غیر ملکی سازش کا بیانیہ پھر بے نقاب


قومی سلامتی کمیٹی ایک سے زائد مرتبہ واضح کر چکی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف کسی سازش کے ثبوت نہیں ملے۔ اس کے باوجود عمران خان اور ان کے رفقاء جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں مسلسل بضد ہیں کہ امریکی سازش کے نتیجے میں انہیں اقتدار سے نکالا گیا ہے تو ان سے وضاحت لینا ضروری ہے کہ آخر ان کی حکومت چین یا روس کے ساتھ مشترکہ دفاع کا کوئی معاہدہ کرنے والی تھے یا نیٹو کے مقابلے میں کسی بننے والے عسکری بلاک میں شامل ہونے جا رہے تھی جس کی وجہ سے عجلت میں امریکا کو رجیم چینج آپریشن کرنا پڑا۔

تحریک انصاف کی حکومت جانے کے بعد جو لوگ چیخ چلا رہے ہیں وہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ عمران خان کی اقتدار سے فراغت کیوں اور کس طرح ہوئی؟ ورنہ تحریک انصاف کے لیے ہمدردی رکھنے والے صحافی ایاز امیر صاحب کو عمران خان کے منہ پر نا کہنا پڑتا کہ امریکا تو بہت دور ہے اقتدار سے ان کی فراغت کا فیصلہ چند میل کے فاصلے پر ہوا تھا۔ پوری دنیا جانتی ہے عمران خان صاحب کو کس طرح اقتدار میں لایا گیا اور ان کے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے ملکی سلامتی و معیشت سمیت کیا کیا داؤ پر نہیں لگایا گیا۔

یہ بھی ہر کسی کے علم میں ہے تمام ریاستی اداروں نے جتنی آئینی اور غیر آئینی سپورٹ تحریک انصاف کی حکومت کو دی اس کا عشر عشیر بھی کسی دوسری حکومت کو آج تک نہیں ملا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں مسئلے کی بنیاد صرف یہ تھی کہ عمران خان نے اپنے محسنوں کو بھی آنکھیں دکھانا شروع کر دی تھیں۔ یہ بات کسی حد تک درست ہوگی لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ اصل وجہ خان صاحب کے مستقبل کے منصوبے تھے اور اس میں خراب معیشت کے سبب روزی روٹی سے متعلق خدشات کا بھی بڑا دخل تھا۔

ہم نے تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے کئی ماہ قبل لکھنا شروع کر دیا تھا کہ بعض وجوہات کے سبب مقتدر قوتوں کے لیے اپنا یہ پراجیکٹ جاری رکھنا فی الحال ممکن نہیں رہا مگر تحریک انصاف کی اقتدار سے فراغت کے بعد بھی اداروں کی طرف سے عمران خان کی سپورٹ جاری رہے گی۔ گزشتہ کچھ عرصے میں اعلی عدلیہ کے اقدامات اور تحریک انصاف کی قیادت کے ریاستی اداروں کے خلاف توہین آمیز بیانات کے بعد بھی مکمل خاموشی سے ہمارے اس خیال کی تصدیق ہوتی ہے۔

اب تو ایک آڈیو بھی سامنے آ چکی ہے جس کے بعد کوئی ابہام تھا بھی تو دور ہو جانا چاہیے کہ سازش اور غداری کی گردان پر مشتمل تحریک انصاف کے نئے بیانیے کے پیچھے اس کی قیادت کے ذاتی مفادات ہیں۔ اس آڈیو میں سابق خاتون اول بشریٰ بی بی عمران خان کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا ارسلان خالد کو ہدایت دے رہی ہیں کہ مخالفین کے خلاف غداری کا بیانیہ بنائیں۔ اس آڈیو میں وہ واضح طور پر کہتی سنی جا سکتی ہیں کہ علیم خان اور دیگر میرے اور خان صاحب کے بارے میں باتیں کریں گے، فرح کے خلاف بھی بولیں گے، سب کو غداری سے جوڑ دیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکی خط اور روس کا معاملہ اٹھانا ہے، اسے نیچے نہیں آنے دینا۔ لیک آڈیو میں مبینہ طور پر بشریٰ بی بی کہہ رہی ہیں کہ خان صاحب نے آپ سے کہا تھا کہ غداری کا ہیش ٹیگ چلانا ہے، مجھے لوگوں کے فون آ رہے ہیں کہ آپ کا سوشل میڈیا تو بہت ایکٹو تھا پر ایک ہفتے سے بالکل ایکٹو نہیں، ایسا کیوں ہے؟ آج کل تو آپ لوگوں کو بہت ایکٹو ہونا چاہیے تھا، علیم خان اور اس جیسے دیگر اور لوگ میرے اور خان صاحب کے بارے میں باتیں کریں گے، انہوں نے اس سے بھی زیادہ گند ڈالنا ہے، میرے ساتھ جو بچی فرح ہوتی ہے، اس کے خلاف بھی بولیں گے، اتنا گند ڈالیں گے اور لوگوں کی گواہیاں بھی دیں گے لیکن آپ نے اس کا کوئی ایشو نہیں بنانا بلکہ ان سب کو غداری کے ساتھ لنک کر دینا ہے۔

آڈیو میں بشریٰ بی بی مزید کہتی سنائی دے رہی ہیں کہ علیم خان اور باقی جو لوگ بولیں گے وہ سب پلاننگ کے تحت ہے، آپ نے ان کو غداری کے ساتھ لنک کر دینا ہے، آپ نے سوشل میڈیا میں لیٹر (مبینہ دھمکی آمیز امریکی خط) کا معاملہ اٹھانا ہے کہ وہ خط صحیح ہے، یہ غداری کی وجہ سے اکٹھے ہو گئے ہیں اور اپنے آپ کو بچانے کے لیے یہ غداروں کے ساتھ مل گئے ہیں اور غدار باہر کی قوتیں بھی ہیں اور سب، یہ سارا آپ کو پتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آج آپ نے روس کا معاملہ اٹھانا ہے اور اس معاملے کو نیچے نہیں آنے دینا، ٹرینڈ بنا دینا ہے کہ ان کو بھی پتہ ہے کہ خان اور ملک کے ساتھ غداری ہو رہی ہے۔

سینئر صحافی انصار عباسی نے یہ گفتگو لیک ہونے کے بعد دعوی کیا ہے کہ ایک اور ایسی آڈیو موجود ہے جس میں عمران خان اپنی وزارت عظمیٰ کے آخری دنوں میں اپنے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کو امریکی مراسلہ کا حوالہ دے کر کچھ اس طرح کہتے ہیں ”lets play with it۔ مزے کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت عمران خان کی اہلیہ کی لیک ہونے والی اس آڈیو کی صداقت پر سوال نہیں اٹھا رہی بلکہ ان کا اعتراض صرف یہ ہے کہ سابق وزیراعظم کی اہلیہ کا فون ٹیپ کیوں کیا گیا۔

اس کے بعد کوئی ابہام باقی ہے کہ عمران خان کی فراغت بیرونی سازش کے نتیجے میں ہوئی یا ان کی جماعت کی اندورنی بغاوت کے نتیجے میں؟ توشہ خانہ میں چوری اور فرح گوگی کی کرپشن کے بعد بھی جہانگیر ترین اور علیم خان کے تحریک انصاف سے راہیں جدا کرنے کے فیصلے کو کوئی عمران خان کی دیانتداری سے جوڑتا رہے تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ جب عمران خان اور ان کی جماعت پر اس قسم کے لوگ پانی کی طرح پیسہ بہا رہے تھے کہ اس وقت کسی کو یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ اس سخاوت کے پیش نظر کوئی مفاد تو ضرور ہو گا۔

سیدھی سی بات ہے جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے لوگ جن کے اشارے پر تحریک انصاف کے آنگن میں اترے اور اپنی سرمایہ کاری ضائع ہونے کے باوجود تین سال تضحیک برداشت کرتے رہے انہی کے کہنے پر واپس اڑان بھر گئے۔ اب اس میں غیر ملکی سازش کا پہلو کہاں سے آ گیا؟ یہ تازہ قضیہ اور گزشتہ پچھہتر سالوں کے ناکام سیاسی و عسکری محاذ کے تجربات کے بعد اب اداروں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ گزشتہ پون صدی سے رائج داخلی اور خارجی پالیسیوں سے ہم بہت نقصان اٹھا چکے ہیں۔ ادارے اگر واقعتاً نیوٹرل ہو چکے ہیں تو میرے خیال میں دس پندرہ سال تک سیاست کو آزاد چھوڑ کر دیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments