کو انصاف دلانے کی کاوشیں کر رہے ہیں۔ تو ان پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ موصوف سستی شہرت کے لیے یہ سب کر رہے ہیں۔ میرا ان الزام لگانے والوں سے صرف ایک سوال ہے آپ کی بات اگر تسلیم کر بھی لی جائے کہ وہ سستی شہرت کے حصول کے لیے یہ سب کر رہے ہیں۔ تو معذرت کے ساتھ آپ سب معززین وطن، میڈیا پرسن، معزز عدلیہ، اور محبان عامر لیاقت اس وقت کہاں تھے جب سستی شہرت اور چند لائیکس کے لیے پیسہ بنانے والے ٹکے ٹکے کے نام نہاد یوٹیوبرز ان کی کردار کشی کر رہے تھے۔

دانیہ شاہ جیسی عورت کو ہیرو بنا کر اس کے انٹرویوز کر کے ڈاکٹر صاحب کی کردار کشی کر رہے تھے۔ ان پر بیہودہ اور گھٹیا الزامات عائد کر رہے تھے۔ تو اس وقت ان نام نہاد محبان عامر لیاقت اور ان معزز شہریوں اور میڈیا پرسنز نے ان سستی شہرت کے حصول کے لیے ان بد کرداروں کے خلاف آواز حق کیوں بلند نہیں کی۔

عامر لیاقت جیسے لیجنڈ کی پراسرار موت پر چاروں طرف خاموشی رہی۔ کہیں سے کوئی آواز بلند نا ہوئی۔ اس کی کردار کشی کی گئی مذمت کی ایک آواز بلند نہیں ہوئی۔ شاید اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر عامر لیاقت فرزند کراچی تھا۔ اور یہ ہی ان کا گناہ تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments