احمدی افراد پر قربانی کرنے پر مقدمہ


احمدی فرقہ کے دو افراد کے خلاف 2020 میں ایک ایف آئی آر درج ہوئی۔ ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ احمدیوں کی عبادت گاہ سے قرآن کریم کا ایک نسخہ برآمد ہوا ہے۔ اس طرح عبادت گاہ جو مسجد کی طرح دکھائی دیتی ہے، میں کلمہ طیبہ اور چند دوسرے اسلامی شعائر سے تعلق رکھنے والی چیزیں کندہ پائی گئی ہیں۔ اسی طرح عبادت گاہ میں قرآن کریم کے نسخے بھی رکھے ہوئے ہیں۔ عبادت گاہ میں ایک بجلی کا بل تھا جس پر اس عبادت گاہ کو مسجد لکھا گیا ہوا ہے۔

ایف آئی آر کی روشنی میں شروع میں صرف شعائر اسلام تک کے معاملات تھے جنہیں مجسٹریٹ نے 298 B اور 298 C کے تحت فریم کیا لیکن بعد میں اس میں توہین مذہب کی دفعات 295 B اور 295 C کو بھی شامل کرانے کی درخواست دی گئی جسے منظور کر لیا گیا۔ واضح رہے کہ 295 C کی سزا پاکستان پینل کورٹ کے تحت سزائے موت ہے۔

ان دفعات کے شامل کیے جانے کے خلاف مذکورہ بالا ملزمان نے اپیل کی جو مختلف عدالتوں سے ہوتی ہوئی سپریم کورٹ تک پہنچی۔

قابل احترام جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے سپریم کورٹ میں اس کیس پرایک تاریخی فیصلہ دیا۔ محترم جج نے 298 B اور C کو خارج کر دیا کہ اس کیس میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اسی طرح یہ کہا کہ تمام اقلیتوں کو اپنے مذاہب کی تعلیمات پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے، آئین پاکستان ہر شہری کو، وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم یہ تحفظ دیتا ہے۔ آئین کے تحت کسی بھی شہری کے حقوق کو معطل یا نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہر انسان دوسرے انسان کے برابر ہے۔ کسی چاردیواری کے اندر کسی بھی اقلیت کو عبادت سے روکا جانا غیر آئینی و غیر جمہوری عمل ہے۔ اقلیتوں کے خلاف متعصبانہ رویہ کی وجہ سے پوری قوم پر عدم برداشت، شدت پسند اور کٹر ہونے کا الزام لگتا ہے۔ آئین ہر شخص کو اپنے مذہب کی تبلیغ و ترویج کا بھی حق دیتا ہے۔

یہ فیصلہ 12 جنوری 2022 کو تحریر کیا گیا۔

حسب سابق اس سال بھی عید الاضحیٰ کے موقعے پر بعض مذہبی حلقوں، مجلس تحفظ ختم نبوت وغیرہ کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ احمدیوں کو قربانی کرنے سے روکا جائے۔ پھر خبر آئی کہ فیصل آباد کے نواحی گاؤں میں کسی صاحب نے اپنے گھر کی چھت سے جا کر دیکھا کہ احمدی افراد اپنے گھر کے اندر جانور ذبح کر رہے ہیں۔ جانور ذبح کرنے پر تین احمدیوں پر مقدمہ قائم کر دیا گیا ہے کہ وہ قربانی کر رہے تھے۔ جس سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے۔

سب سے پہلے تو بہت ہی نازک مذہبی جذبات رکھنے والے افراد کو یہ کیسے پتہ چلا کہ مذکورہ لوگ مسلمانوں والی قربانی ہی کر رہے تھے نہ کہ اپنے کھانے کے لئے جانور کو ذبح کر رہے تھے۔ دوسرا اگر قربانی ہی کر رہے تھے تو دنیا کے بہت سے مذاہب میں مختلف رنگ میں جانوروں کی قربانی کا تصور موجود ہے۔ اس میں ہندو مت، یہودیت، عیسائیت۔ یہاں تک کے مشرکین مکہ بھی قربانی کیا کرتے تھے اور آج بھی افریقہ اور جنوبی امریکہ کے جنگلوں میں موجود وحشی قبائل تک میں قربانی کا تصور موجود ہے۔ اس لئے قربانی کو صرف اسلام کی طرف منسوب کرنا بھی غلط تصور ہے۔ تیسرا اگر اسے نازک جذبات نے عبادت کے رنگ میں ہی دیکھا ہے تو سپریم کورٹ کے مذکورہ بالا فیصلے میں عدالت عالیہ آئین پاکستان کی تشریح کرتے ہوئے واضح طور پر چاردیواری کے اندر ہونے والی عبادت کو کسی بھی پاکستانی (مسلمان و غیر مسلم) کا بنیادی حق قرار دے چکی ہے۔

پس اگر انصاف ہو تو ”لا تجسسوا“ کے حکم کی خلاف ورزی انہوں نے کی جو لوگوں کے گھروں میں جھانکتے پھرے۔ لاعلمی اور جہالت کا ارتکاب بھی کیا کہ قربانی کو صرف مسلمانوں کے لئے خاص سمجھ لیا۔ آئین پاکستان اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی بھی خلاف ورزی کی جو اقلیتوں کو بھی اپنی چاردیواری کے اندر مذہبی تعلیمات بجا لانے کا حق دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments