عمران ریاض: آزادی اظہار سے دستبرداری کے وعدے پر رہائی


لاہور ہائی کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی سفارش اور عمران ریاض کی اس یقین دہانی کے بعد کہ وہ کوئی متنازع بیان نہیں دیں گے، گزشتہ روز فوج کے خلاف نفرت پھیلانے کے ایک مقدمہ میں ان کی ضمانت منظور کر کے رہائی کا حکم دیا ہے۔ عمران ریاض اس سے پہلے اپنی گرفتاری کے بارے میں یہ کہتے رہے ہیں کہ انہیں ’سچ بولنے سے انکار‘ پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔

تاہم تحریک انصاف اور عمران خان کی محبت میں فوج کو للکارنے اور عسکری قیادت کے خلاف بے بنیاد اور نفرت انگیز خبریں پھیلانے والے اس ’جری‘ صحافی نے پولیس حراست سے رہائی پانے کے لئے لاہور ہائی کورٹ کو متنازعہ بیان نہ دینے کا وعدہ کرتے ہوئے یہ اعلان حق نہیں کیا کہ وہ بہر صورت سچ تو بولتے ہی رہیں گے۔ پاکستان کی موجودہ صحافت میں سچ کو اتنا گدلا کر دیا گیا ہے کہ اسے پہچاننا مشکل ہو چکا ہے۔ ہر شخص اپنا سچ بیان کرنے کا اعلان کرتا ہے اور تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ یہ معاملات جب تک سیاسی لیڈروں کے درمیان موجود تھے تو اسے گروہی تقسیم اور سیاسی نظریاتی دوری کا نام دے کر کسی حد تک قبول کیا جاسکتا تھا لیکن سوشل میڈیا کی مقبولیت، اس کی عام لوگوں تک رسائی اور سیاسی لیڈروں کی طرف سے اپنا جھوٹ سچ بنا کر بیچنے کے لئے ’صحافت‘ کو استعمال کرنے کے طریقہ کار کی وجہ سے ذاتی مفاد کے لئے لڑی جانے والی اس یک طرفہ لڑائی کو معرکہ حق و باطل قرار دینا ممکن نہیں ہے۔

پاکستان میں سیاسی تصادم کی موجودہ صورت حال کو غیر ذمہ دار اور ایک خاص سیاسی گروہ کی حمایت پر اصرار کرنے والے صحافیوں نے زیادہ پیچیدہ اور مشکل بنا دیا ہے۔ اس رویہ سے ایک خاص گروہ میں مقبولیت حاصل کر کے اس سے مالی فوائد تو بٹورے جا سکتے ہیں لیکن ایسا کوئی شخص نہ تو سچ کا اجارہ دار کہلا سکتا ہے اور نہ ہی یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہو گا کہ وہی تمام سچ جانتا ہے اور اس کی باتوں کو ہی درست مانا جائے۔ عمران ریاض بھی ایسے ہی لوگوں شامل ہیں۔ وہ عمران خان اور تحریک انصاف کی محبت میں اس حد تک آگے نکل گئے کہ انہیں یہ معلوم ہی نہ ہوسکا کہ اس بگٹٹ دوڑ کی دھول میں سچ کب کا گم ہو گیا اور ان کی باتیں حقائق کی بجائے سیاسی نعروں اور منشور کی صورت اختیار کر گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس باقر نجفی نے اس ممتاز صحافی سے استفسار کیا کہ کیا وہ متنازع بیان نہ دینے کا وعدہ کرتے ہیں؟ عمران ریاض نے ایک بار تو زیریں عدالتوں سے ضمانتوں کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی غیر معمولی سچائی کا ثبوت دینے کی کوشش کی لیکن اس موقع پر فاضل جج نے واضح کیا کہ ’عدالتوں کو متنازعہ نہ بنائیں‘ ۔ اس پر عمران ریاض نے یقین دلایا کہ جیسا کہ ان کے وکیل نے وعدہ کیا ہے وہ ضمانت ملنے کی صورت میں کوئی ایسا متنازعہ بیان نہیں دیں گے جس سے معاملہ مزید خراب ہو جائے۔ اس یقین دہانی اور ایڈووکیٹ پنجاب کی رضامندی کے بعد ہائی کورٹ نے صحافی کو ضمانت دے دی۔

خالص ذاتی رائے یا کسی معاملہ میں ایک مخصوص نقطہ نظر کی ترویج کرنے پر کسی بھی شخص کے خلاف پابندی یا اسے ہراساں کرنے کی کوئی کارروائی قبول نہیں کی جا سکتی۔ ان سطور میں عمران ریاض کی گرفتاری اور فوج مخالف پروپیگنڈا کے نام پر غداری کے مقدمات میں ملوث کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے واضح کیا گیا تھا کہ اظہار کی آزادی کو دبا کر صحت مند معاشرہ تعمیر نہیں کیا جاسکتا۔ اس حوالے سے یہ دلیل ناقص اور ناقابل قبول ہے کہ کوئی شخص ماضی میں کیا کرتا رہا ہے اور اس نے یک بیک کیوں اپنا موقف تبدیل کر کے انہی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز طرز بیان اختیار کر لیا جن کو وہ اس سے پہلے قومی سلامتی کا محافظ قرار دے کر تنقید اور نکتہ چینی سے بالا سمجھتا تھا۔ صحافی و سیاست دان سمیت ہر شخص کو اپنا موقف تبدیل کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ریاستی ادارے یا معاملات کی نگرانی کرنے والے محکموں کا اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں ہو سکتا کہ کون شخص کیا کہہ رہا ہے۔

کسی بھی شخص کے خلاف صرف اس صورت میں قانون کو حرکت میں آنا چاہیے جب وہ کسی ایسے فعل میں ملوث ہو جو قانون شکنی کے ضمن میں آئے۔ اظہار کی کسی بھی قسم کو قانون شکنی کی اس تعریف میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔

مخالف آوازوں کو دبانے کے لئے عمران ریاض کے خلاف اختیار کیا گیا ریاستی طرز عمل نیا نہیں ہے بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اسی گھسے پٹے اور فرسودہ طریقے پر عمل کیا جاتا رہا ہے۔ کسی شخص کے اظہار سے ناراض ہو کر اسے قومی استحکام یا اداروں کے لئے خطرہ قرار دیا جاتا ہے۔ پھر نامعلوم شہریوں کی مدعیت میں متعدد مقامات پر ایسے شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے ہر علاقے کی پولیس کو اسے گرفتار کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ عمران ریاض کے ساتھ بھی یہی کیا گیا۔ انہیں ایک مقدمہ میں ضمانت ملی تو دوسرے میں دھر لیا گیا۔ ابھی ان کے خلاف درجن بھر سے زائد دیگر مقامات پر مقدمات درج ہیں اور ان میں بھی گرفتاری یا قانونی چاہ جوئی کا امکان موجود ہے۔ عمران ریاض کے وکیلوں نے اسی صورت حال کے پیش نظر لاہور ہائی کورٹ سے درخواست کی تھی کہ یا تو ان مقدمات کو ختم کیا جائے کیوں کہ یہ بدنیتی کی وجہ سے قائم کیے گئے ہیں یا پھر ان تمام مقدمات کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے تاکہ متاثرہ شخص کسی ایک تھانے اور ایک عدالت کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرسکے۔

آزادی اظہار کے کسی معاملہ میں متعدد مقامات پر مقدمات درج کروانے کا مقصد کسی قصور وار کو اس کے جرم کی سزا دلوانا نہیں ہوتا بلکہ اس کا اصل مقصد متعلقہ شخص کو ہراساں کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ درپردہ مفاہمت پر آمادہ ہو جائے اور تند خوئی سے باز آ جائے۔ البتہ اس سے بھی بڑھ کر کسی مشہور اور باوسیلہ صحافی کے خلاف مقدمات قائم کر کے اور اس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا بنیادی مقصد ملک کے طول و عرض میں پیشہ وارانہ خدمات انجام دینے والے ہزاروں صحافیوں کو پیغام دینا ہوتا ہے کہ کسی خاص موضوع پر ایک خاص وقت میں ریاستی اداروں نے کون سی ریڈ لائنز متعین کی ہیں۔ اور ان ریڈ لائنز کو عبور کرنے والوں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیا جائے گا۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ریاستی ادارے اگر عمران ریاض جیسے کسی با اثر شخص کو خاموش نہ بھی کروا سکیں تو بھی ایسے باوسیلہ شخص کے خلاف کارروائی سے عام طور سے معاشرے میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کی جاتی ہے اور اظہار رائے کو محدود کرنے کا مقصد حاصل کیا جاتا ہے۔

اس تناظر میں جمہوریت اور آئینی بالا دستی کا راگ الاپنے والی اتحادی حکومت کا فرض ہے کہ وہ اگر واقعی ملک میں آئینی حقوق کی سربلندی کے اصول پر یقین رکھتی ہے تو اس مقصد کے لئے صرف ہم خیال صحافیوں کو نوازنا ہی کافی نہ سمجھا جائے بلکہ ملکی قانون اور قابل دست اندازی پولیس معاملات میں اختیار کیے جانے والے طریقہ کا ر میں بنیادی تبدیلیاں متعارف کروائی جائیں۔ کسی رائے کو کسی ادارے کے خلاف سمجھنے والے کسی ’باضمیر شہری‘ کو اگر کوئی شکایت ہو تو وہ خود عدالتوں سے رجوع کر کے سول مقدمہ میں اپنے درد کا مداوا تلاش کرے۔ ایسے نامعلوم شہریوں کو پولیس اور ملک کے عدالتی نظام کو آلہ کار بنانے کی اجازت نہ دی جائے۔ اس طریقہ سے پولیس ایک تو دیگر اہم معاملات پر توجہ مبذول کرسکے گی۔ دوسرے محض رائے کے اختلاف کی وجہ سے کسی شخص کو پریشان کرنے کا طریقہ ختم ہو جائے گا۔

اسی طرح ایک ہی قسم کی شکایات درجنوں مقامات پر سامنے لانے کا موجودہ مضحکہ خیز طریقہ ختم کرنے کے لیے فوجداری ضابطوں میں مناسب ترامیم کی جائیں۔ شکایت کنندہ کو بھاری عدالتی فیس کے ساتھ کوئی شکایت جمع کروانے کا پابند کیا جائے اور اپنے موقف کو ثابت کرنے کا بار بھی شکایت کرنے والے پر ہو۔ حکومت حال ہی میں ایک ترمیم کے ذریعے نیب قانون میں یہ تبدیلی کرچکی ہے کہ کسی شکایت کی صورت میں ملزم کی بجائے نیب ثبوت فراہم کرنے کی پابند ہوگی۔ اسی طرح آزادی رائے کے معاملات میں شکایت کرنے والوں کو بھی پابند کیا جائے کہ اگر ان کے پاس ثبوت ہیں تو وہ انہیں سامنے لائیں اور کسی بھی شخص کو کوئی الزام ثابت ہونے سے پہلے ہی غیر ضروری مالی بوجھ اور نفسیاتی و جذباتی پریشانی سے دوچار نہ کیا جائے۔

ملکی قانون اور پولیس و عدالتی طریقہ کار میں مناسب تبدیلیوں کے مطالبے کے ساتھ ہی البتہ با اثر صحافیوں سے یہ سوال بھی پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے صحافت کو تجارت کا ذریعہ بنا کر آزادی رائے یا ملک میں سماجی انصاف کے لئے کون سی خدمت سرانجام دی ہے۔ اس ملک کے ہزاروں عامل صحافی انتہائی قلیل مشاہرے پر سخت محنت کرنے پر مجبور ہیں۔ نہ انہیں تنخواہ ملنے کی ضمانت ہوتی ہے اور نہ ہی یہ علم ہوتا ہے کہ کس میڈیا ہاؤس کا مالک کب کسی معمولی بات پر ناراض ہو کر انہیں نوکری سے نکال دے گا۔ ان حالات میں پاکستان میں ’قابل فروخت‘ صحافیوں کی ایک ایسی تعداد بھی پیدا ہو چکی ہے جو شہزادوں کی زندگی گزارتے ہیں، ان کے وسائل بے اندازہ اور آمدنی کا کوئی ٹھکانا نہیں ہے۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ یہ ساری آمدنی ’جائز‘ ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے تو بھی انہیں اس سوال کا جواب تو دینا ہو گا کہ وہ کیسے ایک ایسے شعبہ سے لاکھوں کروڑوں کما لیتے ہیں جہاں پر عام کارکن کو ایک عام خاندان کی ضروریات پوری کرنے کے وسائل بھی میسر نہیں ہوتے۔ پاکستان میں ٹی وی اسکرین پر ’قابل فروخت‘ چہروں نے جس طرح اپنی قیمت وصول کی ہے، پوری دنیا میں اس کی نظیر تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔ ایک ہی شعبہ میں ایک جیسی خدمت انجام دینے والے لوگوں میں سے بعض گنے چنے لوگ ناقابل بیان حد تک مشاہرہ اور سہولتیں حاصل کرتے ہیں جبکہ ان کے بیشتر ساتھی گھر کا کرایہ، بچوں کی فیس اور بیمار ماں یا بیوی کا علاج کروانے کے قابل بھی نہیں ہوتے۔ صحافی چونکہ سماجی انصاف کا علمبردار اور معاشرے میں مساوی سلوک کا نقیب ہوتا ہے، اس لئے خود کو صحافی کہلوانے والے سب لوگوں کو اس عدم توازن پر فخر کی بجائے، اس نا انصافی کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔

عمران ریاض یا اس قسم کے چند درجن دیگر ’صحافی‘ اپنی صلاحیتوں یا اپچ میں اپنے ہم پیشہ دیگر لوگوں سے زیادہ اہلیت کے حامل نہیں ہوتے۔ پھر بھی دولت کی دیوی ان پر مہربان رہتی ہے۔ اس لئے یہ سوال بجا طور سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ’ناقابل توجہ‘ سے تمام تر توجہ کا مرکز بننے کے لئے کوئی تو ایسی قیمت ادا کی جاتی ہوگی جس کی وجہ سے وسائل بھی مہیا ہو جاتے ہیں اور صاحبان اختیار و اقتدار کے دروازے بھی وا ہونے لگتے ہیں۔ یوٹیوب چینل پر ’گھناؤنے سچ‘ بیان کرنے کے بعد جب وہی صحافی عدالت سے ضمانت لینے کے لئے اچھا بچہ بننے اور متنازعہ ’سچ‘ بیان کرنے سے گریز کا وعدہ کرتا ہے تو اسے ضرور اپنے گریبان میں جھانکنا اور سوچنا چاہیے کہ جو ’سچ‘ بتا کر ملک و قوم کو تباہی سے بچانے کا اعلان کیا جاتا ہے، کہیں وہ طریقہ بیچاری قوم کو کرب مسلسل میں مبتلا رکھنے کا باعث ہی نہ بنتا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments