سماجی مذہبی پروجیکٹس، مدرسے اور سیاست
اجمل خٹک اپنی کتاب ”قصہ میری ادبی زندگی کا“ میں لکھتے ہیں کر تقسیم کے بعد دیو بند میں پڑھانے والے استاد مولانا عبدالحق مرحوم اکوڑہ خٹک میں ہی رہ گئے تو انہوں نے گاؤں کے لوگوں کے لئے اور طلبا کے لئے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا جس کے انتظام کا ذمہ گاؤں کے لوگوں بالخصوص باچا خان کی خدائی خدمت گار تحریک کے ساتھیوں نے اپنے ذمہ لیا۔ اجمل خٹک مزید لکھتے ہیں کہ جب طلبا کی آمد کا سلسلہ بڑھا تو انہوں نے چند دوستوں کے ساتھ مشورہ کیا کہ درس و تدریس کے حوالے سے گاؤں کے لوگوں سے مدد کی درخواست کی جائے تاکہ ایک دار العلوم کی بنیاد رکھی جا سکے۔ انہوں نے آگے خود اور دوستوں کی کاوشوں سے اس ارادہ کو یقینی بنایا اور گاؤں والوں کی مدد سے دار العلوم کھولنے میں کامیاب ہوئے جس کو آج حقانیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
حقانیہ آج انتہائی مشہور دینی درسگاہ ہے۔ اس کا رول صرف درس تدریس تک محدود نہیں رہا بلکہ خطہ میں جہادی تحریک کو فکری بنیاد اور افرادی قوت بھی اسی ادارے یا اس ادارے سے وابستہ اداروں نے فراہم کی۔ آج بھی افغانستان میں اسلامی امارت کے چند بڑے نام ”حقانی“ ہیں۔
اجمل خٹک مرحوم کی اس تحریر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تب کا دار العلوم اور آج کا حقانیہ اوائل میں ایک مذہبی سماجی ادارہ تھا جس کو گاؤں کے باسیوں نے اپنے بچوں کی تدریس کی غرض سے کھولا تھا۔ سوال یہاں یہ ابھرتا ہے کہ ایک سماجی اشتراک کے نتیجے میں قائم کیے گئے مذہبی ادارے نے سیاسی حیثیت کن وجوہات کی بنیاد پر اختیار کی؟ نہ صرف ملک کے اندر مذہبی پارلیمانی سیاست میں یہاں سے سرگرم حصہ ڈالا گیا بلکہ سرحد پار بھی اس کے سیاسی اور جہادی کردار کو استعمال کیا گیا۔
دوسرا سوال یہ ابھرتا ہے کہ ایک ادارہ جس کو اہل علاقہ نے شروع کیا اور جس کے انتظامی معاملات اہل علاقہ ہی چلاتے رہے وہ مولانا عبدالحق مرحوم کے خاندان کے تصرف میں کیسے چلا گیا؟ کیا یہ ایک بہتر عمل سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک درس و تدریس کے ادارہ میں بھی خاندانی موروثی نظام قائم کر دیا جائے اور اختیار ایک خاندان میں باپ سے بیٹے اور پوتے تک وراثت میں دینے کی روایت قائم کی جائے؟
یہ صورت حال پورے صوبے میں ہے۔ بستی یا گاؤں والوں کی مدد سے مدرسہ کھولا اور چلایا جاتا ہے اور بعد میں صدقات، زکات اور چندوں کی مدد سے اس کو وسعت دی جاتی ہے اور پھر نسل در نسل ایک مولانا صاحب کی اولاد میں سے مدرسہ کے منتظمین آتے جاتے رہتے ہیں۔ اس کو سیاسی معاملات کا بھی حصہ بنا دیا جاتا ہے اور بالآخر گاؤں کے لوگوں کو اس سے جدا کر دیا جاتا ہے۔ اس کی کئی مثالیں کرک ضلع میں بھی موجود ہیں اور باقی جگہوں پر بھی۔
ان سب واقعات میں قصور گاؤں والوں کا بھی ہوتا ہے جو ایک اشتراکی سماجی اور مذہبی پروجیکٹ مدرسہ کی ہیئت تبدیل کیے جانے پر خاموش رہتے ہیں اور یہ تک پوچھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ ایک مشترکہ ادارے کو ذاتی ملکیت میں کیوں تبدیل کیا جا رہا ہے؟
گاؤں کے مدرسوں کو جو گاؤں کے لوگوں کے صدقات اور عطیات سے انتظام چلاتے ہیں، کے لئے بہتر طریقہ بورڈ آف گورنرز یا ڈائریکٹرز کے ماڈل کا ہے۔ بجائے ایک خود ساختہ اور قابض ناظم یا مہتمم کے، گاؤں کے بڑوں، علماء اور منتخب نمائندوں کے ایک بورڈ کے ذریعے چلائے گئے مدرسے زیادہ بہتر سماجی اور مذہبی کردار ادا کر سکیں گے اور ان کے سیاسی کردار کی روک تھام بھی ممکن ہو سکے گی۔
تحریر کا حاصل ہرگز یہ نہیں ہے کہ محض دینی تعلیم حاصل کرنے کی بنیاد پر کسی کو سیاسی عمل سے دور رکھا جائے۔ ملک بھر میں مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے والی کثیر تعداد میں سیاسی جماعتیں موجود ہیں اور ہر مذہبی اور دینی طالب علم اور عالم کو یہ انسانی حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کی سیاسی جماعت سے سیاسی عمل کا حصہ بنے لیکن سماجی مذہبی پروجیکٹس کو اپنے ذاتی مفاد اور سیاست کے لئے استعمال کرنا لوگوں کی امانت میں خیانت کے مترادف ہے اور اس کی روک تھام ہر ممکن صورت میں ہونی چاہیے۔
- سماجی مذہبی پروجیکٹس، مدرسے اور سیاست - 19/07/2022
- ٹرانس جینڈر ایکٹیوسٹ ڈاکٹر مہرب معیز اعوان کے نام - 01/07/2022
- پندرہ سالہ مسنگ پرسن حیدر علی، خزاں کے تیرہ سال - 25/06/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).