سندھی زبان کی اہمیت کا امریکی اعتراف


پاکستان شاید کئی معاملات میں بھارت کا مقلد ہے۔ مثال کے طور پر بھارت نابھکیہ وسپھوٹ (ایٹمی دھماکہ) کرتا ہے تو پاکستان بھی جواباً جوہری دھماکہ کر ڈالتا ہے۔ اور ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ دھماکہ گھاس کھانے کے نتیجے میں کیا گیا یا اس دھماکے کے نتیجے میں گھاس کھانی پڑ سکتی ہے؟

تاہم جب بات زبان و ثقافت کی آتی ہے تو بھارت کی بھاشائیں تو اوج پر دکھتی ہیں لیکن جہاں تک پاکستانی زبانوں کی بات ہے تو اس مسئلے پر نہ صرف پاکستانی عوام الجھے ہوئے نظر آتے ہیں بلکہ پاکستانی زبانوں کے گیسو بھی اردو سمیت کسی نہ کسی حد تک منت پذیر شانہ یا پھر عنقا ہیں۔ زبانوں فروغ کی بات کریں تو بھارت میں بیسیوں زبانیں ابلاغ، اسمبلیوں اور اسکولوں اور دفاتر میں کسی نہ کسی سطح پر مستعمل و مروج ہیں جب کہ اس کے برعکس پاکستان میں قومی زبان سمیت تمام تر پاکستانی زبانیں تیزی سے اپنے ہی لوگوں کے لیے اجنبی بنتی جا رہی ہیں یا بنائی جا رہی ہیں۔

بھارت کے کرنسی نوٹوں پر بیک وقت کئی زبانیں موجود ہیں جب کہ پاکستان نوٹوں پر سے مشرقی پاکستان کے سقوط کے ساتھ ہی نہ صرف بنگالی غائب کر دی گئی؛ بلکہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے دور میں صرف ایک روپے کے نوٹ پر لکھے ہوئے شاید تجرباتی طور پر صوبائی زبانوں کو الفاظ کو بھی جلد ہی حذف کر دیا گیا! پاکستان کے عوام اور پاکستان کی معیشت، دونوں ہی ”مضبوط“ ۔ بحق سرکار!

یہ امر ہمارے لیے ہمیشہ باعث حیرت اور افسوس ہی رہا ہے کہ عالمی نشریاتی اداروں میں اردو کے علاوہ ”پاکستانی زبانوں“ کی کوئی بھی نمائندگی نہیں۔ جب کہ بھارت کی کئی زبانوں میں بی بی سی اور وائس آف امریکہ سمیت کئی عالمی نشریاتی اداروں پر خدمات پیش کی جا رہی ہیں۔ جن میں گجراتی، مراٹھی، پنجابی، تامل وغیرہ شامل ہیں۔ اگرچہ پاکستانی زبانوں میں سے پشتو کی نمائندگی بھی ان پر موجود ہے تاہم اس کا سبب پاکستان نہ ہوتے ہوئے افغانستان ہے اور شاید لہجہ بھی افغانی؟ جب کہ پاکستانی زبانوں میں سے سندھی، بلوچی یا پنجابی میں سے کوئی بھی زبان ان نشریاتی اداروں پر موجود نہیں۔ لیکن اس سلسلے میں ہم کسی بھی بین الاقوامی نشریاتی ادارے کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اس کا ذمہ پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو قرار دے سکتے ہیں جن کے لیے پاکستانی زبانوں کی کوئی بھی وقعت یا اہمیت نہیں۔

جب پاکستان کی ہر قسم کی سرکاریں پاکستانی عوام اور ان کی زبانوں کو گھاس ڈالنے کے بجائے یہی گھاس کھا کر یا کھلا کر جوہری اور معاشی دھماکے کرتی پھریں گی تو اس کا نتیجہ ایسا ہی کچھ تو نکلے گا۔

اگرچہ زبانی کلامی اردو سمیت تمام پاکستانی زبانوں کی ترقی اور ترویج کے سلسلے میں بڑے دعوے اور بڑی باتیں کی جاتی رہی ہیں لیکن عمل طور پر صورتحال یہ ہے کہ پاکستانی زبانیں اپنے اپنے حقیقی مقام و مرتبہ سے محروم ہیں۔ جب کہ بروہی سمیت کئی پاکستانی زبانوں کی بارے میں خدشہ ہے کہ یہ معدوم ہو سکتی ہیں۔ اردو کے بعد سوائے سندھی کے اکثر پاکستانی زبانیں نہ اسکولوں میں ہیں نہ ہی اسمبلیوں میں اور نہ ذرائع ابلاغ میں ہی کوئی قابل ذکر کردار و اثر رکھتی ہیں! جب کہ سندھی زبان بھی وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی امداد یا اعانت پر نہیں بلکہ محض اپنے بل بوتے پر ہی قائم و دائم ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سمیت اکثر صوبائی وزراء سندھی زبان میں تکلم کا تکلف بھی نہیں برتتے یا اس کی ترویج اور تعمیم یا تنفیذ کے بارے میں ذرہ بھر بھی سنجیدگی کے روادار نہیں ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھی زبان کی وہ تیز رفتار ترقی جو انگریزوں کے دور میں شروع ہوئی تھی آزادی کے بعد وہ رفتار تھم سی گئی بلکہ ون یونٹ اور دیگر کئی اقدام کے ذریعے اس زبان کی ترقی و ترویج کو روکنے کی متعدد و مسلسل کوششیں بھی کی جاتی رہی ہیں جس کا ہی نتیجہ ہے کہ آج یہ زبان اس وقعت اور مرتبے سے بھی محروم ہے کہ جو کہ اسے انگریزوں کے دور میں حاصل تھا! مثال کے طور پر اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ انگریزوں کے دور میں سندھی صوبائی سطح پر دفتری زبان تھی اور موجودہ دور میں سندھ بھر میں کئی نجی تعلیمی ادارے سندھی زبان کی تعلیم و تدریس تک کے روادار نہیں۔

سرائیکی، پنجابی، پشتو اور بلوچی سمیت بیشتر پاکستانی زبانوں میں سے اکثر میں اخبارات عنقا ہیں، کتب کی اشاعت محدود یا معدوم ہے اور نشریاتی اداروں کو بھی وہ اہمیت حاصل نہیں جو کہ بھارتی زبانوں کو ملکی یا بین الاقوامی سطح پر حاصل ہے۔

تاہم اس صورتحال میں یہ ایک اچھی خبر ہے کہ وائس آف امریکہ اردو کے تحت ہی سہی وائس آف امریکہ کی طرف سے سندھی ویب پیج شروع کر دیا گیا ہے۔ اسے ہم ایک پاکستانی سندھی کے طور پر سندھی زبان کی اہمیت کا امریکی اعتراف سمجھتے ہیں اور اسے دیگر پاکستانی زبانوں کے لیے نیک شگون کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اور خیال کرتے ہیں کہ شاید اس اعتراف کے بعد ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی پاکستانی زبانوں کی وقعت اور اہمیت کا ادراک کر سکیں!

واضح رہے وکیپیڈیا کے مطابق وائس آف امریکہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کا سرکاری بین الاقوامی ریڈیو براڈکاسٹر ہے۔ یہ سب سے بڑا اور سب سے قدیم امریکی فنڈ سے چلنے والا بین الاقوامی براڈکاسٹر ہے جو کہ متعدد زبانوں میں ڈیجیٹل، ٹی وی، اور ریڈیو مواد تیار کرتا ہے، جن کی وہ دنیا بھر کے ملحقہ اسٹیشنوں سے نشر و اشاعت کرتا ہے۔ اسے بنیادی طور پر غیر امریکی سامعین دیکھتے ہیں۔

وائس آف امریکہ کے مطابق، وائس آف امریکہ نے 28 جون بروز منگل سے سندھی زبان کان ایک نیا صفحہ جاری کیا ہے۔ یہ ویب پیج فی الحال وائس آف امریکہ کی اردو براڈکاسٹنگ سروس کے ماتحت ہو گا۔ سندھی زبان زیادہ تر پاکستان کے جنوب اور مشرق کی خطوں میں بولی جاتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں سندھی بولنے والوں کی تعداد ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ ہے۔ نئی زبان کے ویب پیج کے مندرجات میں عالمی خبریں، حالات حاضرہ، سائنس، ٹیکنالوجی، خواتین کے امور و تعلیم سمیت امریکہ اور جنوبی ایشیا کے خطے اور اس کی آبادی کے درمیان دو طرفہ تعلقات کے امور شامل ہوں گے۔ وائس آف امریکہ کی قائم مقام ڈائریکٹر یولنڈا لوپیز کے وضاحت کے مطابق یہ نئی سروس سندھی بولنے والوں کو اہم خبریں و اطلاعات فراہم کرے گی جن کی انہیں ضرورت ہوگی۔ اور ساتھ ساتھ یہ اس خطہ میں امریکہ کی کہانی بیان کرے گی۔

یولنڈا لوپیز نے مزید کہا کہ میں اس بات کی منتظر ہوں کہ اس نئی زبان میں پروگرامنگ کے ذریعے وائس آف امریکہ کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک رسائی حاصل ہو سکے۔ واضح رہے کہ وائس آف امریکہ کی اردو سروس 1952 سے پاکستان کے لیے نشریات پیش کرتی رہی ہے اور اس کو ہر ہفتے تقریباً ساٹھ لاکھ لوگوں تک رسائی حاصل ہے۔ وائس آف امریکہ کی طرف سے عالمی خدمات کے حوالے سے ایک پریس ریلیز ‏ میں کہا گیا ہے کہ سندھی زبان کی اضافے کے بعد آئندہ پاکستان میں وائس آف امریکہ کے سامعین اور ناظرین کی تعداد میں مزید اضافے کی توقع ہے۔ پریس ریلیز کے مطابق سندھی زبان کے اضافے کے بعد اب وائس آف امریکہ 48 زبانوں میں نشریات پیش کر رہا ہے جن میں سے 9 زبانوں کا تعلق جنوبی اور وسطی ایشیا سے ہے۔

وائس آف امریکہ کے مطابق امریکی ایوان نمائندگان کے ارکان بریڈ شرمن اور کیرولین ملونی نے اس موقع پر کہا کہ وائس آف امریکہ کی طرف سے سندھی زبان کے پروگرام شروع کرنے کے ان کی برسوں کی کوششیں رنگ لائی ہیں اور ادارے نے سندھی زبان کی ویب پیج کا اعلان کیا ہے جو امر باعث خوشی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ قدم ان متعدد اقدامات میں سے ایک ہے جو کہ مکمل سندھی سروس کے حصول کے لیے اٹھائے جا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments