مال مفت دل بے رحم | مملکت خداداد پاکستان


 

موضوع سخن نیا نہیں ہے اب تک شاید سینکڑوں دفعہ اس موضوع پر بات ہوئی ہے اور ہو بھی رہی ہے مگر کیا کیجیے کہ محبان وطن ہوئے کچھ ایسے سخت گیر کہ ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

راقم بھی اس مملکت خداداد کا شہری ہے اور محب وطن بھی لہذاٰ وطن میں پھیلتی ہوئی آگ کی لپٹوں میں اس کا دل بھی سلگ اٹھتا ہے۔

مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق ایک بار پھر وہی بات کریں گے کہ شاید کہ تیرے دل (بھیجے ) میں اتر جائے میری بات!

آئین اور قانون حد اور حدود کا تعین انسانوں کو انسانوں کی طرح پیش آنے کے لیے بنایا جاتا ہے نہ کہ اشرف المخلوقات ہوتے بھی گنوار بنے رہنے کے لیے۔ اور اس سب کا اطلاق کسی فرد واحد یا طبقے پر نہیں بلکہ پوری قوم پر ہوتا ہے۔ دو قومی نظریے کے تحت بنائے جانے والے ملک میں دو عوامی معیار یا دہرا معیار ایک وبا بن چکا ہے جس کا ختم ہونا اب ناگزیر ہے۔

دور جدید میں گلی محلے گاؤں گوٹھوں تک موبائل اور انٹرنیٹ کی رسائی ہے اور ایسے میں اب کسی بھی ذی روح کا کسی بھی امر سے لا علم رہنا ممکن نہیں رہا۔ اصول و ضوابط ہر عام و خاص کے لیے ایک سے بنائے جاتے ہیں پر مگر بات پھر وہی کہ ان پر عمل میں دہرا معیار اپنایا جاتا ہے۔

حالیہ بارشوں میڈیا ہر صرف صوبہ سندھ کا ذکر خیر رہا جبکہ کیا واہ کینٹ کیا اسلام آباد کیا لوئر دیر تو کیا شہر حقیقی اقتدار راولپنڈی میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے جبکہ بارش ایک قدرتی امر ہے جس پر کسی کا زور نہیں چل سکتا مگر شومئی قسمت کہ یہاں بھی بغض اور عناد کی انتہا اتنی کہ ایک طرف نو سال سے دور عمرانی کے تحت چلنے والے صوبے کے ہسپتالوں میں بھرے پانی کو بھی صوبہ سندھ کا ہسپتال بتایا جاتا ہے تو دوسری طرف ہنگامی صورتحال میں صوبہ سندھ کی تمام تر کابینہ نکاسی آب اور عوام کی پرساں حالی کو نکل کھڑی ہوتی ہے مگر اس کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔

ایم کیو ایم کے ذمہ داران اپنے کارکنان کو عوام کی مدد سے روکنے کی ہدایات دیتے پائے جاتے ہیں تو دوسری جانب صوبے کی سب سے بڑی مخالف جماعت کے صوبائی و قومی ایوان کے نمائندگان سرے سے لاپتا رہتے ہیں مگر مورد الزام پیپلز پارٹی کو ٹھہرایا جاتا ہے جبکہ وہی پیپلز پارٹی میدان عمل میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔

جماعت اسلامی سابق وزیر اعظم عمران خان کے کراچی سمیت صوبے بھر کے لیے علانیہ رقومات کو لے کر اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہے کہ اعلان تو کیا تھا مگر پیسے ہیں کہاں؟ جبکہ سچ یہ ہے کہ جماعت اسلامی صرف اور صرف قربانی کی کھالیں جمع کرنے میں مصروف رہی ہے پر کیا کریں کہ سیاست بھی تو چمکانی ہے۔

منتظم کراچی رات بھر سڑکوں پر موجود رہتے ہیں تو بھی عوام کہتی ہے کہ یہ مسئلے کا حل نہیں ہے حل یہ تھا کہ ایسی صورتحال ہی پیدا نہ ہوتی۔ جی بالکل یہ بات بجا ہے مگر ہم چونکہ ترقی پذیر اور پسماندہ ذہنیت کے لوگ ہیں اس لیے گلی میں فرش ڈالنے کے بعد ہمیں خیال آتا ہے کہ لو جی پانی کی لائن تو ڈالی نہیں اور یوں نئی تعمیر شدہ گلی کا بیڑہ غرق کر دیا جاتا ہے ٹھیک اسی طرح ہم گاؤں پہلے بسا لیتے ہیں اور بعد میں ڈیویلپمنٹ کے معاملات پر سینہ کوبی کرتے ہیں جبکہ دنیا بھر میں پہلے ٹاؤن پلاننگ ہوتی ہے اور بعد میں آبادی پر یہ سب سمجھنے کے لیے حقیقی شعور درکار ہے۔

شہر میں ڈیفنس اور کنٹونمنٹ بھی آتے ہیں جبکہ زیادہ تر علاقے انہی کے زیر انتظام آتے ہیں مگر بے سود!

سوال ہوتا ہے تو صرف پیپلز پارٹی سے جبکہ کراچی سمیت صوبے بھر میں سہولیات اور فوائد اٹھانے والوں میں دیگر صوبوں کے مکینوں کی گنتی بھی کچھ تھوڑی نہیں ہے۔ ہم اہالیان پاکستان آپ سے کچھ زیادہ نہیں بس ملک بھر کے لیے ایک نظام ایک ہی معیار چاہتے ہیں کہ جو اعلیٰ قوموں کا خاصہ ہوا کرتا ہے۔

آپ اگر اس قدر غلامی و انا پرست رہے تو معذرت کے ساتھ آپ بھی غلاموں کے ہی سردار کہلائیں گے نا کہ شاہوں کے۔

زندہ قوموں کی پہچان ان کے اوصاف سے ہی ہوتی ہے نہ کہ دوہرے معیار سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments