گھر کا بھیدی


” مجھے سمجھ نہیں آتا سب کو میرے آنے جانے کی خبر کیسے ہوجاتی ہے“
جنید نے اپنی پریشانی اس کے ساتھ بانٹی۔
” تو میں کیا بتا سکتی ہوں“

ماریہ نے بے نیازی سے دیکھا تو وہ بھی چپ ہو گئے پھر ہر دوسرے دن یہ قصہ عام ہو گیا، جو بات گھر میں کی جائے پلک جھپکتے میں باہر اڑ جائے۔

” مجھے نہیں پتا تھا ماریہ تم اتنی گنی نکلو گی“
کال اٹھاتے ہی بی جان کی آواز سنائی دی۔
” یہ کیا کہہ رہی ہیں“
وہ بوکھلا گئی۔
”صحیح تو کہہ رہی ہوں“
ان کا بس نہیں چل رہا تھا موبائل میں سے نکل کر ان کی گردن مروڑ دیں۔
”بی جان بات تو سنیں“
اس نے بولنا چاہا۔

” پتا نہیں میں کیسے تمہیں بہو بنا کے لے آئی، سب بتا دیا عالیہ نے کہ تم کیسے ہمارے خاندان کو نیچا سمجھتی ہو“

انہوں نے اس کی جٹھانی کی بات کی تو وہ سر پکڑ کر رہ گئی۔
” اب کیا ہو گیا“
وہ سوچتی رہ گئی۔
” بی جان کو کیسے مناؤں گی جنید کو معلوم ہو گیا تو حد ہی ہو جائے گی“
کھانا بناتے ہوئے وہ اپنی نا کردہ خطائیں یاد کرتی رہیں۔
”ماریہ تم چھٹیاں گزارنے مری جار رہی ہو“ ؟
اس کی کزن نے پوچھا تو وہ سٹپٹا کے رہ گئی۔
نہیں تو۔
” چھپا لو ہم کون سا ساتھ جا رہے ہیں“
کزن کا منہ بن گیا۔
” سچ میں ایسی بات ہوتی تو میں ضرور بتاتی“
وہ رونے جیسی ہو گئی۔
” ٹھیک ہے بھئی نا بتاؤ“
وہ بھی ناراض ہو کر چلی گئی۔

آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے وہ دماغ لڑا رہی تھی مجال ہے جو کچھ عقل کام کرتی۔
” یہ کیا کرتی پھر رہی ہو، مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور تم نے 60 انچ کا ایل ای ڈی لے لیا“

آپا نے اس کو آڑے ہاتھوں لیا تو کرہاً کر رہ گئی ابھی تو اس ایل ای ڈی کو آئے دو گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے اور خبر پھیل گئی۔

” یہ ہے کون“
اس نے دانت چبائے۔
” کیا ہو گیا سو کیوں نہیں رہی ہو“
جنید نے کروٹ بدلتے پوچھا۔
” سو رہی ہوں لیکن پہلے میں بی جان سے بات کرلوں“
ابھی تو وہ سو گئی ہوں گی تو وہ چپ ہو گئی۔

دن تھے کے گزرتے جا رہے تھے، گرمی اپنے عروج پر تھی کہ ایک دم موسلادھار بارش شروع ہو گئی۔
تبھی امریکا سے جلال بھائی کی کال آ گئی۔
” بارش کے مزے لئے جا رہے ہیں“
تو وہ دونوں ہی حیران و پریشان رہ گئے۔
” آپ کو کیسے پتا“
یہ بھی اگر کوئی چھپانے والی بات ہے تو بتا دو تو آ گئے میں بات ہی نہیں کرتا ”
انہوں نے کال کاٹ دی تو وہ دونوں ہی بے بسی سے ایک دوسرے کو تکنے لگے۔

” کیا موسم کی خبر بھی آتی ہے وہاں پر“
یہ سوچ ایسی تھی جس کا جواب نہیں تھا۔
” اب تو مجھے بات کرتے ہوئے بھی ڈر لگنے لگا ہے کہ یہ بھی نا کوئی سن لے“
جنید نے سرگوشی کی۔
” دور ہٹیں یہاں جان پر بنی ہوئی ہے اور آپ کو مذاق سوجھ رہا ہے“
وہ سخت ناراض تھی۔
” امی اس عید پر سب یہاں آرہے ہیں“
علی نے بم پھوڑا۔
”کس نے بتایا“
وہ تو اپنی جگہ سے ہل ہی نا سکیں اور قربانی وہ ہلکے سے چلائی۔
”رات تک آئیں گے اور دوسرے دن باربی کیو رکھا ہے“
علی نے ایک ہی سانس میں پروگرام بتایا۔

” اب کیا ہو گا؟ سارے کام والے تو چھٹی پر چلے جاتے ہیں اور بی جان کی خدمت میں کوئی کسر رہ جائے تو جنید سمیت سب جینا محال کر دیتے ہیں، ابھی وہ ہی صدمہ برداشت ہی نہیں کر پائی تھیں کہ بی جان کی کال آ گئی۔

” فکر مت کرو ہم نہیں آرہے بلکہ تم آجانا اپنا سوٹ دکھانے، کام سے بھی جان چھوٹے گی“
وہ بولتی چلی گئی، بی جان ایسا نہیں ہے اس نے بولنے کی کوشش کی تو کال کٹ چکی تھی۔
عید کے دوسرے دن وہ سسرال پہنچی تو گیٹ کھلا ہوا تھا سارے بچے باہر تھے۔
”آنے کا ان کو کیسے پتا لگا“

اب تو سب کو سب پتا لگ جاتا ہے، کس نے کہا اس نے مڑ کر دیکھنے کی بھی کوشش نہیں کی، اندر آئی تو بی جان کو سلام کر کے ان کے پاس بیٹھ گئی، ناراضگی ان کے چہرے پر جھلک رہی تھی۔

” آپ ٹھیک ہیں اس نے پوچھا تو انہوں نے ہاں میں سر ہلا دیا، وہ بیٹھی دیکھ رہی تھی سب اپنے اپنے کاموں میں مشغول تھے۔

عالیہ بھابھی اپنے کمرے سے باہر نہیں آئی تھیں، جنید اپنے بڑے بھائی کے ساتھ بیٹھے تھے، سارے بچے گھوم رہے تھے کس نے سلام کیا کس نے نہیں کیا کچھ خبر نا تھی سب اپنی دنیا میں مگن تھے کہ ایک دم بی جان نے کہا۔

” ماریہ میری موبائل پر کس کی کال آ رہی ہے“

اس نے موبائل کو اٹھایا تو جلال بھائی تھے اس نے سلام کر کے بی جان کو پکڑا دیا، تھوڑی دیر بات کرنے کے بعد انہوں نے کال بند کردی کہ ایک دم علی بھاگتا ہوا آیا۔

”امی یہ میرے موبائل سے لائیو لوکیشن بند کر دیں“
اس نے موبائل ہاتھ میں لیا تو دیکھ کے حیران رہ گئی کہ علی نے سب کو پل پل کی خبریں دی ہوئیں تھیں۔

وہ گھر کی باتوں کو بغیر سوچے سب کو بتا رہا تھا، اسٹیٹس لگا رہا تھا تو اس طرح سے گھر کے بھیدی کا معمہ حل ہو گیا کہ موبائل اسٹیٹس اور چیٹنگ کس طرح سے محبتیں اور اختلافات لاتی ہے۔

علی نے اپنا موبائل واپس مانگا تو اس نے مسکرا کر اپنے پرس میں رکھ دیا اور جواب دیے بنا بی جان کی طرف متوجہ ہو گئی۔

” بی جان مجھے معاف کر دیں آپ پتا نہیں کس بات کی غلط فہمی ہو گئی اور گھر نہیں آئیں تو اس کی تلافی کے طور پر اس ہفتے کی اینڈ پر گھر پر میں ایک شاندار سا باربی کیو رکھتی ہوں اور آپ جس جس کو کہیں گی اس اس کو بلاؤں گی آخرکار میری پیاری سی ساس ہیں یہ موبائل کے چکر میں پڑ کر آپ دل میں غلط فہمی نا ڈالا کریں“ ۔

پھر وہ اٹھی اور عالیہ بھابھی کے کمرے میں آ گئی انہؤں نے بہت پیارا سا سوٹ پہنا ہوا تھا وہ بڑے دل سے ان سے گلے ملیں اور انہیں باہر لے آئیں۔

” بھابھی ہم پرانے دور کے لوگ ہیں اور یہ بچے گھر کی ہر بات اس طرح سے موبائل پر پیش کرتے ہیں کہ دل خراب ہو جاتے ہیں اس لئے بہتر یہ ہی ہے کہ موبائل کے بجائے آمنے سامنے بات کر لیا کریں“

یہ گھر کا بھیدی بڑی قیامت ڈھاتا ہے اور پھر سب خوشی خوشی کھانے پینے میں مشغول ہو گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments