بوسنیا کی چشم دید کہانی (6)۔


تعمیر نو کے کام کا یہ معمول تھا کہ ہر صبح تقریباً نو بجے کے قریب سٹولک کے پچاس مہاجرین مسلمانوں کو جو اب مشرقی موسطار میں پناہ گزیں تھے ایک بس کے زریعے سٹولک لایا جاتا۔ یو۔ این۔ ایچ۔ سی۔ آر کی طرف سے انہیں ضروری اوزار، اینٹیں، سیمنٹ، بجری اور کھڑکیوں میں شیشوں کی جگہ لگانے کو پلاسٹک کی شیٹیں دی جاتیں۔ تعمیر نو کا کام یہ لوگ از خود مل جل کر کرتے اور بعد دوپہر تک کام جاری رکھنے کے بعد چار بجے کے لگ بھگ مشرقی موسطار واپس لوٹ جاتے۔

اس دوران ہماری ذمہ داری اس قافلے کے ہمارے علاقہ اختیار میں داخل ہونے پر سٹولک تک بخیریت پہنچانا اور واپسی پر اختتام حدود سٹولک تک بحفاظت لے جانا ہوتا تھا۔ درمیانی وقت میں یا تو قافلے کے امیر اور دوسرے مسلمانوں سے گپ شپ ہوتی تھی یا پھر ہم قصبے کے وسط میں واقع کیفے اوڈین کے بر لب سڑک چھوٹے سے سبزہ زار میں گھنے درختوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر کافی پیتے اور سٹولک کی بچی کھچی رونق کا نظارہ کرتے۔

ہفتہ اور اتوار کے دن یہ قافلہ نہیں آتا تھا لہٰذا یہ دو دن ہم فارغ ہوتے تھے لیکن میجیگوریا سے سٹولک گشت کے لیے پھر بھی آنا پڑتا تھا۔ ان دو دنوں میں ہم صبح صبح کیفے اوڈین کی ایک میز پر قبضہ جما لیتے۔ اختتام ہفتہ کی وجہ سے ان دنوں میں کیفے باروں میں حاضرین کی تعداد کافی بہتر ہوتی تھی۔ ہماری یوں صبح ہی صبح آمد اور لمبی براجمانی اوڈین کیفے کے بیروں کو اسی طرح ناگوار گزرتی تھی جس طرح محرر کو کسی تھانے میں چوری کا پرچہ درج کرانے والے کی آمد۔

زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ اس موقع پر اوڈین کیفے کے بیرے اپنی ناگواری کو پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے لبادے میں میں چھپانے کا تکلف بھی نہیں کرتے تھے۔ ادھر ہمارے پاس گاڑی اور کیفے بار کے علاوہ کوئی تیسری جگہ بھی نہیں تھی جہاں بیٹھ کر یہ غریب الوطن کچھ وقت گزار لیتے۔ لہٰذا ہم بھی اس اشارت اور ادا کو بلائے جاں بنانے کی بجائے کچھ ایسی بے نیازی اپناتے کہ جس کی پولیس افسر ہونے کے ناتے ہمیں کسی مشق کی بھی چنداں ضرورت نہ تھی۔

کیفے اوڈین کے سامنے سے جو سڑک گزرتی تھی وہ ہمارے ضلع کے صدر مقام ترے بینیا جاتی تھی۔ ضلع کے انتظامی ڈھانچے کے بارے میں ہمیں کچھ زیادہ معلومات نہ تھیں۔ بس اتنا پتہ تھا کہ ہر ضلع میں ایک ڈسٹرک کمانڈر ہوتا ہے جس کی پہچان یہ ہے کہ اس کے استعمال میں ایک لینڈ کروزر گاڑی ہوتی ہے۔ پولیس کے دیسی نظام میں چونکہ سربراہ ضلع ایک بڑا عہدہ شمار ہوتا ہے لہٰذا میں اور اقبال شروع دن سے اس بارے میں بڑے متجسس تھے کہ ضلع افسر سے تعارف کا شرف ضرور حاصل ہونا چاہیے۔ چونکہ ڈسٹرکٹ کمانڈر کا تعلق بھی ڈنمارک سے تھا لہٰذا ہم نے اپنی اس خواہش کا اظہار ٹامس سے کیا۔ اس کے نزدیک یہ کوئی ایسی اہم بات نہ تھی۔ ( بعد کے تجربات سے پتہ چلا کہ کہ یہ سراسر ”دیسی سوچ“ تھی۔ یو این کے ضلع افسر کو کہیں بھی ملا جا سکتا تھا یہاں تک کہ

راہ میں ہم ملیں گے کیوں، بزم میں وہ بلائیں کیا۔

والا تکلف بھی نہیں تھا

اب ہوتا یوں تھا کہ ہم کیفے اوڈین میں بیٹھے ہوئے جونہی یو این کی لینڈ کروزر گاڑی کو کسی سمت سے آتا دیکھتے تو یہ سمجھتے کہ ہو نہ ہو اس میں ڈسٹرکٹ کمانڈر ہی سوار ہیں۔ چنانچہ ہم جلدی جلدی اپنی وردی درست کرتے ہوئے سڑک پر آ جاتے۔ ہمیں دیکھ کر گاڑی اکثر رک جاتی۔ گاڑی میں موجود افسر ہمیں بڑے رکھ رکھاؤ سے ملتے۔ ہم اپنی ماتحتانہ روایت کو نبھاتے ہوئے تپاک کے مزید مظاہرے کے طور پر انہیں کافی کی پیشکش کرتے۔ یہ پیشکش قبول کر لی جاتی۔

کافی پینے کے دوران ہم کئی ایسے تکنیکی سوالات کرتے جن کا مقصد یہ جانکاری ہوتی کہ آیا مہمان ہی ہمارا ضلع افسر ہے۔ اب نہ معلوم یہ ہمارے سوالات کے فنی پہلوؤں کا نقص تھا یا اس انگریزی کا جو بہ امر مجبوری ہمیں بولنی پڑتی تھی کہ مہمان کے مرتبے کا سراغ کبھی بھی نہ پایا جا سکا۔ ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد ہم ہر مرتبہ سٹیشن پہنچ کر ٹامس کے سامنے مہمان کا حلیہ بیان کرتے اور بڑی بیتابی سے پوچھتے کہ کیا یہی موصوف ہمارے افسر ضلع ہیں۔

ہر دفعہ جواب نفی میں ملتا۔ یہ سلسلہ کوئی ایک ڈیڑھ ماہ تک چلتا رہا۔ پھر ایک دن پتہ چلا کہ ہمارے ضلع افسر اپنی میعاد مشن پوری ہونے پر گزشتہ شام ڈنمارک روانہ ہو گئے ہیں۔ ہمیں اس اطلاع پہ بڑا افسوس ہوا کہ پیسے کا زیاں بھی ہوا اور مہذب پن کی اداکاری بھی خوب خوب کی لیکن پھر بھی حضرت کے دیدار سے محروم ہی رہے۔ اس خبر سے یہ تسلی بہر حال ہو گئی کہ اگلے ضلع افسر کی تعیناتی تک لینڈ کروزر کی آمد و رفت ہماری کیفے اوڈین کی نذر فرصت میں مخل نہیں ہو گی۔

جنگ کے خاتمے پر بوسنیا ہرزیگووینیا میں مختلف علاقوں سے انتقال آبادی کے بعد جو صورتحال سامنے آئی تھی اس کے مطابق تزلہ تا موسطار مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ ہرزے گووینیا میں مجموعی طور پر کروایٹوں کی اور اس سے آگے بچے کھچے یوگوسلاویہ کی سرحد تک جمہوریہ سربسکا تھی جہاں صرف سرب رہتے تھے۔ ڈیٹن سمجھوتے میں عقیدے یا نسل کی بنیاد پر بوسنیا میں کسی ریاست کے قیام کے نظریے کی نفی کرتے ہوئے ان تمام علاقوں کو ایک ملک کی حیثیت میں وفاق کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔

وہ سرحد جو جنگ بندی کے بعد نسلی تقسیم کو ظاہر کرتے ہوئے وجود میں آئی تھی اسے بین الاقوامی سرحد کی بجائے Inter Ethnic Boundry Line ( IEBL) ) کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ اس سمجھوتے میں اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ اس نسلی حدبندی کے دونوں اطراف شہریوں کو بلا امتیاز نسل نقل و حرکت کی مکمل آزادی ہوگی۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا یہی وہ ضمانت تھی جس پہ عمل در آمد بین الاقوامی پولیس کی بنیادی ذمہ داری تھی۔

ڈیٹن سمجھوتے کی کامیابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ لوگ تھے جن کے مفادات کو اس جنگ نے تحفظ فراہم کیا تھا۔ آزادی نقل و حرکت کو یقینی بنانے میں بنیادی کردار بلدیاتی اداروں اور پولیس نے ادا کرنا تھا۔ ان اداروں کی سربراہی اب ان لوگوں کے پاس تھی جنہوں نے دوران جنگ اپنے فرض کی بجائے اپنی نسلی وابستگی کی پاسداری کو ترجیح دی تھی اور اسی ”خدمت“ کی وجہ سے آج یہ عہدے حاصل کیے بیٹھے تھے۔ لہٰذا ہماری رسمی ملاقاتوں میں وہ آزادی نقل و حرکت کی یقین دہانیاں تو کراتے تھے لیکن عملی طور پر اس راہ میں ہر طرح کی رکاوٹ پیدا کرنا ان کا شعار تھا۔ بلدیہ کی ذمہ داری ان علاقوں کو قابل رہائش بنانا تھا جہاں سے اقلیت نے ہجرت کی تھی تا کہ ان کی دوبارہ آبادکاری ممکن ہو سکے۔ پولیس کا کام ان لوٹنے والوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا لیکن ان دونوں اداروں کی عملی کوششیں مکمل طور پر اس کے برعکس تھیں۔

کبھی اقتدار بخشے جو خدا قتیل تجھ کو
جو روش ہے قاتلوں کی وہ نہ اختیار کرنا

متحدہ یوگوسلاویہ میں بین المذاہب شادیاں بغیر کسی فریق کی تبدیلی مذہب کے عام تھیں۔ بوسنیا میں یہ 25 تا 30 فی صد تک رہی تھیں۔ اب جنگ کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی اس کے نتیجے میں سب سی زیادہ یہی جوڑے اور خاندان متاثر ہوئے۔ معاشرتی دباؤ کی وجہ سے سوائے چند خاندانوں کے اکثریت کو اپنی مذہبی اور نسلی وفاداری کے ثبوت کے طور پر اپنی خانگی زندگی کی قربانی دینی پڑی۔ یہ بچھڑے ہوئے جوڑے بعض صورتوں میں ایک دوسرے سے 25 / 30 کوس دور رہتے ہوئے بھی پچھلے چار، پانچ سال کے عرصہ میں ایک دوسرے سے کسی طرح کا رابطہ نہ کر سکے تھے۔

اب ہر ہفتہ اور اتوار کے دن IEBL پر مختص مقامات پران خاندانوں کی ملاقات ہوا کرتی تھی۔ بوسنیا کے موجودہ نقشے کے مطابق جنوب میں سٹولک اس کا آخری قصبہ تھا۔ اس سے کوئی تین کوس باہر آئی۔ ای۔ بی۔ ایل واقع تھی جس کے اس پار جمہوریہ سربسکا کا علاقہ تھا۔ ہفتہ اور اتوار کے دن جب میں اس نسلی حد بندی کی طرف گشت کرنے آتا تو دریائے بریگوا کے کنارے کھلے آسمان کے نیچے کئی خاندانوں کو زمین پہ ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے دیکھ کر انسانیت کی اس بے سرو سامانی پہ دل درد سے بھر جاتا۔ اس طرح کی ملاقاتیں بھی چونکہ انتہا پسندوں کے نزدیک اپنے گروہ سے وفاداری کو مشکوک بنانے کا باعث بنتی تھیں لہذا کئی خاندان ان سے اجتناب کرتے تھے اور قسام ازل کے فیصلے پر صابر تھے۔ ان کے تجربے کی تلخی ایسی تھی کہ اپنے آپ کو کسی اور امتحان میں ڈالنے کا حوصلہ نہ تھا۔

ہماری ترجمان سلاجہ کی بہن تانیا سرب تھی جس کی شادی موسطار کے ایک مسلمان سے ہوئی تھی۔ دونوں کی رفاقت بارہ سال کے عرصہ پر محیط رہی تھی۔ شادی کے دس سال بعد بیٹا پیدا ہوا۔ جب یہ خاندان بکھرا تو اولیا کی عمر دو سال تھی۔ اب وہ پانچ سال کا ہو چکا تھا اور لوبینیا میں ماں کے ہمراہ اپنے نانا نانی کے گھر میں رہتا تھا۔ اس کا باپ بھی ان لوگوں میں سے ایک تھا جن کے قدموں نے نسلی حد بندی تک آنے کا حوصلہ تا حال نہ پایا تھا۔

سلاجہ جب بھی میرے ساتھ ڈیوٹی پر ہوتی تو میں اس سے اس بارے میں اس امید کے ساتھ پوچھتا کہ شاید اس دوران اس کی بہن اور بھائی کی ملاقات کی کوئی صورت بن چکی ہو۔ ہر بار اس کا جواب نفی میں ہوتا۔ اس سے آگے اس سے مزید بات کرنے کا مجھے حوصلہ نہ ہوتا۔ لیکن میں یہ ضرور سوچتا کہ نامعلوم اولیا نے کیوں نہ اس پیغام کے ساتھ اس دنیا میں آنکھ کھولی کہ خدا ابھی انسانیت سے مایوس نہیں ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments