تلوار کے سائے تلے سانس لیتی اقلیتیں


خبر ہے کہ فیصل آباد کے ایک نواحی گاؤں میں عید الاضحیٰ کے موقع پر اپنے گھروں کی چار دیواری کے اندر قربانی کرنے پر احمدی برادری کے پانچ افراد کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کرتے ہوئے گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ماجد جاوید نامی ایک شخص نے پولیس کو یہ درخواست دی کہ جب وہ بعد از ادائیگی نماز عید الاضحیٰ جامع مسجد میں موجود تھے کہ انہیں باوثوق ذرائع سے اطلاع ملی کہ اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے قادیانی اپنے گھروں کے اندر قربانی کر رہے ہیں، چنانچہ ایسی اطلاع پر انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جاکر، الزام علیہان کے ملحقہ گھروں کی معاونت سے چھتوں پر چڑھ کر دیکھا کہ فلاں فلاں قادیانی سیڑھی کے ساتھ بکرا لٹکا کر ذبح کر رہے تھے، جبکہ ایک دوسرے احاطے میں بڑے جانور کا قربانی کا گوشت بنایا جا رہا تھا۔ اس عمل کو دیکھ کر ان کے اسلامی جذبات کو ٹھیس پہنچی، لہذا ان کے خلاف توہین مذہب کی کارروائی کی جائے۔

فیصل آباد پولیس کے ترجمان منیب احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس نے قانون پر عمل کرتے ہوئے احمدی برادری کے تین افراد کو گرفتار کیا۔ پاکستان کے قانون کے مطابق وہ غیر مسلم ہیں اور وہ خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے یا مسلمانوں والے کام نہیں کر سکتے۔ مزید یہ کہ نقص امن کا خطرہ لاحق ہو گیا تھا اور جس وقت پولیس نے احمدی برادری کے تین افراد کو گرفتار کیا، اس وقت گاؤں کی اکثریتی برادری سے تعلق رکھنے والے مشتعل افراد کا ہجوم ان کے گھر کے باہر جمع ہو چکا تھا۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ قوانین جنرل محمد ضیاء الحق شہید کی طرف سے اس ملک کے عوام کو دوبارہ مسلمان کرنے کی خوشی میں دیے گئے وہ تحفہ جات ہیں، جن سے دین کامل کو لاحق خطرات سے بچانے کا بندوبست کیا گیا اور الحمدللہ آج بات یہاں تک آن پہنچی ہے کہ بکرا کاٹنے پر بھی اسلام خطرے سے دوچار ہوجاتا ہے۔

تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 سی وہ قانون ہے جس میں ایک مخصوص کمیونٹی کا باقاعدہ نام شامل کر کے نشانہ بنایا گیا ہے، جبکہ پوری دنیا میں قوانین کی نوعیت عمومی ہوتی ہے، جن کا اطلاق بنا کسی تفریق ہر شخص پر لازمی ہوتا ہے۔ امتیازی طور پر بنائے گئے قوانین یا تو مخصوص طبقے کے مفاد سے جڑے ہوتے ہیں یا پھر مخالف کو زیر بار کرنے کی خاطر بنائے جاتے ہیں۔

تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 اور اس سے جڑی دیگر دفعات کی اگر تشریح کی جائے تو اس کی وسعت اتنی گہری ہے کہ کسی معمولی سی بات پر بھی کسی عام مسلمان کے اسلامی جذبات بھڑک سکتے ہیں اور مخالف پر باآسانی قابل دست اندازی جرم کا الزام لگایا جاسکتا ہے۔

اگر عید کے دن غیر مسلموں کی طرف سے قربانی کی اطلاع پاکر، بڑی مشکلوں اور محنتوں سے ان کے گھروں کے اندر جھانک جھانک کر وڈیو بناتے ہوئے توہین تلاش کی گئی ہے تو کل کسی کا حلیہ مسلمانوں جیسا دیکھ کر بھی اسلامی جذبات مجروح ہوسکتے ہیں اور بات بالآخر کفار کی دھوتی اٹھا کر چیک کرنے تک پہنچ سکتی ہے کہ مبادا ہماری طرح کہیں سنت ابراہیمؑی پر عملدرآمد تو نہیں کروا بیٹھا ہے۔

میں نے محرم کے جلوسوں میں اپنی آنکھوں سے ہندوؤں اور عیسائیوں کو سیاہ لباس پہنے سبیلیں لگا کر عزاداروں کو پانی پلاتے دیکھا ہے، نیاز تقسیم کرتے ہوئے اور ماتم کرتے ہوئے دیکھا ہے اور اس کشن چند بنیے کا کیا جو خیرپور میں ہر سال دسویں کی رات بڑے علم کے بیرونی دروازے سے لپٹ کر گھنٹوں رویا کرتا ہے۔ اس بار اگر کسی کا جانا ہو تو اسے کان میں یہ بات ضرور بتادے کہ بھیا ہم نے اپنے امامؑ کے غم کو محدود کر لیا ہے، آپ برائے مہربانی رو رو کر خود کو ہلکان مت کریں۔

ستانوے فیصد مسلم آبادی رکھنے والے ملک میں اسلام کو ہمیشہ خطرہ کیوں لاحق رہتا ہے، ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جذبات صرف اسلامی نہیں ہوتے، بلکہ جذبات غیر اسلامی بھی ہوسکتے ہیں، اسی طرح دنیا میں صرف ایک مذہب اسلام نہیں بلکہ 4200 مذاہب اور بھی ہیں اور ان کے خداؤں کے احترام کا درس ہمیں اسلام بھی دیتا ہے تو پھر اپنے مذہب کو اتنا محدود مت کر دیں کہ لوگوں کا سانس لینا بھی محال ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments