بندر نامہ – طنز و مزاح


یہ بات بالکل بھی عجیب نہیں ہے کہ انسان جو کہ خود ایک جانور ہے وہ دوسرے جانوروں کو پسند کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک طرح کی عادات و اطوار کے مالک جاندار ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو یہ بالکل درست بات ہے۔ میرے یہ الفاظ اور اس سرگرمی کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں سینکڑوں جانور دیکھتے ہیں جن میں چرند، پرند، حشرات اور کیڑے مکوڑے شامل ہوتے لیکن ایک یا دو یا پھر بہت سے جانور ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں پسند ہوتے ہیں۔

بطور انسان میں بھی ایک جانور کو پسند کرتا ہوں جو کہ انسان کے مشابہ ہے۔ جب بھی اچھل کود کی بات ہو یا پھر انسان کو اس کے اباؤ اجداد کی یاد دلانی ہو تو اس جانور کی خوامخواہ شامت آ جاتی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ جانور جسے بندر کہا جاتا ہے کتنا پریشان ہوتا ہو گا جب اسے معلوم ہوتا ہو گا کہ انسان کو اس سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ جسمانی ساخت کی بات کریں تو بندر ہم سے کئی گنا زیادہ پھرتیلا، چالاک اور ہوشیار جانور ہے۔

یہ جنگل میں رہتا ہے مگر کچھ جانور نما انسان اسے پکڑ کر پنجروں میں بھی قید کر دیتے ہیں تا کہ وہاں پنے جیسے جانوروں کے سامنے اس کی نمائش کر سکیں۔ میرا مقصد انسان یا بندر کی توہین ہرگز نہیں کیونکہ یہ دونوں ہی اپنے افکار کی بدولت ایک دوسرے سے جوڑے جاتے ہیں۔ چند ماہ قبل تک کسی کو بھی بندر کہ دینا میرا تکیہ کلام بن چکا تھا مگر پھر جب ایک انسان نے مجھے بندر کہا تو معلوم ہوا کہ خود کو بندر کہلوانا کتنا بندر نما کام ہے۔ یہ تو بندروں کی ہمت ہے کہ وہ آج تک چپ چاپ خود کو بندر کہلوا رہے ہیں وگرنہ انسان کو جب بھی بندر کہا گیا اس نے بندر والی حرکات کر کے سب کو عملی طور پر دکھایا کہ ہاں میں ہی بندر ہوں اور بندر بیچارہ تو مفت میں بدنام ہے۔

بطور جانور بندر کے پاس دو دماغ ہوتے ہیں لیکن وہ پھر بھی ایک دماغ والے بندر کے نرغے میں پھنس جاتا ہے اور یہ یک دماغی جانور اس کے دو دماغ نکال کر شیشے کے مرتبانوں میں ڈال دیتے ہیں اور پھر تجربے کرتے رہتے ہیں کہ وہ کیسے بندر سے انسان بن گئے۔ میرا مشورہ ہے کہ بندر کے دو دماغ نکال کر کیمیکل کی مدد سے ان کا بیڑہ غرق کرنے کی بجائے اگر اپنے ایک ہی بندر جیسے دماغ کا علاج کر لیا جائے تو شاید دو دماغ والے بندر کی چیر پھاڑ سے بچا جا سکتا ہے۔

کہتے ہیں بندر بہت ہی کینہ پرور جانور ہے۔ میں نے جب غور کیا تو مجھے سمجھ آئی کیوں انسان کو ارتقاء جیسی اصطلاح کا سہارا لے کر بندر سے انسان بننے کی کہانی بنائی، سنائی اور پڑھائی گئی ہے۔ جانور نما انسان بھی بندر سے کم نہیں ہیں بلکہ یہ تو کینہ پروری میں اپنے اجداد کو بھی مات دے چکے ہیں۔ بندر کو اگر جنگل میں زک پہنچائی جائے تو وہ بدلہ لینے شہر نہیں بھاگ آتا بلکہ جنگل میں رک کر ہی انتظار کرتا ہے کہ کب یہ شہری بندر جنگل میں آئے اور وہ اس سے اپنا حساب چکتا کریں۔

لیکن انسان نما بندر نے سب حدود و قیود کا ستیا ناس کر دیا ہے۔ یہ دوسرے بندروں کے گھر میں گھس کر کینہ نکالتے ہیں اور پھر سینہ چوڑا کر کے اپنے کارنامے ایک اور بندر نما شے پر شائع کرتے ہیں جہاں دنیا جہان کے بندر جمع ہو کر اس ایک بندر کے کارنامے دیکھتے اور سراہتے ہیں۔ اس بندر کو انٹرنیٹ کہا جاتا ہے اس لیے پریشان نہ ہوں کہ دو بندروں کے بیچ تیسرا بندر کہاں سے آ گیا۔

بندروں کے متعلق ایک اور بات بھی بہت مشہور ہے کہ یہ کم عقل ہوتے ہیں اور نقل کرنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں دو کہانیاں ہیں جو ان کے بے عقل اور عقل مند دونوں کی صفائی بہت صفائی سے بیان کرتی ہیں۔ ایک قصہ تو وہی ہے جو ہمارے بندر سے انسان بنے اجداد نے سنایا ہے کہ جب ایک تاجر ٹوپیاں بیچنے گیا تو اس کا گزر جنگل سے ہوا جہاں وہ سکون کی غرض سے سو گیا۔ کچھ وقت بعد اٹھا تو دیکھا سب ٹوپیاں غائب ہیں۔ اوپر کو نظر اٹھی تو دیکھا کہ درختوں کی ٹہنیوں پر موجود سب بندروں نے ایک ایک ٹوپی پہن رکھی ہے۔

اب اس نے سوچا کہ بندر کیا جانے ٹوپی کا مزہ اور ان سے چھیننا چاہی لیکن یہ بندر چھلانگیں لگاتے ہوئے ان بندروں سے کوسوں دور تھا جو درختوں پر ٹہلتے بندر لگا رہے تھے۔ اس نے اپنے ایک دماغ سے کچھ سوچا اور پھر خود کی ٹوپی کو اتار کر نیچے پھینکا تو دو دماغ والے بندروں نے بھی اتار کر پھینک دی اور یوں تاجر صاحب نے سرخرو ہو کر ٹوپیاں اٹھائیں اور اپنے سفر کو روانہ ہو گئے۔ یہاں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بندر دو دماغ رکھنے کے باوجود بھی بندر ہی ہے کیونکہ وہ نقل کرتا ہے اور بغیر سوچے سمجھے کرتا ہے۔

دوسرا قصہ حال ہی میں پڑوسی ملک انڈیا میں پیش آیا جہاں بندر کی عزت روئے زمین پر سب سے زیادہ کی جاتی ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ انسان کی ارتقا بندر سے ہوئی لیکن انسانی عقل کہتی ہے کہ بندر تو ہمارا خدا ہے۔ بات تو سچ ہے ان کی بھی کہ بے عقل بندر نے اپنی نسل کے کچھ بندروں کو انسان بنا دیا اور ان کا ایک دماغ چھین کر خود کی کھوپڑی میں سجا لیا۔ خیر بندروں کی طرح میں بھی زیادہ ادھر ادھر اچھل کود نہ کرتے ہوئے مدعے پر آتا ہوں۔

کچھ ماہ قبل پڑوسی ملک میں بندروں کا ایک بچہ کتوں نے مار ڈالا۔ بس پھر بندروں نے عقل اور نقل کا درست استعمال کرتے ہوئے کتوں کی ساری نسل کو تہ خاک کرنے کا ارادہ کیا اور کتوں کے پلوں کو جہاں بھی وہ ملتے پکڑ کر اور گھسیٹ کر اونچی اونچی عمارتوں سے نیچے پھینک دیا۔ یہ لڑائی کچھ عرصہ جاری رہی اور پھر بندروں کی عقل پر پردہ پڑ گیا تو وہ واپس جنگل کو بھاگ گئے۔ اب معلوم نہیں یہ عقل مندی تھی یا بے وقوفی لیکن کام تو بندر کا ہی تھا۔

بندر کی ایک دم بھی ہوتی ہے جس کا کام اور کچھ نہیں بلکہ ستر پوشی کا ہوتا ہے جس کے لیے انسان کو بہت جوکھم اٹھانے پڑتے ہیں۔ بعض اوقات بندر اسی دم کے سہارے درختوں کی ٹہنیوں سے الٹے بھی لٹک جاتے ہیں اور دماغ کی ورزش کرتے ہیں۔ شاہد وہ بھی انسان بننا چاہتے ہیں لیکن میرا ان کو برادرانہ مشورہ ہے کہ وہ بندر ہی رہیں اور اور ہمیں ہماری سزا پوری کرنے دیں۔ بندر کے بارے میں اور کیا لکھنا۔ بس یہ بندر ہیں اور رہیں گے کیونکہ بندر کا پتر بھی بندر ہی ہوتا ہے۔

کسی انسان کا جب چند سال کا بچہ کھیلتے کودتے شور کرے یا گھر کی چیزیں توڑ دے تو اس کی ماں کہتی ہے بیٹا بندر والی حرکتیں چھوڑو اور انسان بن جاؤ۔ راوی اب بھی حیران ہے کہ آیا انسان بندر ہے، تھا یا ہو گا یا پھر ان سب کے بیچ کچھ ہے۔ بہر حال بندر مجھے بہت پسند ہے کیونکہ میری ساری عادات اسی سے مجھ تک آئی ہیں بقول سائنس کے۔

ایک واقعہ جو بندر نما جانور اور اصل بندر کے درمیان پیش آیا آپ کو سناتا چلوں۔ 2013 میں جب میں مری گیا تو ساتھ ہی موجود ایوبیہ نام کے شہر جانے کا دل ہو گیا۔ یہ دل بھی بندر ہی تو ہے جو کبھی ادھر تو کبھی ادھر مختلف بندروں جیسی یادوں میں گھرا رہتا ہے۔ ایوبیہ جو کہ مری سے بھی زیادہ سطح سمندر سے بلند ہے وہاں یہ بندر بکثرت پائے جاتے ہیں۔ چند بندر اونچے اونچے چنار کے درختوں کی آخری ٹہنی پر چڑھ جاتے ہیں اور فضا میں تیرتے بادلوں کو پکڑنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

ان کو کون سمجھائے کہ اے بندرو! بندر بنو اور اپنے دماغ کا استعمال کیا کرو بلکہ دو دماغوں کا۔ چند بندر عجیب حرکتیں کرتے ہیں کہ جو سیاح وہاں کھانا کھانے کے لیے درختوں کے نیچے رکھی ہوئی کرسیوں اور میزوں پر بیٹھتے ہیں تو اوپر سے آ کر بارش کر دیتے ہیں۔ یہ بارش انتہائی ناقابل برداشت ہوتی ہے اور کئی خواتین ان بندروں کو پھر بندروں کے القابات سے نوازتے ہوئے بل دیے بغیر اپنے اپنے بندر کے ساتھ رخصت ہو جاتی ہیں۔

سیاح حضرات جب وہاں موجود کیبل کار کی سیر کر کے واپس جانے لگتے ہیں تو بندروں کو مکئی کی چھلی ضرور کھلاتے ہیں۔ چونکہ میں بھی اس وقت بچہ تھا اور بندروں والی حرکتیں کیا کرتا تھا تو ابو سے پیسے لے کر ایک چھلی خریدی اور بندر کو کھلانے کے لیے سڑک کے ساتھ ڈھلوان پر چلا گیا۔ اب مجھے کیا معلوم تھا کہ جیسے کتے کی دم سیدھی نہیں ہوتی ویسے ہی بندر کا ناچ چلتا رہتا ہے۔ جونہی میں پاس پہنچا تو بندروں کا ایک غول اس ایک بیچاری، راج دلاری، ننھی سی چھلی پر حملہ آوار ہوا اور بالکل ویسے ہی جیسے ایک پلیٹ پر بارہ انسان یکمشت حملہ کر دیں اور پھر راوی کے چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

جب ایوبیہ کے چشموں کا ٹھنڈا پانی چہرے پر ڈالا گیا تو آہستہ آہستہ چراغ روشن ہوئے اور معلوم ہوا کہ وہ بندر ہمیں تگنی کا ناچ نچا کر رفو چکر ہو گئے ہیں اور چھلی بھی لے گئے ہیں۔ اس دن ہم نے تہیہ کیا کہ اب بندروں سے دور رہنا ہے لیکن ماضی کس کو بھولتا اور تب تو بالکل نہیں جب آپ اجداد کو بھولنا چاہتے ہوں۔ خیر بندر میرا پسندیدہ جانور ہے اور کیوں ہے اس کے لیے شروع سے لے کر آخر تک یہ مضمون بار ہا پڑھیں جب تک کہ آپ بھی بندر جیسی حرکات نہ کرنے لگ جائیں۔ شکریہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments