پروفیسر وارث میر مرحوم: چند یادیں


وارث میر صاحب کا نام میں نے پہلی بار سنہ 1971 میں سنا تھا۔ اس وقت مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن جاری تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا ایک وفد جاوید ہاشمی کی قیادت میں مشرقی پاکستان کے دورے پر گیا تھا۔ اس وفد کے ساتھ پروفیسر وارث میر صاحب ٹیچر انچارج کے طور پر گئے تھے۔ وہاں سے واپسی پر میر صاحب نے نوائے وقت میں کالموں کا ایک سلسلہ لکھا تھا۔ اتنے برس گزر جانے کے بعد میں ان کالموں پر کوئی رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں لیکن مجھے اتنا یاد پڑتا ہے کہ ان میں آرمی ایکشن کی مخالفت نہیں کی گئی تھی۔ ویسے بھی ان دنوں میر صاحب کا شمار دائیں بازو یا پنجاب یونیورسٹی میں جماعت اسلامی کے حامی اساتذہ میں ہوتا تھا۔

میر صاحب کو دیکھنے اور سننے کا موقع دو تین برس بعد سنہ 1973 یا 74 میں ملا۔ ان دنوں استاد محترم پروفیسر مرزا محمد منور صاحب کا شعری مجموعہ ”غبار تمنا“ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ اس کی تقریب رونمائی کیفے گرینز کے اوپر والے ہال میں منعقد ہوئی تھی۔ کتاب پر اظہار خیال کرنے والوں میں ایک نام وارث میر صاحب کا تھا۔ چنانچہ ان کو بھاری پاٹ دار آواز میں گفتگو کرتے سنا۔ گفتگو کیا تھی، وہ اب کچھ یاد نہیں۔

میں سنہ 1978 میں دوبارہ نوکری کی تلاش میں تھا۔ مجھے پتہ چلا کہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں لیکچرر کی سیٹ خالی ہوئی ہے۔ میں فلسفہ کے صدر شعبہ پروفیسر خواجہ غلام صادق صاحب سے ملاقات کی غرض سے گیا۔ خواجہ صاحب میرے حال پر شفقت فرماتے تھے۔ میں شعبہ کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا تو دیکھا کہ خواجہ صاحب وارث میر صاحب کی معیت میں سیڑھیاں اتر رہے تھے۔ میں نے سلام کیا تو خواجہ صاحب نے میر صاحب سے کہا، اسے جانتے ہیں۔ ظاہر ہے میر صاحب نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر خواجہ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں میرا تعارف کراتے ہوئے کہا، یہ اپنے وقت کا بڑا مشہور سٹوڈنٹ لیڈر رہا ہے اور اس کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس نے لڑکا ہونے کے باوجود فلسفے میں فرسٹ ڈویژن لی ہے۔ یہ بات سن کر میر صاحب نے کہا، یہ کیا بات ہے کہ فلسفیوں میں عورتوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن فلسفے میں فرسٹ ڈویژن زیادہ تر لڑکیاں لیتی ہیں۔ میر صاحب کی یہ بات سن کر میری زبان خانہ خراب سے بے اختیار یہ جملہ پھسل گیا، یہ ہمارے بزرگوں کی مہربانی ہے۔ یہ سن کر خواجہ صاحب کو بہت غصہ آیا اور کہنے لگے، لڑکے ہی نالائق ہوں تو بزرگ کیا کریں۔

جنوری 1979 میں جب میں نے یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا تو اس وقت میر صاحب سکالرشپ پر انگلستان جا چکے تھے۔ وہاں بد قسمتی یہ ہوئی کہ وہ بہت بیمار ہو گئے اور اپنی ڈگری مکمل نہ کر سکے۔ اپنے قیام انگلستان کے زمانے میں میر صاحب کا ایک مضمون نوائے وقت کے رنگین فرنٹ پیج پر دو قسطوں میں شائع ہوا تھا جس میں بھٹو صاحب کی شخصیت کا نفسیاتی تجزیہ کیا گیا تھا۔ اس تجزیے کی بنیاد ایرخ فرام کی کتاب Anatomy of Human Destructiveness پر رکھی گئی تھی۔

جب میر صاحب انگلستان سے واپس آئے تو انھیں کچھ صدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ یونیورسٹی میں خواجہ خواجہ غلام صادق صاحب ایک طرح سے میر صاحب کے سرپرست تھے۔ خواجہ صاحب نے ہی انھیں اپنی جگہ ڈائرکٹر سٹوڈنٹس افیئرز تعینات کروایا تھا۔ یعنی انگلستان جانے سے پہلے میر صاحب یونیورسٹی میں اچھی حیثیت کے مالک تھے۔ جب وہ واپس آئے تو خواجہ صاحب لاہور انٹرمیڈیٹ بورڈ کے چیئرمین بن کر یونیورسٹی سے جا چکے تھے اور میر صاحب کی خالی کی ہوئی جگہ مسکین حجازی صاحب پر کر چکے تھے۔ وارث میر صاحب یونیورسٹی میں تنہا اور بے یارو مددگار ہو گئے۔

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے اساتذہ میں باہمی چپقلش بہت زیادہ تھی۔ شعبہ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی اسامی کا اشتہار آیا۔ ان دنوں ایک تو ایک سیٹ پر ایک ہی تعیناتی کی جاتی تھی۔ دوسرے اساتذہ کی تعیناتیوں اور ترقیوں میں اسلامی جمعیت طلبہ کا عمل دخل بہت بڑھ چکا تھا۔ حجازی صاحب جمعیت کے ساتھ معاملات سیٹ کر چکے تھے۔ اس وقت تک شاید وہ پی ایچ ڈی بھی کر چکے تھے۔ چنانچہ میر صاحب سلیکٹ نہ ہوئے تو اس بات کو انھوں نے بہت زیادہ دل پر لے لیا۔

میر صاحب کا ایک اور مسئلہ تھا۔ بہت سادہ مزاج انسان تھے۔ بولتے وقت یہ دھیان نہیں رکھتے تھے کہ جو کہہ رہے ہیں کہیں اس کا انہیں نقصان ہی نہ پہنچ جائے۔ اپنی اس عادت کی بنا پر بھی انھوں نے اپنے بعض قریبی اور مخلص دوستوں کو ناراض کر لیا تھا۔

اس کے بعد میر صاحب کی زندگی کا وہ دور شروع ہوتا ہے جس میں آمریت کے خلاف آواز اٹھانے والے اور آزادی اظہار کے ایک چیمپئین کے طور سامنے آئے۔ اب ان کے کالم نوائے وقت نہیں بلکہ جنگ اخبار میں شائع ہوتے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے اس دور میں بہت عمدہ لکھا ہے جو حریت فکر اور روشن خیالی کی تحریک کی حمایت میں تھا۔

ان کی ان تحریروں کی وجہ سے یونیورسٹی میں ان کی مخالفت اور بڑھ گئی۔ وہ جمعیت کی انتقامی کارروائیوں کا ہدف بنے۔ قتل کی ایک ایف آئی آر میں ان کے بیٹے فیصل میر کا بھی نام ڈال دیا گیا۔ میر صاحب کے لیے یہ بہت پریشانی کا دور تھا۔

1983 کا سال تھا جب پنجاب یونیورسٹی نے اپنا صد سالہ یوم تاسیس منایا۔ اس وقت اولڈ کیمپس سے مینار پاکستان تک اساتذہ کا ایک علمی جلوس نکالا گیا۔ مینار پاکستان پر ایک جلسہ ہوا جس کی میزبانی اس وقت ایل ڈی اے کے ڈی جی جنرل انصاری نے کی۔ اس موقع پرعلامہ اقبال کا یہ کلام ترنم سے پڑھا گیا: خودی کا سر نہاں لا الہٰ الا اللہ۔ جب گانے والے نے یہ مصرع پڑھا: اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں، تو وارث میر صاحب نے بآواز بلند کہا جمیعت کی آستینوں میں۔ اس پر کسی نے کہا میر صاحب نے دو نقطے زیادہ لگا دیے ہیں۔ میں نے کہا میر صاحب کے پاس کافی فالتو نقطے ہیں جو وہ ادھر ادھر لگاتے رہتے ہیں۔ یہ سن کر مجیب الرحمان شامی صاحب نے پیچھے مڑ کر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا اور آپ تو بے نقط سناتے ہیں۔

یہ واقعہ میر صاحب کی سادگی اور بے باکی کا بطور خاص آئینہ دار ہے۔ سنہ 1985 میں جمعیت والے ضیا الحق سے ناراض ہو چکے تھے۔ یونیورسٹی میں پولیس ایکشن بھی ہوا تھا۔ یونین پر پابندی لگ چکی تھی۔ ہمارے مذہبی طبقے کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ کسی سے اختلاف ہو تو فوراً اس کے کردار پر حملہ آور ہوں گے۔ اب جنرل ضیا الحق کو بھی نشانے پر لے لیا گیا۔ مشہور کر دیا گیا کہ ضیا الحق اپنے دورہ برما کے دوران میں ایک خاتون وزیر کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دیکھے گئے۔ انھی دنوں پاکستان فلسفہ کانگرس کا سالانہ اجلاس ہو رہا تھا۔ وہ خاتون وزیر بھی کسی سیشن میں بطور مہمان خصوصی مدعو تھیں۔ میر صاحب نے اس خاتون وزیر سے گفتگو کرتے ہوئے براہ راست ہی کہہ دیا کہ آپ کے بارے میں اس قسم کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ یہ بات سن کر پہلے تو اس کے چہرے کا رنگ لال ہوا لیکن فوراً ہی سنبھل کر اس نے کہا، یہاں میں روزانہ ضیا الحق سے ملتی ہوں بلکہ دن میں کبھی دو بار، کبھی تین بار بھی ملتی ہوں۔ اتنی سی بات کے لیے اسے مجھے رنگون لے جانے کی کیا ضرورت تھی؟

پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ کی سیاست میں دو دھڑے تھے۔ ایک جماعت اسلامی کے حامی، دوسرے مخالف۔ روایتی طور پر انھیں دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ جہاں نوکری کے مفادات وابستہ ہوں وہاں کسی قسم کی نظریاتی سیاست کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ اگر میرا مدمقابل ایک دھڑے کے ساتھ ہے تو میری مجبوری ہو گی کہ دوسرے دھڑے کا ساتھ دوں۔ میر صاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ بظاہر آخری برسوں میں ان کا شمار بائیں بازو کے حامیوں میں تھا لیکن وہ فکری اعتبار سے بائیں بازو سے کوئی تعلق نہیں رکھتے تھے۔ یونیورسٹی میں بائیں بازو کے پرانے افراد ان پر اعتماد بھی نہیں کرتے تھے بلکہ بعض اوقات تمسخر بھی اڑاتے تھے۔ میر صاحب کا شعبہ فلسفہ سے تعلق چونکہ خواجہ صاحب کے زمانے سے بہت مضبوط تھا اس لیے شعبہ فلسفہ ان کی پناہ گاہ تھا۔ یہاں ان کے ساتھ مکمل عزت و احترام سے پیش آیا جاتا تھا۔ مجھے ان سے دوستی کا دعویٰ تو نہیں لیکن اس زمانے میں ان سے ملاقاتیں بہت رہی ہیں۔ اس ساری خرابی کا روشن پہلو یہ تھا کہ اس زمانے میں میر صاحب نے بہت لکھا اور بہت اچھا لکھا۔ ان برسوں کی تحریریں اتنی وقیع اور فگر انگیز ہیں کہ وہ ان کا نام زندہ رکھیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments