عید قربان اور جمعرات والی


گھر کے بڑے اور کشادہ صحن میں خوب ہلچل ہے۔ اس سے متصلہ سامنے والا بر آمدہ بھی با رونق ہے۔ گھر کی نسبتاً بزرگ (جو سارے محلے میں بی اماں کے نام سے معروف ہیں ) وہاں بیٹھیں ہر آنے جانے والے مہمان اور خاندان کے لوگوں سے میل ملاقات کر رہی ہیں۔ مبارک سلامت ہو رہی ہے۔ مسکراہٹوں، قہقہوں اور خوش گپیوں کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ خاطر تواضع بھی ساتھ ساتھ جاری ہے۔ شربت، جوس، فروٹ چاٹ، دہی بھلے مہمان کی گنجائش اور پسند کے مطابق پیش خدمت ہیں۔

برآمدے کے دائیں طرف باورچی خانے سے مصالحہ بھننے کی خوشبوئیں بھی ہر جانب چکراتی پھرتی، ہر آئے گئے کے نتھنوں سے ٹکراتی اور متوجہ کرتی ہیں۔ گھر کی اکلوتی بہو وہاں مصروف ہے۔ رائتہ، سلاد اور میٹھے میں فرنچ ٹوسٹ بھی سینکے جا رہے ہیں۔ تاکہ کھانے کے بعد دستر خوان کی زینت بنیں۔ یہ کوئی عام کھانا نہیں بلکہ عید کی دعوت کے کھانے کا اہتمام ہے جس پر چالیس پچاس افراد ہونا تو عام سی بات ہے۔ ارد گرد رہنے والے تمام اقارب جو قربانی کے لئے صاحب استطاعت نہیں۔ وہ سب عید کا پہلا کھانا ادھر ہی کھاتے ہیں۔ اور یہ معمول تب سے شروع ہوا ہے جب سے بی اماں اور میاں جی کے بچوں کو مولا نے بھاگ لگائے ہیں۔ اس سے پہلے تک تو دونوں میاں بیوی یا تو سفید پوشی کا بھرم رکھ سکتے تھے یا اولادوں کو تعلیم دلوا سکتے تھے۔ بوجوہ خواہش کے قربانی کرنے کی گنجائش نہیں نکل پاتی تھی۔

صحن کی طرف نگاہ جائے تو کوئی مزید تیز چھریاں مانگ رہا ہے۔ کوئی بکرے کو پچھلے صحن کی طرف لے جا رہا ہے۔ گھر کے مرد بزرگ میاں جی ہر ایک کو ہلا شیری دے رہے ہیں کہ ملنا ملانا بعد میں کریں اور جلدی جلدی جانور ذبح کرنے کی تیاری کریں تاکہ وقت سے گوشت کی تقسیم ہو۔ گھر کا چھوٹا بیٹا اس دالان سے اس دالان تک چک پھیریاں لگا رہا ہے اور کچھ بڑے برتن، ٹوکا، پانی کی بالٹیاں، فرش پر بچھانے کی دریاں اور ترازو وغیرہ دوسری طرف پہنچا رہا ہے۔ اور بڑے بیٹے نے عید کے کپڑے بدل کر اپنے کمرے سے پچھلے حصے کی طرف دوڑ لگا دی ہے۔ ابھی ادھر سے تکبیر پڑھوا کر ، چھوٹے کو بڑے جانور کی قربانی والی جگہ بھی پہنچنا ہے تاکہ باقی حصہ داروں کے ساتھ حاضری لگوائی جا سکے۔

خوش قسمتی سے یہ ان گھرانوں میں شامل ہیں جہاں قربانی کا جانور عید سے چند دن پہلے گھر پر رکھا جاتا ہے۔ اس کی سیوا کی کوشش کی جاتی ہے۔ گلے پر چھری پھیرنے سے لے کر کھال اتارنے، گوشت بنانے، تولنے اور بانٹنے کے سب امور خود افراد خانہ ہی کرتے ہیں۔ جس کی وجہ کھلی جگہ کی دستیابی، جوان خون کی موجودگی اور ذبح کرنے کے ہنر کا ہونا بھی ہے۔

اسی شور اور دوڑ میں چھوٹا جانور قربان ہو جاتا ہے۔ مدد کو آئے مرد عزیز مل ملا کر گوشت بنانے کے لئے جلدی جلدی ہاتھ چلانا شروع کرتے ہیں۔ تاکہ پکانے کے لئے گوشت خاتون کچن کے حوالے کیا جائے۔ جب تک کھانا تیار ہو گا، تب تک باقی کا گوشت غرباء، مساکین اور رشتے داروں کی طرف بھیجنے کو تیار ہو جائے گا۔ اگلے آدھے گھنٹے میں صاف گوشت دھل کر پہلے سے بنے مصالحے میں ڈل کر مزید کچھ دیر میں آخری مراحل پر آ جاتا ہے۔ اب تمام احباب کے فارغ ہونے کا انتظار ہے تاکہ کھانا کھلنے کا طبل بجے۔

اسی دوران بی اماں سامنے والے برآمدے سے پچھلے کی جانب جا بیٹھتی ہیں۔ قربانی کا گوشت ہوتے دیکھنا ان کا ایک اور شوق ہے۔ کلیجی پہلے ہی پکنے کو نکل چکی ہے کیونکہ یہ ان کی مرغوب غذا ہے بالخصوص عید پر ۔ پائے بھی انھوں نے شروع سے ہی الگ رکھوا لئے تھے کہ عید کے عید یہ ایک سوغات ہے۔ باقی کے تین حصوں میں اپنی دور بیاہی بیٹیوں کے تھیلے الگ کر کے فریز کروا دیے ہیں۔ حالانکہ ان کے ہاں خود بھی قربانی ہوئی ہے۔

پکا کھانا ساتھ والے گھر بھی بھجوایا ہے کیونکہ وہ بھی ان کی طرف بھجواتی ہیں۔ اس لیے ادلے کا بدلہ بھی ضروری ہے۔ خیر دوپہر میں کھانا پروسا گیا۔ مہمان آئے۔ سب نے بخوشی کھایا۔ جو بوجوہ نہ آ سکے۔ ان کی طرف ٹرے سب لوازمات کی بھیجی گئی۔ ہمت باندھ کر گوشت کے حصے کر کے کڑی دوپہر میں شہر میں موجود جہاں جہاں جانا ہو، وہاں پہنچایا گیا۔ غریبوں میں دیا گیا۔ اتنے میں دوپہر شام میں ڈھل گئی۔ اور دروازے پر دستک ہوئی۔

کھولنے پر جمعرات والی اپنا بستہ کندھے پر لٹکائے کھڑی تھی۔ نام تو معلوم نہیں کیا تھا لیکن کسمپرسی، بیوگی، اور نا مساعد حالات میں جب کچھ نہ بن پڑا تو بروز جمعرات گھر گھر جاتی، اہل خانہ اس کے بیگ میں آٹا، چاول، دس بیس روپے، اور بحیثیت کچھ نہ کچھ ڈال دیتے۔ البتہ اس نے کبھی زیادہ کا تقاضا نہ کیا۔ تب سے اس کا نام اور پہچان جمعرات والی ہو گیا۔ اس کا یہ آنا اب تو سالوں کا معمول تھا۔ اتنا زیادہ کہ گھروں میں داخل ہونے کو (اگر کھلے ہوں تو ) نہ تو اب دروازہ بجانا پڑتا ہے۔ اور نہ دریچوں پر رکنا پڑتا ہے۔ بس سیدھے اندر صحن میں جاؤ۔ غرض پوری ہو تو چپ چاپ اگلے گھر کی طرف قدم بڑھاؤ۔

ہمیشہ جوتے گھسے ہوئے اور کپڑے بد رنگے۔ عمر شاید اتنی نہ ہو لیکن حالات کی سختیوں نے ساری جوانی ہی بوڑھی کر دی تھی۔ اس لئے چہرہ متفکر اور جھریوں بھرا ہی رہتا۔

دروازہ اماں بی کے پوتے نے کھولا اور آ کر ماں کو بتایا۔ مستحقین اور رشتے داروں کے حصے کا سارا گوشت بٹ چکا تھا۔ بہو نے گھر کے لئے بنے پیکٹوں میں سے ایک زیادہ بڑا شاپر اٹھایا اور دینے کے لئے دروازے کو بڑھی کہ دالان میں بیٹھی اماں بی نے بیس کا نوٹ نکال کے بہو کے ایک ہاتھ میں تھمایا اور دوسرے ہاتھ سے گوشت پکڑ لیا۔ کہنے لگیں، گھر کے لیے اس دفعہ حصہ ویسے ہی کم بچا ہے۔ اس پر سخاوت کرنے لگیں تو اگلے بیس دن کیسے گزاریں گے۔ اب کچھ تو بچت ہو۔ قربانی کے اتنے مہنگے جانور یونہی تو نہیں خریدے تھے کہ ہفتے دس دن بعد ہی گوشت خریدنے کو بھاگیں۔

بہو نے حیرانی اور پریشانی سے جب وہ بیس روپے باہر صحن میں منتظر جمعرات والی کو دیے تو وہ بڑے ضبط سے انھیں پکڑے، اپنے اندر اس گوشت کی مہک اور خوشبو جذب کرتی رہی جس کے نشان اماں بی کے گھر کے در و دیوار سے ابھی تک لپٹے تھے۔ اور پھر بھیگی پلکوں سے من من بھاری پیروں اور دل کو گھسیٹتے، اگلی امید باندھتے دروازے کی اور چل دی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments