عفت نوید صاحبہ! سب مرد ایسے نہیں ہوتے


محترمہ عفت نوید صاحبہ کے کالم سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ اس کالم کو شروع کرنے سے قبل اس عاجز کا یہ اعتراف جرم سن لیں کہ بندہ بھی ایک مرد ہے۔ بہر حال عفت صاحبہ کے کالم کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی مرد شاعر یا ادیب خود کشی کر لے یا قتل ہو جائے تو کوئی سکینڈل نہیں بنتا۔ اگر کسی خاتون شاعرہ یا ادیبہ سے یہ حادثہ ہو جائے تو اسے بد کردار مشہور کیا جاتا ہے۔ اور مرد وہ مخلوق ہے کہ گھر میں ہو تو اس کی بیوی اس کے گھر کو جنت بنا کر رکھتی ہے اور گھر سے باہر جائے تو ایک علیحدہ جنت بغل میں دبائے پھرتا ہے۔

خاص طور پر مرد ادیب وہ مخلوق ہے جو کہ اپنی ٹانگ پر ٹانگ رکھے مداح خواتین میں گھرا رہتا ہے اور کوئی اس پر تنقید نہیں کرتا لیکن اس کی بیوی کا کام بس یہ ہے کہ اس کے لئے کھانے بنائے اور اس کے مہمانوں کی خاطر داری کرے۔ کسی عورت کے سینے میں تخلیق کا سمندر بھی ٹھاٹھیں مار رہا ہو تو وہ سارا دن اپنے شوہر اور بچوں کی خدمت میں برباد کرتی ہے اور اگر کچھ لمحے اپنے لئے مانگے تو اسے فارغ کر دیا جاتا ہے۔

اس کالم میں محترمہ سارا شگفتہ صاحبہ اور سیمیں درانی صاحبہ کی المناک اموات کا ذکر کیا گیا تھا۔ مجھے اپنی کم علمی کے باعث محترمہ سارا شگفتہ اور محترمہ سیمیں درانی صاحبہ کی تحریریں پڑھنے کا موقع تو نہیں ملا۔ لیکن یہ ضرور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان کی وفات ایک اندوہناک حادثہ ہے۔ اور کسی کو یہ حق نہیں کہ از خود نوٹس یعنی suo moto لیتے ہوئے ان کے نامہ اعمال کا جائزہ لے کر ان کی وفات کو ان کے نظریات یا اعمال کی سزا قرار دے۔ ویسے بھی کسی کی اچانک وفات کے وقت دل میں ہمدردی کے جذبات پیدا ہونے چاہیں نہ کہ مرحومین کے نامہ اعمال کا آڈٹ شروع کر دیا جائے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ بہت سے شعراء، مصنفین اور مفکرین کی زندگیوں کا المناک انجام خودکشیوں پر ہوا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے شعراء، مصنفین اور مفکرین عائلی زندگی، جنسی تعلقات، اور جنسی معاملات پر آزادانہ گفتگو کرنے اور دوستیوں کے معاملہ میں اپنے دور کی روش سے بالکل مختلف طرز کے قائل رہے ہیں اور اس پر عمل بھی کرتے رہے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ ایسے لوگوں کو ہمیشہ زمانے کی طعن و تشنیع کے تیر سہنے پڑتے ہیں۔ اور بعض لوگ تو اپنے آپ کو ایسی شخصیات کی سرکوبی کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔ لیکن مکرمہ عفت نوید صاحبہ کے کالم سے یہ تاثر پڑتا ہے کہ اگر ایسا شخص مرد ہو تو معاشرہ اسے معاف کر دیتا ہے بلکہ شاباش دیتا ہے اور اگر عورت تو اسے بد کردار اور نہ جانے کیا کچھ قرار دے کر اسکینڈلوں کا نشانہ بناتا ہے۔

معاف کیجیے گا یہ عاجز اس نظریہ سے متفق نہیں ہے۔ حقائق اس کی نفی کرتے ہیں۔ نہ صرف دنیا میں بلکہ پاکستان کے معاشرے میں بھی ایسے مردوں کو بھی معاف نہیں کیا جاتا۔ میں صرف ایک حقیقت بیان کر رہا ہوں۔ غلط یا صحیح ہونے کی بحث نہیں کر رہا ہے۔ اگر قتل ہونے یا کسی اور رنگ میں پر اسرار موت کی مثال دی جائے تو 1970 کی دہائی میں مصطفے ٰ زیدی صاحب کا نام معروف تھا۔ وہ بہت اعلیٰ پائے کے شاعر تھے۔ خوش شکل اور جامہ زیب۔

اپنی زندگی بالکل آزادانہ رنگ میں گزارنے کے قائل۔ اطالوی اہلیہ ویرا صاحبہ سے ان کی شادی قائم تھی اور شہناز سے ان کی دوستی اور دونوں کا ساتھ رہنا بھی تمام دنیا میں مشہور تھا۔ کیا ان کی اس طرز زندگی کو معاشرے نے معاف کر دیا؟ میرا خیال ہے اس کا جواب نفی میں ہے۔ یحییٰ خان صاحب کے دور میں انہیں سرکاری نوکری سے برطرف کر دیا گیا اور اس وجہ سے انہیں بہت سی مالی اور دوسری قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ ملک چھوڑنے والے تھے کہ اچانک ان کے قتل کی خبر شائع ہو گئی۔

پھر جب ان کا قتل ہوا تو ان دنوں کے اخبار ان کے بارے میں چٹ پٹی خبروں سے بھرے ہوتے تھے۔ کوئی ان کی موت کی وجہ سے ان کو پارسائی کا نمونہ نہیں قرار دیتا تھا بلکہ سب ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کے سکینڈل بیان کرتے تھے۔ شہناز صاحبہ پر قتل کا شبہ تھا۔ لیکن پھر ان کو بری کر دیا گیا۔ کسی نے یہ ماتم نہیں کیا کہ دیکھو اگر کوئی عورت کسی بیچارے مرد کو قتل کرے تو صاف بچ جاتی ہے۔ اگر مصطفے ٰ زیدی صاحب پر کسی خاتون کے قتل کا الزام ہوتا اور وہ بری ہو جاتے تو ضرور کوئی نہ کوئی اعتراض کرتا کہ دیکھو مردوں کی اجارہ داری ہے۔ عورت کو قتل کر دیتے ہیں اور مردوں کی عدالتیں پھر بھی بری کر دیتی ہیں۔

جوش ملیح آبادی بھی اپنی آزادانہ طرز پر زندگی گزارنے کے قائل تھے۔ ”یادوں کی برات“ لکھی تو اپنے تمام معاشقے اور تعلقات کھلم کھلا بیان کیے ۔ کیا زمانے نے اس بنا پر انہیں بخش دیا کہ وہ مرد ہیں۔ نہیں ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ ایک دور میں تو ایجنسیوں کے بندے ان کے گھر کی نگرانی بھی کیا کرتے تھے کہ کون ان سے میل ملاقات رکھ رہا ہے۔ یہاں تک کہ اس وجہ سے ان کے آخری ایام میں ان کے بعض پرانے دوستوں نے ان سے ملنا ترک کر دیا تھا۔ ضیاء صاحب کے دور میں ان کو بلیک لسٹ کیا گیا اور ٹی وی اور ریڈیو پر آنے اور ان کا کلام نشر کرنے پر بھی پابندی لگائی گئی۔ جب انہوں نے اس دنیا سے کوچ کیا تو حفیظ جالندھری صاحب نے ان کو اسلام اور پاکستان کا دشمن قرار دے کر اچھی طرح اپنا غصہ نکالا۔

اب سعادت حسن منٹو صاحب کی مثال لیتے ہیں۔ انہوں نے ’کھول دو‘ ، ’سرکنڈوں کے پیچھے‘ اور ’ٹھنڈا گوشت‘ جیسے افسانے لکھ کر اردو میں ایک بالکل نئی طرز کی بنیاد ڈالی۔ چونکہ انہوں نے جنسی معاملات کو موضوع بنایا تھا۔ وہ تو خاتون نہیں تھے۔ فحش نگاری کے الزام میں ان پر چھ مقدمات چلائے گئے۔ تین آزادی سے پہلے اور تین آزادی کے بعد ۔ اور ایک مرتبہ جرمانہ کیا گیا۔ وہ مذہبی طبقہ کے زیر عتاب تو تھے، کمیونسٹ طبقہ بھی ان کو پسند نہیں کرتا تھا۔

منٹو کے دور میں ہی عصمت چغتائی صاحبہ نے بھی ”لحاف“ جیسا افسانہ لکھ کر مخالفت کے طوفان کو دعوت دی اور 1945 میں ان پر بھی مقدمہ چلایا گیا۔ ان پر یہ غصہ تھا کہ انہوں نے عورتوں کے ہم جنس تعلقات کو موضوع بنایا ہے۔ لیکن ہم یہ بالکل نہیں کہہ سکتے کہ منٹو کو اس لئے بخش دیا گیا تھا کہ وہ مرد تھے اور عصمت چغتائی اس لئے زیر عتاب آئیں کیونکہ وہ ایک خاتون تھیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ منٹو کو زندگی میں زیادہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

یہ شکوہ اکثر کیا جاتا ہے کہ خواتین کی زندگی کا بیشتر حصہ تو شوہر اور بچوں کی خدمت میں گزر جاتا ہے۔ اس کے پاس اپنے لئے یا کوئی تخلیقی کام کرنے کے لئے کوئی وقت ہی نہیں بچتا۔ لیکن اب تو پاکستان میں بھی بہت سی خواتین اپنے اپنے پروفیشن میں بھرپور طریق پر حصہ لے رہی ہیں۔ میرے خیال میں کچھ ہی عرصہ میں طب کے میدان میں وہ مردوں پر بھی سبقت لے جائیں گی۔ لیکن جو خواتین کوئی کاروبار یا ملازمت نہیں کرتیں اور ان کے خاوند گھر چلانے کے لئے اپنا کام کاج کر رہے ہیں، وہ بھی یہ شکوہ نہیں کر سکتیں کہ میرا خاوند تو باہر جا کر عیش کر رہا ہے اور میں بھاڑ جھونک رہی ہوں۔ وہ بیچارا خاوند اگر مزدور ہے تو محنت مشقت کر رہا ہے، بینک افسر ہے تو سارا دن اکاؤنٹ ہولڈرز کی باتیں سنتا ہے اور نخرے اٹھاتا ہے تب اس کی نوکری قائم رہتی ہے۔ اگر ڈاکٹر ہے تو مریضوں کا علاج کرتا ہے اور اس غرض کے لئے وقت بے وقت اسے ہسپتال جانا پڑتا ہے تب گھر کا خرچ چلتا ہے۔

کچھ لکھنے کا شوق ایسا شوق ہے، جس کے لئے وقت نکالنا پڑتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ اس مقصد کے لئے کوئی لکھنے والا سارا دن لیپ ٹاپ کے سامنے آنکھیں بند کر کے سوچتا رہے۔ بلکہ بسا اوقات مصروف زندگی لکھنے کے عمل کو ایک نیا رنگ دیتی ہے۔ اردو میں مزاح نگاری کی مثال لے لیں۔ کیا شفیق الرحمن کوئی فارغ انسان تھے۔ نہیں وہ ایک بہت قابل اور مصروف ڈاکٹر تھے۔ کرنل محمد خان کو عین جوانی کے عالم میں لڑنے کے لئے محاذ جنگ بھجوا دیا گیا۔

اگر وہ محاذ جنگ پر جانے کی بجائے گھر بیٹھ کر غور و فکر کرتے رہتے تو ”بجنگ آمد“ جیسا شاہکار نہ لکھ پاتے۔ انہوں نے جنگ کے خوفناک تجربات کو مزاح کے رنگ میں پیش کیا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ بینک ملازمین کی زندگی ایک خشک زندگی ہے۔ سارا دن آنے پائی کا حساب کرتے رہو، مشتاق یوسفی صاحب نے تمام عمر بینکنگ کے شعبہ میں مصروف گزاری اور اپنے بینک کے سربراہ بھی بنے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ”زرگزشت“ جیسی کتاب نہ لکھ سکتے۔

انہوں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے تجربات کو ایک انوکھے انداز میں بیان کیا اور داد پائی۔ اگر یہ تمام احباب اپنی مصروف ترین زندگیوں کے باوجود نامور مصنفین بن سکتے ہیں تو ایک خاتون خانہ اپنے لکھنے پڑھنے کا شوق کیوں نہیں پورا کر سکتی؟ آخر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ مرد جابر اور ظالم نہیں ہوتے۔ مردوں میں سے کچھ جابر اور ظالم ہوتے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments