ایک کہانی جو ہم سب کی کہانی ہو سکتی ہے


جس رفتار سے دنیا میں احمقوں اور پاگلوں کا غلبہ ہو رہا ہے، اس کی وجہ سے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو کہانیاں سنائیں کہ ہم کون ہیں، کیوں ہیں، ہم کہاں سے آئے ہیں اور کون کون سی چیزیں ابھی باقی ہیں۔ یہ بھی بتایا جائے کہ کون سی چیزیں ناممکن ہو گئی ہیں اور یہ بھی کہ فینٹسی کوئی جعلی یا تجریدی چیز نہیں ہے۔

کچھ کتابیں اس قدر دلچسپ ہوتی ہیں کہ ان کے بارے میں لوگوں کو نہ بتانا یا ان پر کچھ نہ کہنا یقیناً زیادتی ہوگی، آج ہم آپ کو ویسی ہی ایک عمدہ کتاب ’دی مین ہو پلانٹ ٹریز‘ سے ایک کہانی سناتے ہیں جس کے مصنف جین جیونو ہیں۔

یہ کہانی 1913 سے شروع ہوتی ہے۔ ایک 20 سالہ پرجوش نوجوان الپس کے پہاڑی علاقے میں سفر کے لیے نکلتا ہے۔ ایک دن وہ اپنے آپ کو ایک گاؤں کی اداس وادی میں پاتا ہے جو بنجر ہو چکی ہے۔ سنگلاخ زمین پر ایک درخت بھی دور دور تک نظر نہیں آتا۔ اسے کہیں پینے کا پانی بھی نہیں ملتا۔ کافی دیر تک پانی کی تلاش میں بھٹکنے کے بعد اس تھکے ہارے نوجوان کو ایک چرواہا ملتا ہے۔ یہ پچپن سالہ چرواہا اسے پانی دیتا ہے اور رات گزارنے کے لیے اپنی جھونپڑی میں لے جاتا ہے۔

اگلی صبح جب چرواہا اپنی بھیڑوں کے ساتھ وادی میں جاتا ہے تو نوجوان بھی اس کے ساتھ ہو لیتا ہے۔ نوجوان دیکھتا ہے کہ چرواہا اپنے ساتھ لائے ہوئے لوہے کی سلاخ کی مدد سے زمین میں سوراخ کرتا ہے اور ان کے اندر بلوط کے بیج لگاتا ہے، اس دن وہ سو بیج بوتا ہے۔

بات چیت میں معلوم ہوا کہ چرواہے کی بیوی اور اکلوتا بیٹا فوت ہو چکے ہیں اور وہ تین سال سے اس وادی میں اکیلا رہ رہا ہے۔ اس وقت تک وہ ایک لاکھ بیج لگا چکا تھا جن میں سے بیس ہزار اگ چکے تھے۔ اسے امید تھی کہ ان میں سے آدھے بچ جائیں گے۔

اگلے دن نوجوان واپس چلا جاتا ہے۔ چند دنوں کے بعد پہلی جنگ عظیم شروع ہو جاتی ہے اور نوجوان کو اگلے پانچ سال تک ایک سپاہی کی طرح اس میں حصہ لینا ہوتا ہے۔ پانچ سال کے غیر انسانی تشدد اور وحشت کے بعد زندگی سے محروم نوجوان، اسی چرواہے کو یاد کرتا ہے اور اسی بنجر وادی کے سفر پر نکل پڑتا ہے۔

اسے یقین ہے کہ چرواہا تب تک مر چکا ہو گا کیونکہ بیس سال کی عمر میں آپ پچاس سال کے آدمی کو ایک بوڑھا آدمی سمجھتے ہیں جس کے پاس موت کے انتظار کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن چرواہا نہ صرف زندہ ہوتا ہے بلکہ اس کی صحت بھی پہلے سے بہتر ہوتی ہے۔ اس نے بھیڑیں چھوڑ دیں اور شہد کی مکھیاں پالنا شروع کر دیں، کیونکہ بھیڑیں اس کے لگائے ہوئے بیجوں سے اگنے والے پودوں اور ٹہنیوں کو کھاتی تھیں۔ نوجوان نے دیکھا کہ چرواہے کے درخت وادی تک پھیل گئے ہیں اور اس کے کندھوں تک اونچے ہو گئے ہیں۔

نوجوان حیران ہوتا ہے کہ گاؤں میں پانی کا وہ دھارا بھی دوبارہ زندہ ہو گیا جس کے بہنے کی یاد بھی کسی کو نہیں تھی۔ نوجوان سمجھ گیا کہ چرواہے نے یہ کام بالکل تن تنہا کیا ہے اور ایک بنجر جگہ کو ایسی جنت میں بدل دیا ہے، جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ اسے وہ صبح یاد آتی ہے جب اس نے چرواہے کو زمین میں بیج بوتے دیکھا تھا۔ نوجوان کو احساس ہوتا ہے کہ ایک ہی آدمی اور اس کے دو ہاتھوں کی وجہ سے پورا نیا جنگل وجود میں آیا ہے۔ کہانی سنانے والا نوجوان بتاتا ہے کہ دنیا میں اپنے آپ کو خدا سمجھنے والا، اس کے اندر تباہی پھیلانے والا آدمی اگر چاہے تو سنگلاخ زمین کو بھی سرسبز و شاداب کر سکتا ہے۔

سالوں بعد ، جب ہزاروں لوگ اس علاقے میں آ کر آباد ہو گئے، تو کوئی بھی چرواہے کے بارے میں نہیں جانتا تھا اور نہ ہی اس کی کہانی کے بارے میں کوئی جانتا تھا۔

ایلزار بوفی کی یہ کہانی مشہور فرانسیسی مصنف جین جیانو نے اپنی مختصر کتاب ’دی مین ہو پلانٹ ٹریز‘ میں بیان کی ہے۔ بیسویں صدی کے یورپی ادب کے ستونوں میں شمار ہونے والی جین جیانو کی اس کتاب کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا اور اس کی لاکھوں کاپیاں مفت تقسیم کی گئیں۔

جین جیونو کا خیال تھا کہ لوگوں نے اپنے گھروں کی دیواروں کے اندر اتنی اذیتیں برداشت کیں کہ وہ آزاد ہونا بھول گئے۔ انسان کو اپارٹمنٹس، سب وے ٹرینوں اور اونچی عمارتوں میں رہنے کے لیے نہیں بنایا گیا کیونکہ گھاس اور پانی اب بھی اس کی یادوں کا حصہ بنا ہوا ہے۔

جس نوجوان نے ’دی مین ہو پلانٹ ٹریز‘ بیان کیا وہ خود جین جیونو تھا اور کتاب کی اشاعت کے بعد کئی سالوں تک لوگوں نے ایلزر بوفی کی کہانی کو سچ سمجھا۔

جیونو کا خیال تھا کہ جینے کے حق کے بدلے انسان کا فرض ہے کہ وہ امید کو اپنا پیشہ بنائے، امید کا دامن کبھی بھی ٹوٹنے نہ دے۔

’دی مین ہو پلانٹ ٹریز‘ ایک استعارہ ہے جو کہتا ہے کہ اگر ہم دیکھنے کے لیے آنکھوں اور سننے کے لیے کانوں کا صحیح استعمال کر لیں تو یہ زمین ہمارے اندر کے فنکار، شاعر، انسان، کہانی کار اور کسان کو جگائے گی۔ ایلزار بوفی کی کہانی تخلیق اور امید کی کہانی ہے۔ یہ ہم سب کی کہانی بھی ہو سکتی ہے۔

 

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 170 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments