بھاگوں والی بیٹیاں


اشفاق صاحب نے لفظ بابا سے متعارف کروایا۔ ان کی بڑی مہربانی وگرنہ ہم تو آج شاید بیٹیوں کو سمجھ ہی نا پاتے۔

آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہوئی ہوگی کہ بیٹی کے لفظ کا بابا سے کیا تعلق۔
ایک قصہ بتاتی چلوں۔ اشفاق صاحب سے کسی نے پوچھا

”بابا کی تعریف کیا ہے“ انہوں نے جواب میں کہا میری پوتی بابا ہے۔ وہ حیران ہونے لگے۔ چھوٹی سی بچی بابا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گزرے دن کی بات ہے ہمارے گھر تپتی دھوپ میں شدید گرمی کے وقت ڈاکیا آ گیا۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اور خط پکڑایا۔ اچھا میری پوتی نے ڈاکیے کی حالت دیکھی اور ساتھ ہی کہا کہ انکل آپ یہاں ٹھہرئیے اور بھاگتے ہوئے ٹھنڈے پانی کا گلاس لے کر آئی۔

اور انہوں نے کہا بابا وہ ہے جو آسانی پیدا کرتا ہے۔

بیٹی کو ہمارے نبیﷺ نے رحمت کا ٹائٹل دیا۔ آپ ﷺ بیٹی کی آمد پر کھڑے ہوتے۔ آپﷺ اپنی چادر مبارک بیٹی کے لیے پھیلاتے۔ آپ ﷺ نے سب سے پہلے بیٹی کے مقام سے متعارف کروایا۔

ابھی چند دن پہلے کی بات ہے۔ میرے دوست کے چار بیٹے تھے۔ پھر اللہ بے اس کو بیٹی عطاء کی۔ آپ حیران ہوں گے یہ بات سن کر وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ کہ رب بیٹیوں کی عطاء کے ساتھ رزق بھی وسیع کرتا ہے۔ اس کے پاس سواری نہیں تھی اللہ نے اس کو سواری دی۔ اس کے گھر رزق کی تنگی تھی اللہ نے رزق کشادہ کر دیا۔ اس پر قرضہ تھا اس کو سمجھ نہیں آئی میرا قرضہ کیسے اتر گیا۔

ایک عزیز نے کہا کہ میری پانچ بیٹیاں ہیں اور ایک بیٹا ہے۔ میرے تو حالات بدتر سے بھی بدترین ہوتے جا رہے ہیں۔ میں کیا کروں۔ کسی دانشور نے اس سے پوچھا اگر تمہیں اپنی زندگی کی جمع پونجی کسی ایک اولاد کو دینی پڑے تو تم کس کو دو گے اس نے کہا میں اپنے بیٹے کو۔ پوچھا کیوں۔ کہنے لگا بیٹیاں تو اگلے گھر جائیں گی مہمان ہیں بیٹا ہمیشہ ساتھ رہے گا۔ دانشور نے کہا بیٹیوں کو اپنا لو تم خوشحال ہو جاؤ گے۔

طارق بلوچ صحرائی صاحب ایک افسانے میں لکھتے ہیں کہ لڑکا لڑکی بھاگ کر شادی کرتے ہیں۔ ایک دن دونوں آپس میں فیصلہ کرتے ہیں ہمارے ماں باپ آئے تو ہم دروازہ نہیں کھولیں گے۔ ایک دن لڑکے کا باپ آتا ہے وہ دروازہ نہیں کھولتا باپ مایوس ہو کر گھر کو لوٹ جاتا ہے۔ پھر چند روز بعد بیٹی کا والد آتا تو وہ دروازہ کھول دیتی ہے۔

مستقبل میں دونوں کے گھر بیٹی پیدا ہوتی تو لوگ لڑکے سے دریافت کرتے ہیں تمہارے گھر کیا پیدا ہوا وہ سب کو ایک ہی جملہ کہتا ”میرے گھر دروازہ کھولنے والی آئی ہے“ بیٹیاں بابا ہوتی ہوں۔ بیٹیوں سے بھاگ لگتے ہیں۔

میری ایک دوست بتاتی تھی کہتی تھی مجھے ہمیشہ گھر والے کہتے ہیں تم بختوں والی بیٹی ہو تیرے بعد بیٹا آیا ہے لیکن میرے گھر سکون نہیں ہے۔ اس کے ہر بار بتانے پر میں نے پوچھا۔ وہ تیرے سے کیسا سلوک کرتے ہیں۔ کہنے لگی کھانے کی ہر شے ء پہلے بھائی کو ملتی ہے پھر مجھے۔ ساری توجہ بھائی کو اور کبھی تو بھائی کا خیال نا رکھنے پر مجھے مار پیٹ بھی دیتے ہیں۔

مجھے اس دن احساس ہوا کہ بیٹیوں کو صرف بھاگ والی بیٹی نہیں کہتے ان کا خیال بھی عظیم رکھتے ہیں وگرنہ گھر کانچ کی طرح ٹوٹ جاتے ہیں جس کی مرمت بھی ممکن نہیں۔

سید سرفراز شاہ کہتے ہیں اگر آپ اپنا رزق وسیع کرنا چاہتے تو بیٹیوں کو عطاء کرنے لگ جاؤ بیٹی کے گھر جائیں تو بیشک ایک چٹکی نمک ہی ساتھ لے جائیں۔

میں نے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جن کے پاس پانی بھی نہیں تھا رب نے ان کو دانے والا کر دیا اور جو دانے والے تھے وہ پانی کو بھی ترس گئے۔ اللہ نے بیٹیوں کی عطاء میں بہت سے راز پوشیدہ رکھے ہیں۔ المختصر بیٹیاں سب بھاگوں والی ہوتی ہیں۔ بیٹیاں بابا ہوتی ہیں۔ ان کی قدر کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments