انتخابات میں عمران خان کی جیت کے آگے کیا ہے؟


پیر بابا کا مزار اور ایلم پہاڑ کی چوٹی بونیر کی شناخت اور فخر کی علامات ہیں۔ بونیر کے باشندے پختونخوا میں اپنی سادہ طبیعت اور خلوص کے لئے مشہور ہیں۔ ماضی میں پیر بابا سے مذہبی عقیدت اور ایلم کی اونچائی کے درمیان مقابلہ اکثر ٹائی رہتا تھا۔ روایت ہے کہ کسی بونیروال سے باہر کے کسی شخص نے پوچھا کہ پیر بابا بڑا ہے یا ایلم کا پہاڑ؟ بونیروال نے جواب دیا کہ اللہ آپ کو اس طرح حیران و پریشاں کردے جس طرح یہ سوال کر کے تم نے مجھے کر دیا ہے۔

سوال کرنے والے والے نے جس صورت حال سے اس دن بونیروال کو دوچار کر دیا تھا، عمران خان نے پنجاب کے ضمنی انتخابات جیت کر، ویسی صورت حال سے پاکستان کے سارے روایتی تبصرہ نگاروں کو دوچار کیا ہے۔ جس شاندار طریقے سے عمران خان نے ضمنی الیکشن جیت کر اپنا اعتماد بحال کر دیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ اب مذکورہ تبصرہ نگار کس طرح ناظرین اور قارئین میں اپنا اعتماد بحال کرتے ہیں۔

جس طرح پی ٹی آئی سے الیکشن ہار کر نون لیگ حیرت زدہ ہے اسی طرح دو ہفتے پہلے پی ٹی آئی سے سوات میں الیکشن ہار کر اے این پی کی قیادت اور ورکر بھی مبہوت ہو گئے تھے۔ پنجاب میں ہارنے والوں کی اکثریت دائمی لوٹوں کی تھی اور سوات میں ہارنے والا اس خاندان سے تھا جس نے سواتیوں کی خاطر ڈٹ جانے کی پاداش میں اپنے خاندان کے تین درجن خونی رشتے طالبان سے کٹوائے تھے۔ نون لیگ بھی بزدار سے پنجاب چھڑوا کر اسی ذہنی کیفیت سے دوچار تھی جس سے اے این پی کی قیادت طالبان سے سوات کی خاطر بھڑ جانے کی وجہ سے دوچار تھی۔

سوات کے باشندے اسٹبلشمنٹ کی پالیسیوں اور سلوک کے ڈسے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اے این پی کا قربانیوں کا بیانیہ اس کی کمزوری سمجھ کر مسترد کر دیا، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ جو سیاسی جماعت اپنے زخموں کا حساب نہ چکا سکے وہ سوات کے لوگوں کے بارے میں کیا کر سکتی ہے؟ دوسری طرف بزدار حکومت کو پنجاب پر مسلط کرنے والی وہی اسٹبلشمنٹ تھی جس کے چھتر چھایا تلے چھوٹے میاں اور اس سے چھوٹے میاں پنجاب حکومت کرنے کے سب سے زیادہ حقدار ٹھہرائے گئے تھے، جنہوں نے ووٹ کو عزت دو کے نعرے کو چھوڑ کر بوٹ کو گلے میں لٹکا کر گلی گلی اپنے مفادات کا میلہ لگایا اور تھا تھیاں تھیاں کرتے ہوئے عوام کو بیوقوف سمجھا۔ تیل گھی بجلی آٹا چینی کی مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ کا ڈھونگ رچا کر انہیں خود مہنگا کرنے کا ہفتہ وار شرف حاصل کیا اور غریب کے منہ سے آخری نوالہ چھیننے کو مشکل فیصلہ کہتے ہوئے اشرافیہ اور طاقتور حلقوں کو بچائے رکھا۔ پاکستان بچانے کے نام پر عوام کی چمڑی اتارنے کو کارنامہ بنا کر بیچنے کی کوشش ناکام کی لیکن یہ جھوٹ بری طرح ظاہر ہوا، کیونکہ نہ انہوں نے اشرافیہ اور رولنگ کلاس کی مراعات کم کیں نہ ان کی ٹی اے ڈی اور نہ تنخواہیں، عوام کے غم میں خالی خولی ٹسوے بہانے کے جواب میں خالی بکسے ملنے تھے جو مل گئے۔

ماضی میں سٹیٹ کنٹرول میڈیا کی وجہ سے ووٹر کو سیاست کا صرف وہی زاویہ دکھایا جاتا تھا جو طاقتور حلقوں کو سوٹ کرتا تھا لیکن اب سوشل میڈیا نے ووٹر کو سیاست کے وہ زاویے بھی دیکھنے کے قابل بنا دیا ہے جو پہلے ان سے چھپائے جاتے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ہوا کہ غداری کے تمغے بانٹنے والے خود سوشل میڈیا کے سامنے بے بس نظر آئے اور عمران خان کی مزاحمت کے سامنے پسپائی اور صفائیاں پیش کرنے کی ضرورت محسوس کی۔

عوامی حافظہ مختصر مدت کا سہی مگر ان کی اجتماعی دانش فیصلہ کن ہوتی ہے۔ جب تک عمران خان ایک صفحے کی قوالی گاتا رہا اور جرنیلوں کی اس سے محبت اور مشکلات سے نکالنے پر شکریہ ادا کرتا رہا وہ ضمنی انتخابات میں شکست پر شکست کھاتا رہا۔ جبکہ بیرون ملک بیٹھا نواز شریف اس دوران سوشل میڈیا کی طاقت سے طاقتوروں کا نام لے کر للکارتا رہا۔ جس کو عمران خان کی حکومت غداری اور وطن دشمنی کہہ کر للکارے جانے والوں کی صفائیاں پیش کرتی رہی، لیکن عوام کے لئے غداری کے تمغوں سے زیادہ اہم حکومت اور اس کی پشت بانی کرنے والوں کے ہاتھوں ان کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال تھی، اس لیے انہوں نے حکومت کے بیانیے پر کان دھرنے کی بجائے نون لیگ کی جرات رندانہ پر لبیک کہا۔ لیکن جب عوام کے اعتماد کو نون لیگ نے سستے میں بیچا تو اس کا نتیجہ کل کے ضمنی انتخابات میں ان کی شکست کی صورت میں دیا گیا۔

عمران نے وہی للکارنے والا طریقہ اور جوابدہی کا بیانیہ اپنایا جو نواز شریف نے منظور پشتین سے لے کر اپنایا تھا۔ یوں جب تک نون لیگ اینٹی اسٹبلشمنٹ بیانیے کی پرچارک رہی عمران خان ضمنی انتخابات ہارتا رہا، لیکن جونہی نون لیگ نے حکومت پاکر اپنا بیانیہ مزاحمت سے مفاہمت میں تبدیل کر کے اسٹبلشمنٹ کی صفائیاں دینی شروع کیں، تو عوام نے اسے مسترد کر دیا۔

لوگ تنگ آئے ہوئے ہیں، عوام کو اپنے ملک سے اتنی ہی محبت ہے، جس کا مخصوص حلقے اپنے لیے دعویٰ رکھتے ہیں۔ ان کو مزید ڈراموں گانوں اور سیاسی تجربات سے مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔ مزید ثبوت چاہیے تو 2018 کے دھرنے کے ماسٹر مائنڈ سابقہ ڈی جی ظہیر الاسلام کے آبائی پولنگ سٹیشن میں اس کی حمایت کے باوجود تحریک انصاف کو ملنے والے 80 اور نون لیگ کو پڑنے والے 160 ووٹ ہیں۔ اس لئے سوات کے پختون، وسطی لاہور کے پنجابی اور وسیب کے سرائیکی پہلی دفعہ اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف ایک آواز نظر آتے ہیں۔

پاکستان کی اکثریت جوانوں پر مشتمل ہے۔ وہ مصنوعی لیڈرشپ، روایتی نعروں، عارضی معاشی لیپا پوتی اور عقل کل والے رویوں سے شدید مضطرب ہیں۔ وہ چاہتے ہیں سیاست سیاستدانوں اور حفاظت محافظوں کے حوالے ہونی چاہیے۔

عمران خان کی اتنی جلدی واپسی اگر ایک طرف اس کے بہترین مزاحمتی بیانیے کی مرہون منت اور تاریخی ہے تو دوسری طرف عالمی طاقتوں کے ساتھ ہمارے مذاکرات کاروں کے لیے یک گونہ مفید بھی ہے۔ امریکی سازش کے بیانیے اور پنجاب میں عمران خان کی انتخابی جیت نے امریکہ کے سامنے پاکستان کی مذاکراتی پوزیشن کو بہتر کر کے سودا کاری کے وسیع امکانات پیدا کر دیے ہیں۔

عمران خان کی اس جیت کی وہی اہمیت ہے جو مشرف کے دور میں ایم ایم اے کی صوبائی حکومت کی تھی۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ پنجاب صرف اکثریتی آبادی پر مشتمل علاقہ نہیں بلکہ عسکری اور سول پالیسی سازی میں بنیادی کردار ادا کرنے والا صوبہ بھی ہے۔ جارح پنجاب میں ناراض عمران خان کی جیت کے بعد ہمارے مذاکرات کار کہنے کے قابل ہو جائیں گے کہ ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ہماری مجبوریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

یہ حقیقت ہے کہ عمران خان نے مغربی طاقتوں کے منصوبوں میں شامل ہونے پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا ورنہ باقی سٹیک ہولڈرز تیار تھے۔ سعودی عرب میں ہونے والی عالمی لیڈروں کی حالیہ ملاقاتیں، وہاں سے ملنے والے ہمارے سرکاری اعزازات، عرب ممالک کو ملنے والی ائر ڈیفنس شیلڈ، عرب دنیا میں اسرائیل کی انٹری، ہمارے ہمسایہ میں غیر یقینی اور مخدوش صورتحال کی نشاندہی کرتی ہے۔ ضمنی انتخابات کی جیت نے آئی ایم ایف اور قطر سے ملنے والی رقم کی وصولی کو غیر یقینی بنا دیا ہے لیکن ملک ڈیفالٹ کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر سویلین حکومت ڈیلیور کرنے کی قابل نہ ہو سکی تو پھر ایکسٹینشن کو ذہن میں رکھیں اور کسی بھی ہنگامی صورتحال کے لئے تیار رہیں۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments