کیا عمران خان عوامی مزاحمت کی علامت بن چکے ہیں؟


اتوار کو پنجاب اسمبلی کے بیس حلقوں میں ضمنی انتخاب صرف یہی طے نہیں کریں گے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کا اگلا وزیر اعلیٰ کون ہو گا بلکہ اس سے قومی سیاست میں عسکری اداروں کی مداخلت کے اصول پر بھی صورت حال واضح ہو سکے گی۔ موجودہ حالات میں عمران خان کو ان کے حامی جمہوری جد و جہد میں اہم مزاحمتی علامت کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد عوام کو ان کے بنیادی حقوق کے بارے میں موثر طور سے آگاہ کیا ہے۔

اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو عمران خان کی تحریک اور موقف سے اختلاف کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ یہ دلیل کہ انہوں نے 2018 کے انتخابات میں اسٹبلشمنٹ کی سرپرستی اور معاونت سے اقتدار حاصل کیا تھا، ان کی موجودہ ’اینٹی اسٹبلشمنٹ‘ تحریک کے سامنے اسی طرح ماند پڑ سکتی ہے جیسے اس سے پہلے نواز شریف یا ذوالفقار علی بھٹو نے جب عوام دوست اور جمہور نواز پالیسیاں اختیار کرنے کا تہیہ کیا تو اس بات کو بھلا دیا گیا تھا کہ ان دونوں لیڈروں نے بھی اپنے سیاسی سفر کا آغاز فوجی آمروں کی سرپرستی میں ہی کیا تھا۔ تاہم عوامی عہدے پر فائز ہونے اور صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد جب انہوں نے عوامی حقوق پامال ہوتے دیکھے تو انہوں نے اسٹبلشمنٹ سے اپنا راستہ علیحدہ کر کے عوام دوست پالیسیوں پر عمل شروع کر دیا۔ اسی کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر کھینچ دیا گیا جبکہ نواز شریف کسی بھی عوامی عہدے سے نا اہل ہونے کے بعد اب جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

اس دلیل کی روشنی میں عمران خان اس وقت ملکی اسٹبلشمنٹ کو للکار رہے ہیں اور یہ واضح کر رہے ہیں کہ انہوں نے فوج کے عالمی استعماری ایجنڈے کی مزاحمت کی تھی جس کی وجہ سے انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد جب عمران خان نے عوامی رابطہ مہم شروع کی تو انہیں غیر معمولی عوامی پذیرائی نصیب ہوئی جس کی ملکی تاریخ میں خال خال ہی مثال تلاش کی جا سکتی ہے۔ اگر عمران خان واقعی جمہوری اقدار، پارلیمنٹ کی بالادستی اور سیاسی معاملات میں عسکری اداروں کی مداخلت کے خلاف جد و جہد کر رہے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ وہ عالمی سازش اور امریکہ دشمنی پر مشتمل بیانات کو اپنے سیاسی بیانیہ کی بنیاد بناتے ہیں؟ کیا یہ طریقہ فوجی قیادت کی استعماری ذہنیت اور ملکی مفادات پر عالمی طاقتوں کے بے جا تصرف کو کم کرنے اور ملکی خود مختاری کو ایک نئی جہت دینے کے لئے اختیار کیا گیا ہے؟ عمران خان کا ماضی ہی نہیں، ان کا موجودہ سیاسی بیانیہ اور طرز تکلم ان دعوؤں کی تائید نہیں کرتا۔

عمران خان کا سیاسی پیغام بہت سادہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسے عوام کے بڑے حلقے میں مقبولیت بھی حاصل ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت پاکستان کو ہر لحاظ سے کامیابی کی طرف لے جا رہی تھی لیکن پاکستان کی دشمن طاقتیں ملک کو کمزور رکھنا چاہتی ہیں تاکہ وہ خود مختاری سے فیصلے نہ کرسکے اور علاقائی اور عالمی منظر نامہ پر امریکی ایجنٹ کے طور پر خدمات سرانجام دے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسی لئے واشنگٹن میں ان کی حکومت گرانے کے لئے سازش تیار کی گئی اور پاکستان میں اپوزیشن لیڈروں کو رشوت اور اقتدار کا لالچ دے کر تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ تحریک انصاف کی حکومت سے نجات حاصل کی جا سکے جو پاکستان کو سربلند رکھنے کے مشن میں امریکہ کے عالمی ایجنڈے کو کمزور کر، نا چاہتی ہے۔ یہ قابل قبول عوامی بیانیہ ہے جسے پاکستانی عوام میں مقبول کروانے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو بھی ان کے حامیوں اور بعض صورتوں میں متوازن سیاسی رائے رکھنے والے عناصر کی تائید بھی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن کیا ان کا یہ سیاسی موقف حالات کی درست تصویر پیش کرتا ہے۔ کیا واقعی عمران خان کی حکومت نے امریکہ کی مزاحمت میں کوئی ایسا قومی منصوبہ یا عالمی سفارت کاری میں کوئی ایسا کارنامہ سرانجام دیا تھا کہ واشنگٹن کے لیڈروں کو عمران خان کی صورت میں پاکستان کا نجات دہندہ دکھائی دینے لگا جس کا راستہ روکنا بے حد ضروری ہو گیا تھا۔

عمران خان اپنے اس موقف کی دلیل میں ایک سفارتی مراسلہ کا حوالہ دیتے ہیں جو واشنگٹن میں پاکستانی سفیر نے ایک امریکی عہدیدار کے ساتھ ایک غیر ر، سمی ملاقات کے دوران ہونے والی گفتگو کے بعد وزارت خارجہ کو روانہ کیا تھا۔ سپریم کورٹ کا تازہ فیصلہ یہ طے کرچکا ہے کہ قومی سلامتی کے خلاف کسی ’سازش‘ کے حکومتی موقف کو اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جاسکتا جب تک اس کے لئے ٹھوس دلائل سامنے نہ لائے جائیں۔ عدالت عظمی نے اسی بنیاد پر سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ مسترد کرتے ہوئے اس کے نتیجے میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کالعدم قرار دینے اور بعد میں قومی اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کے صدارتی حکم کو بھی غیر آئینی قرار دیا ہے۔ یہ فیصلہ دیتے ہوئے عدالت نے دلیل دی ہے کہ حکومت کو 7 مارچ کو مراسلہ مل گیا تھا لیکن اس نے اس پر تحقیقات کرنے یا کوئی ٹھوس اقدام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ اس مراسلہ کو عدم اعتماد کی آئینی تحریک کو مسترد کرنے کے عذر کے طور پر استعمال کیا گیا جو بد نیتی پر مشتمل فیصلہ تھا۔ اسی طرح قومی سلامتی کمیٹی نے بھی اس مراسلہ کی بنیاد پر کسی سازش کی تصدیق نہیں کی۔ ان حالات میں غیر ملکی سازش کے موقف کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔

سپریم کورٹ کی قانونی دلیل سے قطع نظر اگر عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف حکومت کی پالیسیوں پر نگاہ ڈالی جائے تو وہ کسی بھی مرحلہ پر امریکہ مخالف یا خود مختاری کی طرف ایک نئے سفر کا نقطہ آغاز دکھائی نہیں دیتیں۔ عمران خان نے ملک کو ہرگز ایسی قیادت فراہم نہیں کی جس کی بنیاد پر پاکستان کو عالمی سفارتی منظر نامہ میں کوئی ایسا مقام حاصل ہوجاتا کہ امریکہ یا اس کے حامی دیگر ممالک کو پاکستان سے خطرہ لاحق ہوجاتا اور اسے پاکستانی حکومت کو سازش کے ذریعے ہٹانے کی ضرورت محسوس ہوتی۔ تحریک انصاف کی خارجہ پالیسی شاہ محمود قریشی جیسے اسٹبلشمنٹ دوست اور سامراج نواز سیاست دان کی سربراہی میں طے کی جا رہی تھی۔ اس پالیسی کو عسکری اداروں کے متعین رہنما اصولوں کے مطابق ہی چلایا جا رہا تھا۔

عمران خان کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا، وہ قومی سلامتی، خارجہ پالیسی حتی کہ معاشی معاملات میں فوجی مداخلت بلکہ رہنمائی و تعاون سے پوری طرح مطمئن تھے۔ فوجی قیادت سے ان کا اختلاف اس وقت پیدا ہوا جب انہوں نے محسوس کیا کہ فوجی لیڈر اب پہلے کی طرح اپوزیشن کو دبانے اور ان کی جائز جمہوری جد و جہد کو تباہ کرنے میں معاونت نہیں کرتے۔ اس کا عملی اظہار آئی ایس آئی کے ایک ایسے سربراہ کی تبدیلی کے فیصلہ سے ہوا جسے عمران خان اپنا ہمدرد سمجھتے تھے۔ تاہم اس دوری کے دیگر عوامل بھی رہے ہوں گے۔

عمران خان حکومت کی خارجہ پالیسی افغان طالبان کے ساتھ امریکی حکومت کے معاہدے میں معاونت اور پھر کابل پر قبضہ کے بعد اتحادی افواج کے انخلا میں واشنگٹن سے تعاون پر استوار تھی۔ جنوری 2020 میں عمران خان کا دورہ امریکہ اس حکمت عملی کا نقطہ عروج تھا جسے عمران خان نے اپنی حکومت کی شاندار کامیابی سے تعبیر کیا تھا۔ جو حکومت امریکہ کے ساتھ اس قدر قربت چاہتی رہی ہو، اس کے نمائندے اگر اب خود کو امریکہ کے خلاف مزاحمت کی علامت بنا کر پیش کریں تو اسے سیاسی بازی گری سے زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی۔ پاکستانی سیاست میں یہ رویہ عام طور سے موجود رہا ہے کہ جب کوئی حکومت عوامی ضرورتیں پوری کرنے اور ملکی معیشت کو درست کرنے میں ناکام رہتی ہے تو عذر کے طور پر ناقابل یقین دلائل فراہم کیے جاتے ہیں۔ امریکہ کے خلاف بیان بازی انہی رویوں میں سے ایک ہے۔ ورنہ امریکہ کو ہونے والی برآمدات پاکستانی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ امریکہ اگر کسی پاکستانی حکومت سے ’انتقام‘ لینا چاہے تو سازش کرنے کی بجائے وہ صرف پاکستانی درآمدات پر پابندی سے یہ مقصد باآسانی حاصل کر سکتا ہے۔ افغان جنگ کے بعد امریکہ کے لئے پاکستان غیر متعلقہ ہو چکا تھا۔ اسی لئے صدر بائیڈن نے پاکستانی وزیر اعظم سے براہ راست رابطہ ضروری نہیں سمجھا۔ یہ رویہ عمران خان کے ساتھ بھی اختیار کیا گیا تھا اور شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد بھی اس پالیسی میں تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔

عمران خان کو مزاحمت کی علامت بتاتے ہوئے فوج کے خلاف ان کے موقف کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ یا دلیل دی جاتی ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے موجودہ اتحادی حکومت کا راستہ ہموار کرنے کے لئے ’غیر جانبداری‘ کا ڈھونگ اختیار کیا اور ملک پر بدعنوان لیڈروں کی حکومت مسلط کردی گئی۔ عمران خان خود یا ان کے حامی اول تو یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ کن حالات میں اسٹبلشمنٹ کو عمران خان کے طرز حکمرانی سے اختلاف پیدا ہوئے۔ اگر یہ موقف رہنما اصول مان لیا جائے کہ عسکری اداروں کو امور مملکت میں مداخلت کا کوئی حق نہیں دیا جاسکتا، پھر عمران خان کو اس سوال کا جواب دینا پڑے گا کہ انہوں نے پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے اور ملکی انتظام کو زیادہ جمہوری بنانے کے لئے ٹھوس اقدام کیوں نہیں کیے۔ اپنے دور اقتدار میں وہ مسلسل پارلیمنٹ کو مسترد کرتے رہے اور اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد قومی اسمبلی سے استعفے دینے کے نام پر پارلیمنٹ کو بے توقیر کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔

عمران خان کو فوج سے یہ شکوہ نہیں ہے کہ وہ ملک کے جمہوری عمل میں حصہ کیوں لیتی ہے بلکہ ان کا گلہ تو یہ ہے کہ فوج نے آگے بڑھ کر ان کی مخالف سیاسی قوتوں کو میدان سے ہٹانے کا کام کیوں نہیں کیا۔ اب بھی عمران خان فوج کو سیاست سے علیحدہ کرنے کی بات نہیں کرتے بلکہ امر بالمعروف کے ڈھکوسلے پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کوئی ادارہ ’غیر جانبدار‘ نہیں رہ سکتا۔ حالانکہ جمہوری اصول اور آئینی انتظام کے تحت ملکی سیاسی معاملات میں فوج کا کوئی کردار نہیں ہے۔

ان حالات میں یہ تبدیلی تو ضرور دیکھنے میں آئی ہے کہ ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگانے والی مسلم لیگ (ن) نے سیاسی اقتدار لینے اور عمران خان سے نجات پانے کے لئے اس جمہوری نعرے کو ترک کر دیا۔ اور اقتدار سے محرومی کے بعد تحریک انصاف اسٹبلشمنٹ مخالف نعرے کی نئی نمائندہ بن گئی۔ سیاسی منظر نامہ میں اس مضحکہ خیز تبدیلی سے تو صرف یہ واضح ہوتا ہے کہ ملکی سیاسی لیڈر محض اپنے مفاد کے لئے نعرے کی حد تک سیاست پر عسکری اثر و رسوخ ختم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ کل تک یہ نعرہ مسلم لیگ (ن) لگا رہی تھی، اب عمران خان اس کے اجارہ دار بن رہے ہیں۔ عوامی مزاحمت کو جمہوری انقلاب میں تبدیل کرنے کا راستہ سیاسی قوتوں کے باہمی ربط و تعلق، پارلیمنٹ کی برتری اور احترام کی بنیاد پر معیاری ڈائیلاگ کے ذریعے ہی ہموار ہو سکتا ہے۔ یہ مزاج ملکی سیاسی لیڈروں میں عنقا ہے۔ سیاست دان جب تک براستہ جی ایچ کیو اقتدار تک پہنچنے کی تگ و دو کرتے رہیں گے، ملک میں عوامی بالادستی کا خواب پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔

عمران خان پنجاب کے ضمنی انتخابات میں کامیابی کے ذریعے سیاست میں عسکری مداخلت کے خلاف مزاحمت کا کوئی اصول متعین کروانا نہیں چاہتے بلکہ اگر وہ یہ انتخاب جیت گئے تو عام انتخابات کے مرحلے میں وہ خود کو عسکری سرپرستی کا سب زیادہ ’حقدار‘ ثابت کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments