” نیٹو“ کی عالمی سیاست


اس وقت پوری دنیا دو واضح گروپوں میں تقسیم نظر آتی ہے، ان میں ایک مغربی ممالک پر مشتمل ’نیٹو ”بلاک ہے۔ اس بلاک کی عالمی برتری کئی دہائیوں پر مشتمل ہے اور اس میں معاشی اور جمہوری طور پر تگڑے امیر ترین ممالک کینیڈا، امریکہ، جاپان، اٹلی، فرانس، برطانیہ وغیرہ اور یورپین یونین شامل ہے۔ دنیا پر مل جل کر حکمرانی کرنے اور اپنی من مانی کرنے کے منصوبے پر اس بلاک کو بہت کامیابی ملی ہے، اگر کہیں افغانستان سے نکل جانے ایسی صورتحال کا سامنا بھی کرنا پڑا تو اس کو نظر انداز کر دیا گیا بلکہ مٹی ڈال دی گئی۔ دوسری طرف چین روس ترکی ایران، ملائشیا و چند دیگر ممالک کا بلاک ہے۔ اس میں روس اور چین ہی دو بڑی طاقتیں ہیں جن کے باعث‘ نیٹو“ ممالک کو مختلف عالمی چیلنجز کا سامنا ہے

پاکستان کچھ عرصہ ہی اس بلاک کا حصہ رہا لیکن پھر روس کے یوکرائن پر حملہ اور جنگ کے بعد کے سیاسی دباؤ کو برداشت نہ کر سکا اور ایک حکومت کی تبدیلی کے بعد الگ ہو گیا۔ روس اور نیٹو کے مابین سرد جنگ جو کئی سالوں سے جاری، جس کا نتیجہ بالآخر روس یوکرائن کی جنگ کے نتیجہ میں نکلا۔ اس کی بنیادی وجہ بھی یوکرائن کی نیٹو میں شمولیت کی تیاری اور نیم رضامندی تھی، روس کی مسلسل وارننگ کے باوجود یوکرائن کے موجودہ صدر اور اس کی حکومت نے نیٹو اور یورپین یونین کے ساتھ سیاسی پینگیں بڑھاتی رہی، جس کی قیمت جنگ کی شکل میں چکائی جا رہی ہے۔

روس کے یوکرائن پر حملے کے بعد سے ان دو بلاکس کی ’اجارہ داری ”کی کشمکش کی جھلک دو شمالی یورپین ممالک سویڈن اور فن لینڈ کی“ نیٹو ”میں شمولیت کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ ان دو ممالک نے عرصہ دراز سے خود کو “ الگ تھلگ رکھا ہوا تھا اور ”غیر جانبدار ممالک“ کا کردار ادا کیا لیکن بالآخر عالمی اور یورپین سیاست پر نیٹو کے گہرے اثرات سے بچ نہ سکے اور نیٹو کے گروپ میں شامل ہو گئے، اس حوالے سے پانچ جولائی کو نیٹو کے تیس رکن ممالک نے مغربی اتحاد میں سویڈن، فن لینڈ کی شمولیت کے پروٹوکول پر دستخط کر کے سالوں سے جاری ان دونوں ممالک کی گومگو کی کیفیت کو ختم کر دیا۔

عالمی تجزیہ نگاروں کے مطابق سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کی وجہ نیٹو کے ساتھ جاری سالوں لی سرد جنگ اور روس کی یوکرائن پر حملہ ہے۔ نیٹو میں ان ممالک کی شمولیت کے حوالے سے جاری مختلف افواہیں اب دم توڑ گئیں ہیں۔ جرمنی و یورپ کے ذرائع ابلاغ نے دو شمالی یورپین ممالک کی نیٹو میں شمولیت کو ایک اہم پیش رفت اور بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ماہ جون کے آخری ہفتہ میں جرمنی میں جی سیون بلاک کے ممبر ممالک ( جرمنی، کینیڈا، امریکہ، فرانس، اٹلی، برطانیہ، جاپان) کی سہ روزہ کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں نہ صرف روس کے خلاف متعدد سیاسی و اقتصادی پابندیوں کی منظوری دی گئی بلکہ یوکرائن کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کر کے اس کی فوجی امداد جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

اس کانفرنس کے بعد سبھی ممالک نے نیٹو ممالک کی کانفرنس میں بھی شرکت کی جس میں فن لینڈ اور سویڈن بھی شامل تھے۔ اس میں کوئی شک باقی نہیں رہا کہ نیٹو ”معیشت“ کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ جی سیون سمٹ جرمنی میں افریقی، ایشیائی ممالک کے لئے اربوں ڈالر کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ اسلامی بلاک اور جنوبی ایشیا کے اندر نیٹو اپنا اثر و رسوخ ہر صورت برقرار رکھنا چاہتا ہے، بھارت کو 2021 کے بعد اس سال بھی جی سیون سربراہی سمٹ میں مدعو کیا گیا کیونکہ آبادی کے لحاظ سے وہ دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔

اسی خطے کے دو ممالک سری لنکا، پاکستان بھی ہیں اور ان کی سیاسی و معاشی اندرونی حالت سب پر عیاں ہے۔ آج کی حقیقت یہی ہے کہ بڑے امیر اور اسلامی ممالک وہیں سرمایہ کاری کرتے ہیں جہاں ان کے معاشی اور ملکی مفادات کو مکمل تحفظ میسر ہو۔ موجودہ عالمی سیاسی تناظر میں مذہب اور جذبات کی کوئی وقعت نہیں رہی ہے نہ کوئی جگہ ہے۔ اس حوالے سے اسلامی ممالک نے دو ٹوک موقف اختیار کر رکھا ہے اور عالمی سفارت کاری میں مذہب کو نہ صرف بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے بلکہ واضح طور پر معاشی ترقی اور مالی فوائد کو ترجیح دی ہے جس میں ان کے عوام کی خوشحالی پوشیدہ ہے۔

ترکیہ خاص طور پر اس پالیسی پر تیزی سے گامزن ہے جس نے اسرائیلی وزیر اعظم کے بعد دیگر اعلیٰ حکام کو ترکی بلانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ جی سیون سمٹ کے بعد اٹھائیس جون کو بھارتی وزیر اعظم کا یو اے ای پہنچنے پر جس طرز کا استقبال کیا گیا تھا اس پر خود بھارتی وزیر اعظم کو شدید حیرانی ہوئی اور کہا کہ وہ اس سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سبھی اہم ممالک نے مسئلہ کشمیر پر بھارتی کارروائیوں کو یکسر نظر انداز کیا ہوا ہے اور پاکستان کے احتجاج کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ بہت اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ دو ماہ میں بھارتی وزیر اعظم کی جرمن چانسلر سے دو بار لمبی لمبی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ تین دن تک بطور مبصر جی سیون سمٹ جرمنی میں شرکت کر کے سفارت کاری کی، جبکہ دوسری طرف ہمارے ہاں ”کون صادق، کون امین“ کا جھگڑا، بھنگڑا ڈال رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments