نان کسٹوڈیل والدین کے مسائل


مسجد میں ایک نمازی نے خطیب سے راہنمائی مانگی کہ ہم میاں بیوی میں علیحدگی ہو چکی ہے۔ بیوی بچوں کو مجھ سے ملنے نہیں دیتی۔ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ خطیب نے مدلل سمجھانے کے بعد بات سمیٹی اور کہا کہ والدین میں جھگڑا ہو جائے تو بچوں کو فریق نہیں بنانا چاہیے۔ والدین اولاد کو اس آزمائش میں ڈالنے سے گریز کریں کیونکہ یہ محبت نہیں بلکہ اولاد کے ساتھ دشمنی ہے، کہ اگر شوہر یا ماں میں سے کوئی چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو دوسرا بچوں کو اس کے خلاف کر دیتا ہے۔ خطیب صاحب نے کہا کہ یہ قطع رحمی ہے جو گناہ کبیرہ ہے۔ علیحدگی کے بعد بچوں کو باپ یا ماں سے نہ ملنے دینا کسی صورت مناسب عمل نہیں۔

یہ حق علیحدگی کی صورت میں بچوں پر ساقط نہیں ہو گا۔ میاں بیوی اجنبی ہو گئے لیکن بچوں کے ساتھ تعلق بدستور موجود رہے گا۔ لہذا بچوں کو والدین سے ملنے سے روکنا اور ان کے ذہنوں میں اک دوسرے کے خلاف نفرت ڈالنا گناہ جاریہ ہے، جو میدان محشر میں باعث شرمندگی ہو گا۔ خطیب صاحب نے ایسے والدین کو اس عمل پر فی الفور توبہ کرنے کی بھی تاکید کی۔

پاکستان میں اس وقت لاکھوں کی تعداد میں ایسے والدین ہیں جن میں کسی نہ کسی وجہ سے علیحدگی ہو چکی ہے۔ کہیں شوہر قصور وار ہوتا ہے تو کہیں بیوی کی شوہر یا اس کے گھر والوں سے نہیں بن پاتی۔ کہیں آپس میں ذہنی ہم آہنگی پیدا نہیں ہو پاتی تو کہیں کوئی اور وجہ علیحدگی کی صورت ٹھہرتی ہے۔ ان گھریلو ناچاقیوں پر بالخصوص اولاد ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ دوسری جانب والدین میں علیحدگی ہو جائے تو پھر دونوں فریقین کے درمیان بچوں پر حق جتانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ بات طول پکڑنے پر گارڈین کورٹس کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اور جب معاملہ عدالت میں چلا جاتا ہے تو سب کو معلوم ہے کہ کیا ہوتا ہے۔

اس صورتحال سے بچنے کے لئے بہتر یہی ہوتا ہے کہ عدالتوں کے دھکے کھانے کی بجائے والدین علیحدگی کے بعد آپس میں ہی بچوں کے ملنے ملانے کے معاملات طے کر لیں۔ کیونکہ بدقسمتی سے ہمارا نظام انصاف اس قابل ہی نہیں کہ درخواست گزار کی اپیل پر بروقت فیصلہ کر سکے۔ سالوں کیس لٹکتے ہیں۔ یہاں تک کہ بندہ تھک جاتا ہے، یا دنیا سے گزر جاتا ہے، کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ گارڈین کورٹس میں بھی یہی عالم ہے۔ ہزاروں کیسز التوا کا شکار ہیں۔

والدین خوار ہو رہے ہیں لیکن کسی منصف کو اس کا احساس نہیں ہے۔ یہاں والدین بچوں کی کسٹڈی کے لئے کیسز دائر کرتے ہیں، عموماً انہیں قانونی طور پر ماں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ اور باپ کو اسے ماہانہ خرچہ دینے کا پابند کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب والد یہ دہائی دیتے پائے جاتے ہیں کہ اس کے بچے کی باقاعدگی کے ساتھ اس سے ملاقات یقینی بنائی جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ عدالتوں کے چکر لگوائے جاتے ہیں اور دیے گئے شیڈول پر عملدرآمد میں بھی زیادہ تر ناکامی کا سامنا رہتا ہے۔

بچوں کو کسٹڈی میں رکھنے والے فریق کی جانب سے متعلقہ تاریخوں پر اکثر بہانے بازی کی جاتی ہے اور کئی کئی ماہ تک ملاقات نہیں کروائی جاتی۔ جن کی ملاقات ہوتی ہے وہ بھی محض چند منٹوں پر محیط ہوتی ہے، اور وہ بھی عدالت کے احاطے میں، جہاں دیگر سائلین باپ اور بچوں کا تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں اور باپ آزادی اور پرائیویسی کے ساتھ بچوں کے ساتھ وقت گزارنے سے محروم ہوتا ہے۔ یہ والد کی تذلیل نہیں تو اور کیا ہے، کہ وہ کسی قیدی کی حیثیت سے اپنے بچوں سے مل رہا ہوتا ہے۔

یوں یہ بچے باپ کے زندہ ہوتے ہوئے بھی یتیم کی سی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں وہ احساس محرومی کا شکار نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوں گے؟ وہ رولنگ بال نہیں بنیں گے تو کیا بنیں گے؟ کیا گارنٹی ہے کہ اس کھینچا تانی میں اس کی نفسیات پر کوئی اثر نہیں ہو گا اور اس کی زندگی صدمات میں نہیں گزرے گی؟ گارڈین کورٹ میں آپ کو کئی والدین ایسے بھی ملیں گے جو مہینوں بچوں کی شکل دیکھنا تو دور کی بات، فون پر بھی بات کرنے سے محروم رکھے جاتے ہیں۔

یہ بچے بوجوہ ”لیگل یتیم“ کے ٹائٹل تلے شب و روز گزار رہے ہوتے ہیں۔ ازدواجی زندگی کی تباہی میں قصور وار شوہر ہو یا بیوی، اپنی لڑائی میں بچوں کو نہیں استعمال کرنا چاہیے، ان میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت نہیں بونی چاہیے۔ وہ دونوں کا بچہ ہے اور اسے کسی ایک سے ملنے کے حق سے محروم رکھا جانا اس قانون کی بھی خلاف ورزی ہے جس کے تحت ان کی ملاقات کا شیڈول طے کیا گیا ہے۔

ہم اکثر میڈیا پر ایسی رپورٹس دیکھتے، پڑھتے ہیں جن میں فیملی کورٹس کا احاطہ میدان جنگ بنا پایا جاتا ہے۔ یہ نوبت مذکورہ وجہ سے ہی آتی ہے۔ آخر کیوں بچوں کو آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے؟ جبکہ ابھی وہ طفل مکتب ہوتے ہیں۔ ان کے کچے ذہنوں میں والد یا والدہ کے خلاف نفرت پیدا کرنے سے پہلے یہ کیوں نہیں سوچا جاتا کہ ان پر دوسرے فریق کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا پہلے فریق کا ہے۔ والدین اپنی لڑائی میں بچوں کا مستقبل برباد کر دیتے ہیں۔ دوسری جانب فیصلہ ساز بھی منصب سے انصاف برتنے سے معذور رہتے ہیں اور اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے، جس سے معاملہ طول پکڑتا ہے۔

فیملی کورٹس کے نظام انصاف میں تاخیر کے خلاف، اپنے حقوق کے لئے پاکستان بھر سے نان کسٹوڈیل فادرز رواں ہفتے پہلی مرتبہ ایک آگاہی مارچ + احتجاج کر رہے ہیں۔ اس واک کے ذریعے ان کا مطالبہ فقط یہی ہے کہ بچے بیشک ماں کے پاس رہیں، لیکن ہفتے میں ایک روز کے لئے، کسی وقت کی قید کے بغیر، بچے والد کے حوالے ضرور کیے جائیں تاکہ وہ اپنی اداسی اتار سکیں۔ نیز گارڈین کورٹ بچوں سے ملنے کا آسان حل متعارف کروائے۔ بچوں کے ذہنوں میں نان کسٹوڈیل فاردز کا جو منفی تاثر اجاگر کیا جا رہا ہے، اس کا فی الفور قانونی سدباب کیا جائے۔

”وائس آف فادرز“ ، اس آگاہی واک کے ذریعے یہ بھی تقاضا کرے گی کہ فیصلہ کرتے یا انصاف فراہم کرتے وقت، صرف عورت کے لئے نرم گوشہ نہ رکھا جائے بلکہ مرد کی بھی شنوائی کی جائے۔ انہیں بچوں سے ملاقات کے لئے پرائیویسی کا احترام کرتے ہوئے، دوستانہ گھریلو ماحول فراہم کیا جائے کیونکہ عدالت کا احاطہ کسی صورت ملاقات اور وقت گزاری کے لئے سازگار نہیں ہوتا۔

میں سمجھتا ہوں کہ منصفین کو ”وائس آف فاردرز“ کی ان تجاویز پر غور کرنا چاہیے۔ گھریلو ناچاقیوں کی وجہ سے بچوں کو ماں کی ممتا یا باپ کی شفقت سے محروم نہیں رکھا جانا چاہیے۔ عدالتیں دوران کیس، بچوں کو ترجیحاً ماں کے حوالے تو کر دیتی ہیں، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ والد کو بھی یہ حق دیا جائے کہ وہ تاریخوں کے جھنجھٹ سے آزاد رہ کر اور عدالتی چار دیواری سے باہر بھی اپنی اولاد سے جب چاہے، مل سکے۔ اپنے ہی بچوں سے ملوانے کے لئے تاریخیں ڈالنا کہاں کا انصاف ہے، جج صاحبان؟ انہیں ملزموں کی طرح ملنے کی بجائے مہذب انداز میں ملنے کا حق دیجئے۔ بچوں کو آزمائش میں ڈالنا انہیں احساس محرومی میں مبتلا کرنے اور ان کا مستقبل تباہ کرنے کے مترادف ہے، جس کی ذمہ داری بعد ازاں کوئی بھی فریق لینے کو تیار نہیں ہو گا، اور یہ بچے رولنگ بال بن کر رہ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments