آزادی اظہار کا سیاسی چیلنج


پاکستان میں آزادی اظہار ایک بڑا سیاسی چیلنج ہے۔ اگرچہ اپنی بات کرنے کا حق ہمارا دستور بھی دیتا ہے اور یہ ہمارا سیاسی، آئینی اور جمہوری حق بھی ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہاں اپنی بات کرنا اور بڑا سچ بولنا طاقت سے جڑے افراد یا اداروں کو پسند نہیں۔ یہ کوئی کہانی نئی نہیں بلکہ ایک پرانی کہانی ہے اور ہر دور میں سچ بولنے والوں کو مختلف سیاسی، انتظامی، قانونی اور معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ قانونی حق کے باوجود آزادی اظہار کے حوالے سے ہمیں مختلف نوعیت کے ریاستی، حکومتی، ادارہ جاتی یا معاشرتی سطح کے چیلنجز کا سامنا ہے جو اس ملک میں سیاست، جمہوریت، آئین اور قانون کی بالادستی کو متاثر کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ بنیادی طور پر آزادی اظہار کا مقدمہ پاکستان کی مجموعی جمہوریت اور دیگر آزادیوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جب ہمارے سیاسی نظام میں جمہوریت خود ایک بڑے ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے یا اسے مختلف محاذوں پر کمزوری کا سامنا ہے وہاں آزادی اظہار خود بھی بڑا چیلنج ہو گا۔

حالیہ دنوں میں پاکستان میں ایک خاص نقطہ نظر سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو مختلف حوالوں سے تشدد، خوف ہراس، مقدمات سمیت بڑی دھمکیوں کا سامنا ہے۔ ماضی اور حال دونوں میں ایسے صحافیوں کی فہرستیں یا نام موجود ہیں جن کو سابقہ حکومت یا موجودہ حکومت یا اسٹیبلیشمنٹ کی وجہ سے مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا رہا ہے۔ جو ماضی میں ہوا اور جن کے ساتھ بھی ہوا وہ بھی غلط تھا اور جو کچھ آج بھی ہو رہا ہے اور جن کے ساتھ ہو رہا ہے وہ بھی غلط ہے۔

کیونکہ طاقت کے انداز سے مسائل کا حل تلاش کرنا اور طاقت کا استعمال دونوں ہی غلط حکمت عملیاں ہیں۔ ان حکمت عملی سے نہ تو ماضی میں کوئی فائدہ ہوسکا اور نہ آج کوئی فائدہ ہو گا۔ یہ عمل بلاوجہ ایک ردعمل کی سیاست کو جنم دیتا ہے جو ماحول میں سیاسی تلخی کو پیدا کر کے حالات کو اور زیادہ بگاڑ میں مبتلا کرتا ہے۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ ہم نے بطور ریاست ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے حالات کو اور زیادہ بگاڑ لیا ہے۔

بنیادی طور پر آزادی اظہار اور ذمہ داری کا احساس میں ایک باریک سی ریڈ لائن ہوتی ہے۔ کسی بھی اظہار کے لیے ریاست کا مفاد بھی اہم ہوتا ہے۔ مگر بعض دفعہ ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ ہم بطور فرد ریاست سے زیادہ بالادست ہو گئے ہیں۔ عقل اور دلیل کے مقابلے میں جذباتیت پر مبنی آزادی اظہار زیادہ بالادست ہوجاتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں ریاست کے مفاد سے زیادہ ہم اہم ہیں۔ یہ سوچ اور فکر بھی ریاست اور فرد کی سطح پر ٹکراؤ کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔

صحافت میں آج کل آزادی اظہار کے نام کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے بطور ہتھیار بھی استعمال کیا جاتا ہے اور بہت سے لکھنے اور بولنے والوں کا اپنا ایک مخصوص سیاسی ایجنڈا بھی ہوتا ہے۔ پروپیگینڈا مہم اور درست اظہار میں بنیادی نوعیت کا فرق ہوتا ہے اور یہ ہی طے کرتا ہے کہ ہم آزادی اظہار کے نام پر کس حد تک سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اصل میں جو ایک بڑی سیاسی تقسیم اس معاشرے میں پیدا ہوئی ہے اس میں صحافی بھی اس کا اہم حصہ بن گئے ہیں۔

اسی پسند و ناپسند کی بنیاد پر سوچ کی تمیز کے بغیر اب صحافت کو چلایا جا رہا ہے۔ جب صحافت کا انداز اسی بنیاد پر آگے بڑھایا جائے تو یہ موجودہ مسائل بھی ہمیں مختلف محاذوں پر دیکھنے کو ملیں گے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب چینلز سمیت مختلف صحافیوں کو مختلف سیاسی گروہ بندی کے طور پر دیکھا اور پرکھا جاتا ہے۔ یہ تقسیم پاکستان میں صحافت اور آزادی اظہار کے لیے کوئی اچھا پہلو نہیں اور اس پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے۔

اصل میں یہ چیلنج ایسے معاشروں میں زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے جہاں حکمرانی کا نظام طاقت کی حکمرانی سے جڑا ہوتا ہے۔ یعنی حکمران یا بالادست طبقہ معاملات کو سیاسی، آئینی اور قانونی فریم ورک کی بجائے طاقت کے انداز میں حل کرنا چاہتا ہے۔ جہاں جمہوری روایات کمزور ہوں گی تو ہمیں ایسے مسائل کو تواتر کے ساتھ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ جو روایت ہم ڈال رہے ہیں کہ سچ ہی ہو گا جو ہمیں قبول ہو گا اور اسی سچ کے فریم میں سب کو اپنا اپنا سچ بولنا ہو گا، درست حکمت عملی نہیں۔

ہر جمہوری معاشرے میں ایک ریاست اور حکومت کے مقابلے میں ایک متبادل نقطہ نظر کی اہمیت ہوتی ہے اور اس رائے کو قبول کیے بغیر اس کا احترام کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں مختلف نظریات اور سوچ کے لوگ موجود ہوتے ہیں ان کا ایک نقطہ نظر ہونا غیر فطری ہوتا ہے۔ سیاست اور جمہوریت کی بنیادی کامیابی کی کنجی بھی مختلف لوگوں کے سچ کو عزت دینے سے جڑا ہوتا ہے۔ یہ جو روش ہے کہ ہم ایک ہی سوچ پر مبنی معاشرہ بنانا چاہتے ہیں ایسا ممکن نہیں ہو گا اور یہ سوچ حالات میں اور زیادہ جبر کے ماحول کو پیدا کرنے کا بنتا ہے۔

آزادی اظہار میں ایک بڑا چیلنج اپنی دی ہوئی آزاری کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔ یعنی آزادی اظہار پر مبنی سچ ذمہ داری کے ساتھ خود بھی بولا جائے اور دوسروں کو ترغیب دی جائے کہ اپنے اظہار میں ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جائے۔ ذمہ داری سے مراد تنقید اور تضحیک میں فرق کو سمجھنا ہوتا ہے۔ تنقید کا حق ہر کسی کو ہونا چاہیے اگر وہ تہذیب اور قانونی و سیاسی دائرہ کار میں لیکن براہ راست کسی خاص ایجنڈے کے تحت کسی کی بھی پگڑی اچھالنا درست عمل نہیں۔

بالخصوص جو صحافی حضرات سوشل میڈیا سے جڑے ہوئے ہیں ان کو زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا، کیونکہ ریٹنگ کی اس میڈیا سیاست نے سنجیدہ صحافت کو چھوڑ کر عملاً ایک ایسا میڈیا کو طاقت دی ہے جو مخالفت برائے مخالفت پر قائم ہے اور اس کا مقصد ریٹنگ کی میڈیا سیاست کو طاقت فراہم کرنا ہے۔ صحافت میں میڈیا کوڈ آف کنڈکٹ یا ضابطہ اخلاق کی بڑی اہمیت ہے اور آج کے دور میں اس کو اور زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ دنیا میں مختلف ممالک میں میڈیا کوڈ آف کنڈکٹ پر نئے انداز سے بحث بھی ہو رہی ہے اور نئی پالیسیاں اور قانون سازی بھی ہو رہی ہے۔ اس میں حکومت، ادارے اور صحافت سے جڑے اداروں اور تنظیموں کی مشاورت سے نئے جدید نگرانی کے نظام سامنے آرہے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس پاکستان میں اس بحث کو بہت زیادہ پذیرائی ہمارے میڈیا میں حاصل نہیں اور نہ ہی اس پر کوئی بڑا علمی و فکری کام ہو رہا ہے۔

اس وقت بنیادی طور پر پاکستان میں آزادی اظہار یا صحافت یا صحافی کی آزادی کے لیے ایک بڑی میڈیا لٹریسی کی مہم درکار ہے۔ جہاں عملی طور پر اس بات کا سیاسی و سماجی شعور دینے کی ضرورت ہے کہ نہ صرف میڈیا بلکہ مجموعی طور پر معاشرے میں ہر وہ فرد جو بولتا ہے یا لکھتا ہے وہ کیسے اپنی آزادی اظہار کی حفاظت کر سکتا ہے۔ اس حفاظت کے لیے خود اس پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور جو بھی ادارے نگرانی یا میڈیا یا آزادی اظہار سے جڑے نظام کی شفافیت پر کام کرتے ہیں ان کا کردار کیا ہونا چاہیے۔

اس میں بڑا کردار خود ہماری صحافتی تنظیموں کا بھی بنتا ہے مگر اس عمل میں ہماری صحافتی تنظیموں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان بنتے ہیں۔ ہمارے علمی و فکری میڈیا کے تعلیمی اداروں میں بھی وہ کچھ نہیں ہو رہا جو ہونا چاہیے تھا۔ اسی طرح ہم دنیا کے تجربات سے بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں کہ کیسے ان مغربی معاشروں نے آزادی اظہار یا میڈیا سے جڑے کوڈ آف کنڈکٹ میں کیا کچھ بہتر کیا ہے۔ ہماری سوچ اور فکر میں جدیدیت کی بحث تو موجود ہے اور ہم باہر کے اداروں کی مثالیں بھی دیتے ہیں مگر عملاً ہمارے کام کا انداز روایتی اور فرسودہ ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں آزادی اظہار کے تناظر میں جو مضبوط کام کیا جانا چاہیے تھا اس کا فقدان غالب نظر آتا ہے۔

آزادی اظہار کی یہ جنگ محض صحافیوں یا میڈیا تک محدود نہیں اور نہ ہی یہ جنگ کسی سیاسی تنہائی میں جیتی جا سکتی ہے۔ اس جنگ کو اگر ہم نے واقعی جیتنا ہے اور اس میں جذباتیت کے مقابلے میں زیادہ ذمہ داری اور سچ کا احساس پیدا کرنا ہے تو معاشرے کے تمام بڑے فیصلہ ساز فریقین کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ بالخصوص سیاسی نظام کو جب تک جمہوری، سیاسی اور قانونی فریم ورک میں نہیں لایا جائے گا تو وہاں ہم آزادی اظہار کے عمل کو بھی کوئی بڑی سیاسی طاقت فراہم نہیں کرسکیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تمام اہم فریقین اس آزادی اظہار کی ہر سطح پر حفاظت کرنے اور اپنی ذمہ داری کے لیے تیار ہیں تو جواب کافی کمزور اور مبہم نظر آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments