کیا خان صاحب پنجاب کے ضمنی الیکشن ہار گئے؟


پنجاب کے 14 اضلاع میں 20 صوبائی نشستوں پر 175 امیدواران کے درمیان ہونے والے مقابلے میں ایک طرف سیاسی جماعتیں اور ان کے نمائندہ سیاست دان برسر پیکار تھے تو دوسری طرف عام آدمی، اس کا سیاسی، سماجی، معاشی شعور، پاکستان کے ماضی قریب کے سیاسی حالات بارے مزدور، ریڑھی بان، متوسط طبقے کی رائے۔ پڑھے لکھے، کسان، کھیت مزدور، ان پڑھ، نیم پڑھے لکھے اور کم پڑھے لکھے نوجوان طبقہ کی شعوری صورت کے درمیان بھی ایک جنگ جاری تھی جسے ایک مخصوص طبقہ نے نہایت زوردار، جنگی اور جنونی حکمت عملی جس کی بنیاد مارو یا مر جاؤ پر رکھی گئی، کے تحت جیت لیا اور ان جیتنے والے افراد اور ان کے نمائندہ سیاست دانوں کو یہ جیت مبارک ہو۔

یاد رہے کہ عالمی سطح پر معروف انقلابی، قوم پرست اور سرمایہ دارانہ نظام کے سخت ناقد کارل مارکس نے انیسویں صدی کے آخری عشروں میں کہا تھا کہ ہندوستان کو انگریز راج سے آزادی اور جاگیردارانہ نظام کی بہتر شکل کی ضرورت ہے کہ وہاں کے عام آدمی کی ذہنی سطح ابھی اس قابل نہیں کہ وہ سیاسی عمل کی پیچیدگی سے آگاہ ہو سکے اور اپنے معاشرے کی حقیقی بہتری میں کوئی کردار ادا کر سکے۔ یاد رہے یہی زمانہ جرمنی میں ایک خاص طرح کی آمریت پسند نسل تیار کر رہا تھا جس نے آنے والی دہائیوں میں پوری دنیا پر اثرات مرتب کیے۔ اب دوبارہ اپنے اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔

حالیہ ضمنی انتخابات نے پاکستان میں محض سیاسی قوتوں کے غلبے اور شکست کا نتارا نہیں کیا بلکہ ہماری نوجوان نسل اور بظاہر ڈگری یافتہ 18 سے 30 سال کی عمر کے لوگوں کے اجتماعی شعور، طرز فکر، عالمی مالیاتی صورت حال اور سب سے بڑھ کر خود اپنے ملک کی دس برسوں پر محیط گزشتہ تاریخ سے لاعلمی کا پول بھی کھولا ہے۔ انتخابات سے آئندہ ہی دن پاکستانی اسٹاک ایکسچینج میں گھاٹے کا کاروبار ہوا اور امریکی ڈالر اچانک سے چار روپے مہنگا ہو گیا جو گھاگ کاروباری کا آئندہ بنتی صورت حال پر اپنا اظہار ہے۔

یہ بات بھی دھیان میں رکھنی چاہیے کہ اس ضمنی انتخاب میں شریک دس سے زیادہ جماعتوں میں سے کسی نے انتخابی عمل کی شفافیت پر کوئی سنجیدہ اعتراض نہیں اٹھایا اور نہ ہی انتخابی عمل کے نصف النہار تک دھاندلی دھاندلی کرنے ولی پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے نتائج کو دھاندلی زدہ قرار دیا ہے بعین ہی ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ شکست کھانے والی جماعت اور سیاسی کارکنوں نے شکست کو تسلیم کیا ہے جس کی ایک مثال ملتان پی پی 217 سے احمد سلمان نعیم کی ہے جو ایک ہی وقت میں پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز شہر کے نمائندہ اور طاقت ور خاندانوں کے خلاف صف آراء تھا کہ ملتان کی سیاسی اشرافیہ کو یہ قبول نہیں تھا کہ ان کے مضبوط خاندانوں کے سامنے ایک پاپڑ بیچنے والا نیا نوجوان آ جائے اور کل کلاں کو شہر میں حکومت کا حصہ دار بن جائے لہذا یہ سب ایک طرف ہو گئے اور ان سب قوتوں کے متفقہ امیدوار پیر زادہ زین حسین قریشی سے یہ لگ بھگ 6 ہزار ووٹوں کے الٹ پھیر سے ہارنے والے اس پاپڑ فروش نے فراخدلی سے شکست کو تسلیم کیا اور اپنے مقابل امیدوار، خلیفہ دربار بہا الدین زکریا ملتانی کو مبارکباد پیش کرنے بھی گئے۔

مجموعی طور پر پنجاب کی حد تک منعقد ہونے والے اس انتخابی عمل میں 20 صوبائی نشستوں پر انتخابی عمل ہوا، جس میں 43 فیصد لوگوں نے رائے دہی کے عمل میں شرکت کی اور پاکستان تحریک انصاف کے 15 امیدواران نے عموماً مسلم لیگ نواز کے امیدواروں کو شکست دی، پاکستان مسلم لیگ نواز کے 4 امیدواران نے پاکستان تحریک انصاف کے امیدواران سے فتح حاصل کی جبکہ ایک آزاد امیدوار سید محمد رفیع نے پی پی 228 لودھراں سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کو شکست دے کر میدان مارا۔

آج 18 جولائی 2022 ء تک کی صورت حال کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب بھر میں جشن منانے کا اعلان کیا ہے جو شام کے اوقات میں پنجاب بھر کے مفتوحہ علاقوں میں رات گئے تک منایا جائے گا۔ فاتح جماعت کے سرکردہ رہنما انتخابی عمل کو شفاف قرار دے رہے ہیں جو اپنی سطح پر ایک نئی روایت کا آغاز ہے جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔

اب آتے ہیں تصویر کے دوسرے رخ کی طرف، تو یہ میدان میں اتارے گئے 20 امیدوار مسلم لیگ نواز کی طرف سے وہ ہیں جنہیں ”بزرگوں“ کی شدید اور سخت ہدایات پر ”شیر“ کے نشان پر الیکشن لڑنے کے لیے میدان میں اتارا گیا اور اپنے تیس سال پرانے کارکنوں، تگڑے رہنماؤں کی مخالفت مول لینا پڑی۔ دوسری طرف نمائندہ میڈیائی منظروں پر ان امیدواران کو مسلسل ”لوٹا، غدار، بکاؤ مال، امریکی غلام، زر خرید“ وغیرہ بنا کر پیش کیا گیا اور ہمیشہ کی طرح مسلم لیگ نواز کے بنیادی رہنما موسم کے مطابق ستو پی کر اپنی وزارت اور مشیری سے لطف کشید کرتے رہے سوائے ان چند حلقہ جات میں جہاں امیدوار خود تگڑا، مال بردار اور حالات کی نزاکت سے آگاہ تھا جیسے لاہور سے ملک اسد کھوکھر کہ جس نے اپنے حلقے میں جماعت کی مرکزی لیڈرشپ کو سامنے لا کر صحیح معنوں میں مقابلہ کیا۔

کیا آج کوئی میڈیائی تلوار بردار شرقپوری سمیت تین پنجاب کے اراکان اسمبلی کو 24 گھنٹے پہلی نازل ہونے والی وجدانی کیفیت اور لوٹائی صورت احوال پر تبصرہ کرنے کی جرات رندانہ کا مظاہرہ کرے گے یا یہ پارٹی بدلنے والے لوٹے نہیں بلکہ محب وطن سمجھے جائیں گے؟ میڈیا کہ منہ توڑ خاموشی کی وجہ سے کچھ سمجھ سے بالا بالا ہے۔

ایک اور پہلو جسے ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اگر یہی نتائج الٹ دیے جائیں تو کیا پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماؤں کا یہی ردعمل ہوتا؟ کیا وہ انتخابی عمل کو شفاف قرار دیتے؟ اگر پاکستان تحریک انصاف کے 15 امیدواران الیکشن ہار جاتے تو آج چیف آف آرمی سٹاف، سیکرٹری الیکشن کمیشن، عدالتوں مع معزز جج صاحبان کو جن القابات سے نوازا جا رہا ہوتا ان کا اندازہ کوئی بھی متوازن دماغ اور ملک کی خیریت سے جڑا پاکستانی بخوبی کر سکتا ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ گزشتہ تین مہینوں کی کمر توڑ مہنگائی اور منہ توڑ بری معاشی صورت حال میں کچھ کردار تو گزشتہ وفاقی اور پنجاب کی حکومت کا بھی ہے یا سب اچھا اچھا اچانک ایک صبح سب برا برا ہو گیا؟

خیر اب آتے ہیں اصل نکتہ کی طرف تو میرے عزیز ہم وطنوں آپ میں سے جو کوئی متوازن دماغ ہے اور صحت مند مکالمے کا متمنی ہے جس کسی کو پیٹ بھر کر روٹی کھانی ہے جس کسی کے پاس جہانگیر ترین، علیم خان، فرح گوگی کی طرح مختلف نوعیت کا مال نہیں ہے وہ فوراً اپنا سامان سمیٹیں اور افریقہ کے کسی ملک کی طرف ہی کیوں نہ جانا پڑے فوراً سفر آمادہ ہوں کیونکہ آپ کو جس نئی نسل سے آئندہ تیس برس تک سامنا کرنا ہے وہ بیک وقت کتاب دشمن ہے، یہ لوگ متکبر ہیں اور دوسروں کی بے توقیری کو اپنے لیے سبب توقیر سمجھتے ہیں۔

یہ اپنی قوت ایمانی کے بل پر امریکہ کی اینٹ سے اینٹ بجانا چاہتے ہیں۔ یہ نسل انتہائی خود غرض ہے اور جعفر کی طرح نور مقدم کا گلہ کاٹنے سے تسکین محسوس کرتی ہے۔ یہاں نقیب محسود کے پراسرار بھیانک قتل پر کوئی آواز سنائی نہیں دیتی، یہاں نور مقدم کی انتہائی غیر انسانی موت پر کوئی احتجاج دکھائی نہیں دیتا۔ یہ قوم طاقت پرست ایسی ہے کہ یہاں بے گناہ لوگ سال سال بھر جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہتے ہیں ان پر مکوڑے چھوڑے جاتے ہیں، ان کی چارپائی چھین لی جاتی ہے مگر کوئی متوازن آواز سامنے نہیں آتی، یہ وہ نمائندہ نسل ہے جو تحریک لبیک کے چہرے میں لاہور شہر جلانے پر آمادہ ہو جاتی ہے مگر 250 روپے پٹرول کی قیمت ہونے پر شام سے رات 12 بجے تک کاروں کی قطاریں پٹرول پمپ کے باہر لگی ہوتی ہیں۔

یہ لوگ ایسے دین فروش ہیں کہ یہ کبھی ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں تو کبھی ان کے مذہبی مشیروں کی گاڑیوں سے وفاقی دارالحکومت میں شرابوں کی بوتلیں برآمد ہوتی ہیں تو کبھی وزرا شراب کی بوتل کو شہد قرار دیتے ہیں مگر مجال ہے کوئی انقلابی اس پر سوال کرے، تحقیق کرے یا اس کے ”شہد“ ہونے نہ ہونے تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ یہ کس قدر جنسیت زدہ ہیں ان کا مظاہرہ موٹر سائیکل رکشے پر بیٹھی لڑکی کے گال کو چومنے والے لڑکے کا منظر یاد کر لیں، مینار پاکستان پر سینکڑوں لڑکوں کے بازوؤں میں اچھلتی ٹک ٹاکر یاد کر لیں، نور مقدم یاد کریں اور بہت کچھ۔ جس پر آج یہ معاشرہ سوچنا تک گوارا نہیں کرتا اور نہ ہی کسی اینکر کے پاس ان موضوعات پر سنجیدہ، مثبت اور ذہن ساز نوعیت کا ڈسکورس کرنے کی صلاحیت ہے۔

آپ نے اس نسل کی قوت برداشت کا مظاہرہ دیکھنا ہو تو ان کی پسندیدہ سیاسی جماعت کے بارے ایک سوال اٹھا لیں دھیان رہے عرض کی ہے کہ سیاسی جماعت کے حوالے سے سوال کریں۔ یاد کریں فیصل آباد کا وہ واقعہ جب ایک بیس سال پرانے دوست نے ایک نمائندہ جماعت کے رہنما کو ”گھڑی چور“ کہنے پر اپنے دوست کو قتل کر دیا تھا۔

تو بھائیو آپ کا حق ہے کہ آپ پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کریں یا مسلم لیگ نواز سے وابستہ رہیں، آپ پاکستان پیپلز پارٹی سے محبت کا اظہار کریں یا پاکستان تحریک لبیک سے وابستگی کا اعلان کریں یا بلوچ، پختون سرائیکی قوم پرستی کا دعویٰ کریں مگر یاد رکھیں آپ کے مقابل کوئی سیاسی کارکن نہیں کوئی مثالیت پسند انسان نہیں کوئی ترقی پسند نہیں بلکہ فاشسٹ، مغرور، خود پسند، جنسیت زدہ، کتاب دشمن، عالمی، معاشی اور عسکری ماحول سے بے بہرہ، آپ کو گھٹیا کہنے والا، طاقت کے نشے میں سر شار، اپ کو کمتر ثابت کرنے کے لیے کسی بھی سطح تک گرنے والا، عدم برداشت کا مارا اور دین فروش فرد ہے جسے آپ کے سماجی منصب، عمر یا شرافت کا کوئی پاس نہیں اگر تو آپ اس نسل کے برابر آ کر ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں تو ٹھیک ہے۔

شوق سے ملتان، فیصل آباد سمیت کسی بھی ملک غریب کے غربت خیز شہر میں سکونت اختیار کریں کہ یہ آپ کا بنیادی حق ہے وگرنہ اس ملک سے سامان باندھ لیں اور یقین رکھیں پنجاب میں عمران خان یا تحریک انصاف نے فتح حاصل نہیں کی بلکہ اسی فاشسٹ، خود پسند، جنسیت زدہ، کتاب دشمن، دین فروش عام آدمی اپنی برتری اور طاقتوری ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ جس کا پہلا تحفہ اسٹاک ایکسچینج نے عام آدمی کو آج کے اپنے رویے سے عطا کر دیا ہے اور آپ کو ذرہ برابر بھی شک ہے تو اپنے اطراف موجود کسی بھی جماعت کے کسی بھی حامی سے تین سے پانچ منٹ تک گفتگو کر کے دیکھ لیجیے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments