امجد اسلام امجد: عالمی شہرت یافتہ شاعر اور ڈرامہ نگار


امجد اسلام امجد پاکستان کے ان لیجینڈری ادیبوں میں سے ہیں جن کے آگے خود شہرت محتاج ہے! وہ ہمیشہ تخلیقی کام کرتے آگے بڑھتے رہے اور کہتے رہے ہیں اور بلائیں لیتی شہرت ان کے پیچھے بھاگتی دوڑتی رہی ہے۔ انہوں نے کبھی پلٹ کر بھی شہرت کی طرف نہیں دیکھا۔ وہ محض اپنے اعلی، منفرد اور غیر معمولی تخلیقی عمل میں مصروف رہے ہیں۔ جن کی قلم سے تخیل اور تخلیق کا بہتا سمندر موجزن رہا اور یہ عوام کی عکاسی کرتے ان کے دھڑکتے دل کی دھڑکنوں میں دھڑکتے رہے اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچے۔

امجد اسلام امجد بھی ان میں سے ایک ہیں۔ ان سے میری صرف ایک وہ بھی مختصر ملاقات ہے۔ اس مختصر ملاقات میں مجھے انتہائی نفیس، جاذب نظر اور گفتگو میں دھیرج کی مٹھاس رکھنے والی شخصیت لگے۔ نہ فخر نہ بڑائی! اس ملاقات میں ایسا لگا جیسے سالوں سے شناسائی تھی۔ سادگی کے پیکر امجد اسلام امجد تیز اور معنے خیز گفتگو کرتے ہوئے ساون میں بہتا مست الست دریائے سندھ محسوس ہوا۔

امجد اسلام امجد بہ یک وقت بڑے شاعر، کالم نگار اور ڈراما نگار ہیں۔ ان کے کالموں، شاعری اور ڈراموں کی کئی کتابیں شایع ہوئی ہیں۔ ان کی شاعری اور ڈراموں کے موضوعات اور مضمون منفرد ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس نے شاعر اور ڈراما نگار کی حیثیت سے اپنا الگ تھلگ مقام پایا ہے۔ ان کے ڈرامے ”وارث“ نے مقبولیت اور شہرت کی بلندیوں کو چھوا۔ لوگ ڈراما دیکھنے کے لیے بے چینی سے انتظار کرتے تھے۔ ان کے دوسرے لکھے ہوئے ٹی وی ڈراموں نے بھی مقبولیت حاصل کی۔

امجد اسلام امجد بلند پایہ شاعر بھی ہیں۔ ان کے اظہار کا انداز اور اسلوب اپنا ہے۔ اس نے شاعری کی دوسری اصناف میں بھی لکھا ہے مگر امجد اسلام امجد نے زیادہ تر غزل کی صنف کو اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ ان کی غزلوں میں تغزل اور رومانوی پہلو نمایاں نظر آتے ہیں۔ وہ پہلو پڑھنے اور سننے والوں کے حواس معطر بنا لیتے ہیں۔ ان کے شعروں میں بلند خیال یا تخیل کی خوشبؤ، احساسات کی رنگینی اور لفظوں کے کیمرہ کے ذریعے کی گئی منظر کشی، منظر نگاری اور جذبات کی عکس نگاری کمال کی ہے۔ ان کا شعر پڑھنے سے وہ عکس نگاری یا منظر نگاری پڑھنے والے کے جذبات کو متحرک بنا لیتی ہے۔

امجد اسلام امجد نے شاعری میں عکس نگاری کی تقریباً ساری اقسام استعمال کی ہیں۔ بنیادی طور پر عکس نگاری کا تعلق انسان کے پانچ حواسوں سے ہوتا ہے۔ شاعر اس عکس نگاری سے پڑھنے والے کے حواسوں کو تحرک میں لاتا ہے اور احساسات کو چھوتا ہے۔ مندرجہ ذیل پہلے شعر میں نظر کا متحرک عکس ہے۔ ریل گاڑی کا چلنا، آگے جانا اور پیچھے عکس بننا محسوس کرنے والی حواس سے خوبصورت عکس نگاری کی گئی ہے۔ دوسرے شعر میں نظر کا عکس ہے۔ تیسرے شعر میں ساکن اور متحرک دونوں عکس ہیں۔ ڈوبنا متحرک اور کھڑے ہونا ساکن جن کا تعلق نظر سے ہے اور پکار سننے والا عکس ہے جس کا تعلق کان یا سننے والی حواس یا حس سے ہے۔

شعر
جیسے ریل کی ہر کھڑکی کی اپنی اپنی دنیا ہے
کچھ منظر تو بن نہیں پاتے کچھ پیچھے رہ جاتے ہیں
جس طرف تو ہے ادھر ہوں گی سبھی کی نظریں
عید کے چاند کا دیدار بہانہ ہی سہی
بڑے سکون سے ڈوبے تھے ڈوبنے والے
جو ساحلوں پہ کھڑے تھے بہت پکارے بھی

شاعری میں عکس نگاری ایک الگ موضوع ہے۔ میں نے مختصر مثالیں دیں ہیں۔ امجد اسلام امجد کے ڈراموں، شاعری اور دیگر تحریروں کا باریک بینی اور تفصیل سے جائزہ لینا یہاں مشکل ہے۔ بہر کیف امجد اسلام امجد عالمی شہرت یافتہ شاعر اور ڈراما نگار ہیں۔

غزل
چہرے پہ مرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن
کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن
رازوں کی طرح اترو مرے دل میں کسی شب
دستک پہ مرے ہاتھ کی کھل جاؤ کسی دن
پیڑوں کی طرح حسن کی بارش میں نہا لوں
بادل کی طرح جھوم کے گھر آؤ کسی دن
خوشبو کی طرح گزرو مری دل کی گلی سے
پھولوں کی طرح مجھ پہ بکھر جاؤ کسی دن
گزریں جو میرے گھر سے تو رک جائیں ستارے
اس طرح مری رات کو چمکاؤ کسی دن
میں اپنی ہر اک سانس اسی رات کو دے دوں
سر رکھ کے مرے سینے پہ سو جاؤ کسی دن
غزل
یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے
جو زخم تو نے دیے ہیں بھرا نہیں کرتے
ہزار جال لیے گھومتی پھرے دنیا
ترے اسیر کسی کے ہوا نہیں کرتے
یہ آئینوں کی طرح دیکھ بھال چاہتے ہیں
کہ دل بھی ٹوٹیں تو پھر سے جڑا نہیں کرتے
وفا کی آنچ سخن کا تپاک دو ان کو
دلوں کے چاک رفو سے سلا نہیں کرتے
جہاں ہو پیار غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں
سو بات بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے
ہمیں ہماری انائیں تباہ کر دیں گی
مکالمے کا اگر سلسلہ نہیں کرتے
جو ہم پہ گزری ہے جاناں وہ تم پہ بھی گزرے
جو دل بھی چاہے تو ایسی دعا نہیں کرتے
ہر اک دعا کے مقدر میں کب حضوری ہے
تمام غنچے تو امجدؔ کھلا نہیں کرتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments