میرا پڑھنے لکھنے کی طرف رجحان کیسے ہوا؟


میں سوچتا ہوں کہ انسان کو وقت کے ساتھ اپنا مقصد حیات طے کرنا پڑتا ہے۔ اس کے دو طریقے ہیں ؛ ایک یہ کہ انسان طے شدہ نظام حیات کو قبول کر لے، جیسے کسی مذہب کے اصولوں کو دل و جان سے مانتے ہوئے انسان اپنی زندگی کے ماہ و سال اس کے بتائے ہوئے طریقوں سے گزار دیتا ہے، دوسرا یہ کہ انسان غور و خوض سے اپنے رجحانات کا جائزہ لے اور ان کے مطابق اپنی زندگی کے مقاصد کا تعین کرے، جیسے عقلیت پسند لوگ کرتے ہیں۔ میں نے ایک تیسری صورت اپنائی یعنی اسلام کے طے شدہ اصولوں کو بنیاد بنا کر سوچا کہ میں اپنی آخرت کی بہتری کے لیے کیا کر سکتا ہوں۔ میری صلاحیتیں کس انداز سے مجھے یہ کام کرنے میں مدد کر سکتی ہیں۔ مجھے لگا کہ پڑھنا پڑھانا اور لکھنا لکھانا ایسا کام ہے جو نہ صرف میری طبیعت سے میل کھاتا ہے بلکہ یہ ان اہم ترین کاموں میں سے ایک ہے جو ایک انسان کر سکتا ہے۔

میری ادب لکھنے اور پڑھنے میں دلچسپی کا آغاز چوتھی جماعت میں ہوا تھا۔ گھر سے تھوڑا دور بازار تھا اور بازار میں عزیز مارکیٹ تھی۔ عزیز مارکیٹ کے آغاز میں لکڑی کے پھٹے پر ایک بوڑھا آدمی کہانیاں رکھ کر بیچا کرتا تھا۔ ٹارزن، سپرمین، اور عمرو عیار کی کہانیاں میرے لیے دلچسپی کا خاص سامان تھیں۔ ایک دن جیب خرچ سے کہانی خریدی اور پڑھی۔ سپر مین۔ میرا پہلا پیار تھا۔ مجھے ٹارزن اور عمرو عیار سے زیادہ سپرمین بھایا۔ مجھے یاد ہے کہ کسی نے مجھے بتایا تھا کہ دس محرم کے ذوالجناح کو پکڑ کر جو دعا مانگی جائے قبول ہوتی ہے تو میں نے دعا مانگی کہ اگر میں سپرمین کی طرح اڑنے لگ گیا تو چار روپے (جو میری کئی ہفتوں کا جیب خرچ تھا) ذوالجناح کے چندے میں ڈالوں گا۔ عرصہ گزرا میں نے گھر زادی کو یہ منت بتائی تو وہ مجھے کہنے لگی کیا آپ کو ابھی بھی نہیں لگتا کہ آپ اڑنے لگے ہو!

بات کہیں اور نکل گئی تھی۔ ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ چوتھی جماعت کے سالانہ امتحان کے ایک دو دن پہلے میرے محلے دار شہزاد سے باہمی دلچسپی کے موضوع پر بات ہوئی تو اس نے نئی دوستی کی لاج رکھتے ہوئے اپنی تمام کی تمام کہانیاں جو کہ اچھی خاصی تعداد میں تھیں، مجھے پڑھنے کے لیے دے دیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرا انگریزی کا پرچہ تھا، شدید سردی کے دن تھے، ابو نے مجھے صبح صبح جگا دیا کہ اٹھ کر پرچے کی تیاری کروں۔ (جب میں یہ لکھ کر رہا ہوں تو میری آنکھوں کے سامنے ہمارے پرانے گھر کا کمرہ، اس کمرے میں ٹیوب لائٹ کی تیز روشنی، میری سرخ رنگ کے پھولوں والی رضائی، اور دیوار پر سردی کی وجہ سے جمی ہوئی سفیدی، اور ہمارے کمرے کا چپس لگا فرش جس پر میں بہنوں کے ساتھ مل کر اڈی چھڑپا کھیلا کرتا تھا، فلم کی طرح چل رہا ہے۔) جی تو ابو نے جگایا اور میں رضائی میں بیٹھ کر کتاب کے اندر کہانی رکھ کر پڑھنے لگا۔ جیسے ہی ابو کو شک گزرا انہوں نے کتاب پکڑی اور جیسے ہی اس میں سپر مین کی کہانی دیکھی تو میرے دو چار زناٹے دار تھپڑ رسید کیے۔ طبق کتنے تھے معلوم نہیں، لیکن جتنے تھے سب کے سب روشن ہو گئے۔ یہ ادب سے پیار کی پہلی قربانی تھی۔

وقت بدلتا گیا دن گزرتے گئے، نویں جماعت میں گرمیوں کی چھٹیوں میں تانگے والے اڈے پر موجود لائبریری سے کتابیں ایک حوالے سے ملنا شروع ہوئی۔ اب اپنی شان میں ہم کیا بیان کریں کہ ان صاحب کو تگڑا ریفرنس دینے سے پہلے میں نے پوری کتاب کے پیسے دے کر ناول پڑھنے کے لیے لینا چاہا تو انہوں نے اس سے بھی انکار کر دیا تھا۔ خیر بھلا ہو اس ریفرنس کا کہ مجھے لائبریری سے کتابیں ملنے لگیں۔ اس دور میں تین روپے ایک دن کا کرایہ ہوتا تھا۔

میرے لیے تین روپے روز کا کرایہ ڈھونڈنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہوتا تھا۔ خیر اس کا حل یہ نکالا کہ ایک ناول اگر لایا تو چوبیس گھنٹے کے اندر اندر پڑھ کر واپس کر دینا اپنے اوپر فرض کر لیتا تھا۔ پھر ساری ساری رات پڑھتا اور صبح جلدی جلدی ناول واپس کرتا۔ انہی دنوں طارق اسماعیل ساگر کا میں ایک جاسوس تھا، نسیم حجازی کا محمد بن قاسم، آخری چٹان، رحیم گل کا جنت کی تلاش، تن تارارا، اسلم ایم اے ابلیکا، اے حمید پیرس کی سنہری راتیں، کمانڈو، اور نجانے کتنے بیش بہا ناول پڑھے۔

پڑھتے پڑھتے میں بی اے میں چلا گیا۔ میں ممتاز مفتی کا علی پور کا ایلی پڑھ رہا تھا۔ اس سوانحی ناول کو لاتے ہوئے میں بازار سے ریوڑیاں بھی لے آیا تھا۔ اب کی بار بھی سردیوں کی رات تھی۔ میں دکان میں دیوار کر کے بنائی گئی بیٹھک ( جو کہ افسوس اب فروخت ہو چکی ہے ) میں رہتا تھا اس رات ابو بھی میرے ساتھ اس کمرے میں سوئے تھے۔ مجھے مطالعہ کرتے دیکھ کر ابو نے کچھ نہ کہا اور وہ سو گئے اور میں پڑھتا رہا یہاں تک کہ رات تین سوا تین کا دور ہو گیا۔ مجھے بھوک لگی اور میں ریوڑیاں کھانے لگا۔ میں آج تک حیران ہوں کہ ابو میرے ریوڑیاں کھانے کی آواز سے جاگ گئے ؛ فرماتے۔ علی کی کر ریا؟ ابو پڑھ ریا۔ اے آواز کیس چیز دی آ؟ ابو ریوڑیاں کھا ریا۔ اے کوئی ٹائم آ ریوڑیاں کھان دا چل سو جا ہن۔ اس دن کے بعد ایک عرصہ تک ابو مجھے ایلی کے نام سے پکارتے رہے۔

مجھے رات دیر تک مطالعہ کرنے کی عادت بہت پرانی ہے۔ رات کو بھوک لگنی تو گھر میں سوائے رات کے بچے سالن کے کچھ نہ ہوتا تھا۔ میں نے اس میں سے آلو نکال کر کھا لینے۔ ایک دو بار امی نے دیگچی کی آواز سنی تو فوراً ششکارا۔ ہشش! میں نے کہا : امی میں آں۔ اے تو کی کر ریا ایس ٹیم۔ امی کچھ نہیں۔ خاموشی۔ امی کہتی ہیں کہ اس دو بار کے بعد میں دیگچی کے کھڑکے کو نظر انداز کر نا شروع کر دیا کہ مجھے پتہ ہے ”میرا وڈا بلا“ لگا ہوا ہے۔

وقت گزرتا گیا اور میں پڑھتا گیا۔ لکھا بہت کم ہے ابھی لگتا ہے کہ مجھے کچھ نہیں آتا اور مجھے ابھی مزید دنیا جہان کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ میرے پاس دنیا کو بتانے کو کچھ ہو گا تو میں ضرور بتاؤں گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر انسان کے پاس کچھ ایسا بتانے کو ہو جو کہ بتایا جانا ضروری ہو، تو یہ انسان پر دوسرے انسانوں کا قرض ہے کہ وہ بات دوسروں تک پہنچائے۔ ابھی ایک لمبا سفر ہے جس میں میں ہوں، میرے ساتھ حروف ہیں، خیالات ہیں اور زندگی کی بقایا سانسیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments