جیل والی لڑکی
شاید آپ لوگوں نے میری لکھی کہانی ’’ٹرین والی لڑکی’’ پڑھی ہو۔ اگر نہیں تو پہلے وہ پڑھ لیں تاکہ کہانی کا تسلسل قائم رہے۔ یہ اسی کہانی کا سیکوئیل ہے۔ ٹرین والی لڑکی نگہت کی کہانی تھی۔ ایک موڑ پر یہ اپنے کلائیمکس پر پہنچی اور لگا کہ کہانی ختم ہو گئی۔ لیکن وہ اس کا دی اینڈ نہیں تھا ۔پکچر باقی ہے اور یہ اس کا دوسرا سیزن ہے۔
ہوا یہ کہ نگہت کو تین سال تین مہینے جیل کی سزا ہو گئی۔ میں عدالت میں موجود تھی ۔فیصلہ امید سے کہیں زیادہ نرم تھا۔ حالانکہ میں اس سے کچھ کچھ خفا تھی پھر بھی اطمینان ہوا کہ وہ قاتلانہ حملے کئ الزام سے بری ہوگئی۔ سزا بھی لمبی نہیں۔ جلد رہا ہو جائے گی۔
کچھ عرصہ مجھے اس کا خیال آتا رہا پھر غم دوراں میں تقریبا بھول ہی گئی تھی کہ ایک دن اچانک اس کا فون آ گیا۔
’’باجی میں نگہت بول رہی ہوں۔’’ میں کچھ لمحے سوچ میں پڑ گئی۔
’’ہاں نگہت کیسی ہو؟ کہاں ہو؟’’
’’جیل میں ہوں اور ٹھیک ہی ہوں۔ آپ مجھ سے ناراض ہیں نا؟ میں بہت شرمندہ ہوں’’ اس کی آواز بھرا گئی۔
’’میں وہ سب اب بھول چکی ہوں۔’’
’’آپ مجھ سے ملنے آ سکتی ہیں؟’’
’’نہیں۔ یہ ممکن نہیں’’
’’پلیز ایک بار آجایں۔ مجھے آپ سے بہت سی باتیں کرنی ہیں۔ آپ ہی تو ہیں جن سے میں دل کی باتیں کر سکتی ہوں’’
میرا دل پگھلنے لگا لیکن میں جذباتی نہیں ہونا چاہتی تھی۔
’’سنو نگہت اب میں تمہارے معاملے میں نہیں پڑنا چاہتی۔ مجھے دور رکھو’’وہ کچھ دیر چپ رہی پھر بولی۔
’’ ایک بار میری پوری بات سن لیں۔ حقیقت کیا ہے آپ نہیں جاننا چاہتیں؟’’
تھوڑی دیر پہلے جو میں صاف انکار کر رہی تھی اب کچھ کچھ دلچسپی لینے لگی۔ میں جانتی تھی کہ مجھے اس معاملے سے خود کو دور رکھنا چاہیئے لیکن برا ہو اس تجسس کا۔
’’اچھا سوچوں گی’’ میں نے بات ٹالی۔دماغ باربار کہہ رہا تھا کہ نہیں۔۔۔ دل مچل رہا تھا کہ چلو چلتے ہیں۔
’’ باجی۔۔۔ پلیز آپ وعدہ کریں۔ آپ آیں گی نا؟’’
’’ اوکے۔ آجاوں گی کسی دن۔’’
’’میرے لیئے گھر کا بنا کھانا ضرور لایں۔ یہاں ترس گئی ہوں’’
اور میرے اندر کی مامتا بیدار سی ہونے لگی۔میں نے جیل حکام سے وقت طے کیا اور ایک سہ پہر میں نگہت سے ملنے ملاقات کے کمرے میں بیٹھی تھی۔ وہ آئی تو بہت بدلی بدلی سی لگی۔ اسے میں نے ہمیشہ پاکستانی لباس میں دیکھا تھا۔ اب وہ ٹریک سوٹ میں تھی ۔
مجھے دیکھتے ہی وہ میرے گلے لگ گئی۔’’ آپ آ گئیں۔ مجھے یقین نہیں آ رہا’’
ہم دونوں آمنے سامنے کرسیوں پر بیٹھ گئے بیچ میں ایک میز تھی۔ دروازے پر ایک گارڈ کھڑا تھا۔
’’کیسی ہو؟’’
وہ دونوں ہاتھ منہ پر رکھ کر رونے لگی۔ ’’میں بہت شرمندہ ہوں۔ مجھے معاف کردیں’’ اس بار اس کے آنسو اصلی لگے۔
’’چھوڑو ان باتوں کو۔ میں نے تو تمہیں اسی وقت معاف کر دیا تھا۔ سناو کیسا وقت گذر رہا ہے؟’’
’’بس گذر رہا ہے۔ میں یہاں پڑھائی کر رہی ہوں۔ زبان بھی سیکھ رہی ہوں۔ یہاں جم بھی ہے، میں روز ورزش کرتی ہوں۔ لائیبریری بھی ہے اردو کی کتابیں مل جاتی ہیں۔ میری کچھ سہلیاں بھی بن گئی ہیں۔’’ وہ جوش سے بولی۔
’’میں نے فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی وہ رد ہوگئی۔’’
’’چلو کوئی بات نہیں۔ یہ وقت بھی گذر ہی جائے گا۔’’
’’ جی۔۔گذر ہی جائے گا۔’’وہ اداس ہو گئی۔
’’یہ دیکھو میں تمہارے لیئے بریانی بنا کر لائی ہوں اور پکوڑے بھی۔’’
’’ ہائے سچی؟ْ بریانی تو میں رات کو کھاوں گی۔ یہاں کچن ہے گرم کر لوں گی۔’’ وہ پکوڑے چٹنی سے لگا لگا کر چٹخارے لے رہی تھی۔
فضل نے تمہیں طلاق دی؟’’
’’نہیں۔ وہ مجھے طلاق نہیں دے گا۔ مجھ سے محبت کرتا ہے۔’’اس کی آنکھوں میں چمک اتر آئی۔
’’کبھی ملنے آیا؟’’
’’ نہیں ۔’’
’’ندیم آیا؟’’
’’وہ بھی نہیں آ یا۔ کوئی نہیں آیا۔ ایک آپ ہی ہیں باجی’’ وہ پھر اداس ہو گئی۔
لیکن مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ تم نے وہ چوٹوں والا ڈرامہ کیوں کیاـ ؟ کیا ضرورت تھی؟’’
’’ آپ سے دوستی کرنا چاہتی تھی۔ آپ اچھی لگیں ’’
’’یہ کہاں کی دوستی ہے؟ مجھے بے وقوف بنا کر؟’’
’’ آپ سے کہتی کہ میری دوست بن جایں تو کیا آپ بن جاتیں؟’’
’’کیوں نہیں۔’’
’’نہیں آپ کبھی میری دوست نہیں بنتیں، مجھ میں اور آپ میں فرق ہے۔ ہم ایک جیسے تو نہیں ہیں نا؟ تو سوچا آپ کی ہمدردی ہی لے لوں’’
میں چپ ہو گئی۔ شاید وہ ٹھیک ہی کہہ رہی تھی۔ٹرین میں مظلوم لڑکی سے ہمدردی ہو سکتی ہے لیکن دوستی شاید نہ ہو سکے۔
’’تو فضل تم پر تشدد نہیں کرتا تھا؟’’
’’نہیں باجی وہ تو بہت چنگا بندا ہے’’۔مجھے لگا کوئی فلم میرے سامنے چل رہی ہے جس کا ہر سین دلچسپ ہے۔
سوچا تو یہ تھا کہ اس معاملے سے خود کو الگ رکھوں گی لیکن مجھے تجسس مارے دے رہا تھا۔
’’فضل تم سے محبت کرتا تھا تشدد بھی نہیں کرتا تھا پھر اسے دھکا کیوں دیا؟’’
’’میں نے دھکا نہیں دیا تھا۔’’وہ مدھم آواز میں بولی۔ پھر دیر تک چپ رہی۔
ملاقات کا وقت تمام ہوا میں نے اسے خداحافظ کہا ۔
واپس آتے اس کا یہ جملہ میرے دماغ میں گونجتا رہا’’میں نے دھکا نہیں دیا۔۔۔’’ کیا وہ پھر جھوٹ بول رہی ہے؟ ہاں شاید لیکن اب میں اس کی باتوں میں نہیں آوں گی نہ ہی اس سے ملوں گی۔
وقت کچھ اور گذر گیا۔ ایک دن پھر اس کا فون آیا۔
’’باجی فضل مر گیا۔۔ باجی وہ فوت ہو گیا’’ وہ زار وقطار رو رہی تھی۔
’’ کیسے ؟کب؟’’ میں بھی حیران تھی۔
’’ مجھے تو آج ہی پتہ چلا۔ انہوں نے اسے دفنا بھی دیا۔ آپ پلیز مجھ سے ملنے آیں۔ مجھے بہت ضروری باتیں کہنی ہیں’’وہ بلک رہی تھی۔
پتہ نہیں ہمدردی تھی یا تجسس دو دن بعد میں ایک بار پھر ملاقاتی کمرے میں بیٹھی تھی۔ نگہت میرے گلے لگ کے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ’’ ہائے باجی فضل مر گیا۔ ہائے میں بیوہ ہو گئی۔مجھے اس کا چہرہ بھی دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ پاکستان لے گئے وہاں دفن بھی کردیا’’ وہ بین ڈال رہی تھی۔کچھ کمزور لگی ۔ آنکھیں سوجی ہوئی تھیں
’’ یہ ہوا کیسے ؟ بیمار تھا کیا؟ تمہیں کیسے علم ہوا؟’’ ۔
’’ اسے بلڈ پریشر تھا۔ دل بھی کمزور تھا۔ میں اس کا پرہیزی کھانا بناتی تھی۔سنا ہے دوستوں کے ساتھ باہر کھانا کھانے گیا۔ وہیں دل کا دورہ پڑا۔ دوستوں نے ایمبولنس منگائی۔وہ راستے میں ہی فوت ہو گیا۔مجھے کچھ پتہ ہی نہیں لگا’’
وہ پھر رو پڑی۔
ہوا یہ کہ اسپتال میں ندیم فضل کے پاس تھا ۔اس نے ڈاکٹرز کو بتایا کہ فضل کی بیوی جیل میں ہے اور وہ فضل کا بیٹا اور وارث ہے۔
اسپتال والوں نے پولیس سے رابطہ کیا اور نگہت کو جیل میں یہ پیغام دے دیا گیا کہ اس کا شوہر اب دنیا میں نہیں ہے۔ فضل کے رشتے داروں اور ندیم نے پاکستان لے جاکر دفن بھی کردیا اور کسی نے بھی نگہت کی اجازت تو دور کی بات بتایا تک نہیں۔نگہت نے روتے روتے ساری بات بتائی۔
’’کل پہلی بار ندیم آیا تھا۔ ساتھ کچھ کاغذ لایا ہے کہ میں ساین کردوں۔’’
نگہت نے کاغذ میرے سامنے کیئے۔ یہ قانونی ڈاکومنٹ لگ رہی تھی۔ میں نے نظر دوڑائی تو میرا شک یقین میں بدل گیا۔ یہ پاور آف اٹارنی تھا۔ نگہت کی طرف سے تمام اختیارات ندیم کو سونپنے کا اجازت نامہ۔ میں چونکی۔
’’نگہت تم نے کوئی کاغذ ساین تو نہیں کیا نا؟’’
’’نہیں۔ سوچا پہلے آپ کو دکھا دوں’’
’’ تم وکیل کے مشورہ کے بغیر کچھ مت کرنا’’
وکیل بھی آگیا۔ وہ بھی کچھ کاغذات لایا تھا ۔ ’’ فضل حق نے اپنا سب کچھ آپ کے نام کیا ہے۔ وارثوں میں صرف آپ کا نام ہے’’۔نگہت حیرت کی تصویر بن گئی۔مجھے لگا کوئی تھرلر فلم دیکھ رہی ہوں
فضل نے اپنی یہ وصیت نگہت کے جیل جانے کے کچھ ہی دنوں بعد لکھوائی تھی اور یہ ایک قانونی دستاویز تھی جس پر گواہوں کے ساین بھی تھے۔ فضل کی وفات کے بعد ندیم نے فضل کی جائیداد کی منتقلی اور بنک میں رقم حاصل کرنے کے لیئے درخواست دی تو پتہ اسے پتہ چلا کہ سب کچھ نگہت کے نام ہے۔ اسے مجبورا نگہت سے رابطہ کرنا پڑا۔ وہ ملنے آیا اور ساتھ ہی کچھ کاغذات لایا اور ان پر ساین کرنے کو کہا۔ نگہت نے عقلمندی کی کچھ وقت لے لیا اور مجھے بھی فون کیا اور اپنے وکیل کو بھی بلا لیا۔
’’اس پر ہرگز ساین مت کیجیئے گا۔ اس کاغذ کو پھاڑ کر پھینک دیں’’ وکیل نے سختی سے کہا۔
آگے کی کہانی لمبی ہے۔ نگہت کی اپیل دائیر ہوئی کیس چند مہینے اور چلا اور پونے دو سال کی قید کے بعد وہ رہا ہو گئی۔ وکیل نے نگہت کے پرمانینٹ ویزا کی درخواست دی وہ بھی مل گیا۔ نگہت اب صاحب جائیداد تھی۔ فضل نے اس کے لیئے بہت کچھ چھوڑا تھا۔ندیم نے مشکلات کھڑی کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ فضل کی وصیت کو چیلنج بھی کیا لیکن نگہت کے حق کو مان لیا گیا۔ جس فلیٹ میں ندیم رہ رہا تھا وہ بھی فضل کے نام تھا اور اسی نے خرید کر دیا تھا ۔ نگہت نے وہ ندیم کے نام کر دیا۔ فضل کی دوگاڑیوں میں سے ایک ندیم کو دے دی اور کچھ نقد رقم بھی۔
جیل سے رہا ہونے والی خواتین کی آبادکاری اور بہبود کی ایک تنظیم کی مدد سے نگہت کو وقتی رہائیش مل گئی۔ وکیل کی مدد سے اس نے اپنا گھر اپنے نام منتقل کروایا۔ بنک کی رقم بھی اس کے نام ہوگئی۔اس گھر میں وہ رہنا نہیں چاہتی تھی جس میں اس نے فضل کے ساتھ کچھ عرصہ گذارا تھا۔ گھر بیچ کر اس نے اپنے لیئے ایک چھوٹا سا اپارٹمنٹ لے لیا۔ اس کی گذر بسر اچھی ہو رہی تھی۔زندگی کے اتنے اتار چڑھاو سے گذر کر وہ بہت سمجھ دار ہو گئی تھی۔
نگہت کے ساتھ ہمدردی ہی نہیں دوستی بھی ہو گئی۔ سارے معاملات ذرا سلجھے تو ایک دن ہماری تفصیل سے بات ہوئی۔ میں نے پوچھا وہ آگے کیا کرنا چاہتی ہے۔
’’میں پڑھنا چاہتی ہوں باجی۔مجھے تعلیم حاصل کرنی ہے۔’’
’’بڑی اچھی بات ہے۔ ’’ میں نے خوشی سے کہا۔
’’میں ڈرایئوینگ بھی سیکھ رہی ہوں۔ گاڑی چلاوں گی۔میں میٹرو ڈرائیور بننا چاہتی ہوں’’ ہم دونوں ہنس پڑے۔
میں نے مذاق میں اسے چھیڑا۔ ’’ تم نے فضل کو دھکا دیا پھر بھی دیکھو اس نے اپنا سب کچھ تمہارے نام کردیا۔وہ کچھ دیر سر جھکائے بیٹھی رہی پھر بڑے دکھ سے بولی۔
’’دھکا میں نے نہیں دیا تھا باجی۔ فضل جان گیا تھا لیکن ندیم کی محبت میں چپ رہا۔’’ اس فلم کا یہ آخری ڈایئلاگ سنسنی سے پھرپور تھا۔اور میں سوچ رہی تھی کہ کیا اس تھرلر کا سیزن تھری بھی ہوگا؟
https://www.humsub.com.pk/466399/nadera-mehrnawaz-105/
- شکست تخت پہلوی (1) - 18/04/2024
- شکست تخت پہلوی (ابتدائیہ) - 02/04/2024
- نوروز کیسے مناتے ہیں؟ - 19/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).