افغانستان: شکریہ اہل پاکستان


غلام خان بارڈر کا زیرو پوائنٹ کراس کرتے ہی ہم ایک ایسے ملک کے مہمان بن چکے تھے جہاں بائیس سال مسلسل جنگ رہی تھی اور امن قائم ہوئے ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا تھا۔ خبروں میں بتائے جانے والے حالات کے مطابق وزیرستان جیسے علاقے سے گزر کر افغانستان میں داخل ہونا خاصا جان جوکھم میں ڈالنے والا کام تھا لیکن الحمدللہ ہمیں کسی بھی قسم کی پریشانی یا خوف کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ فوجی آپریشن کے بعد اب وزیرستان کی رونقیں بتدریج بحال ہوتی جا رہی ہیں، لوگ بڑے اچھے اور خوش آمدید کہنے والے ملے۔ نیز بارڈر پہ موجود دونوں اطراف کی سیکورٹی فورسز کے جوانوں کے گرم جوشی سے استقبال نے بالکل بے خوف کر دیا۔

خیر اس قصے کی ابتداء ہوتی ہے 22 جون کو جب افغانستان میں آنے والے شدید زلزلے سے خوست، پکتیا اور پکتیکا جیسے تین اہم صوبے بری طرح متاثر ہوئے۔ تقریباً ایک ہزار کے قریب قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔ ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے اور اتنے ہی لوگ شدید زخمی بھی ہوئے۔ سوشل میڈیا کا دور ہے چند ہی منٹ میں متاثرہ علاقوں کے مکانوں اور مکینوں کی حالت زار کی تصاویر اور ویڈیوز انٹرنیٹ پہ وائرل ہو گئیں۔ دنیا بھر میں بسنے والے حساس دلوں نے افغانیوں کے درد کو محسوس کیا۔

پاکستان کے باشندوں کے لئے اپنے افغانی بھائیوں کے درد کو محسوس کرنے کی ایک سے زائد وجوہات تھی۔ سب سے پہلے وہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا المسلم اخوا المسلم ”مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے“ اس کے علاوہ ہمارا ان سے پڑوس کا رشتہ بھی ہے اور اچھے پڑوسی وہی ہوتے ہیں جو مشکل حالات میں آپ کے ساتھ کھڑے رہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے لوگوں نے زلزلے سے متاثرہ افراد کا جو درد محسوس کیا اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم بھی 2005 میں ایسے ہی حالات سے گزرے تھے۔ اسی طرح ہم پہ اللہ کی طرف سے آزمائش آئی تھی، ہمارے گاؤں کے گاؤں اور شہر بستیاں اجڑ گئیں تھی، لاکھوں لوگ زلزلے سے متاثر ہوئے تھے اور آج سترہ سال بعد تقریباً وہی صورتحال ہمارے پڑوس میں پیش آئی تھی۔

متاثرین زلزلہ کی تصاویر اور ویڈیوز نے پاکستانیوں کو جھنجوڑ کے رکھ دیا تھا اسی لیے فوراً مختلف رفاہی تنظیموں اور اداروں نے افغانستان کے لیے rehabilitation program شروع کرنے کا اعلان کیا۔ پاکستان جو خود اس وقت مشکل حالات سے گزر رہا ہے عوام مہنگائی کے ہاتھوں ستائی ہوئی اور اپنی دال روٹی بمشکل پوری کر رہی ہے لیکن اپنے پڑوسی مسلم ملک کے مشکل وقت میں فوراً ساتھ کھڑی ہو گئی۔

ہمارا افغانستان کا سفر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس میں ہم کراچی کی ایک رفاہی تنظیم کی جانب سے مختلف اشیائے خورد و نوش اور کمبل لے کر افغانستان کے متاثرہ صوبے خوست پہنچے تھے۔ خوست غلام خان بارڈر کراسنگ سے محض ایک گھنٹے کی دوری پہ واقع ایک خوبصورت شہر ہے جو صوبے کا صدر مقام بھی ہے۔ گورنر خوست ہمارے میزبان تھے جو اس وقت حج کے سلسلے میں حرمین شریفین گئے ہوئے تھے، ان کے سٹاف نے ہمیں خوش آمدید کہا اور گورنر کے مہمان خانے میں ہمیں ہمارے کمروں تک پہنچایا۔ خوست میں گزرے دو دن کے احوال کو چھوڑ کر اس جانب آتا ہوں جس کے لیے یہ کالم لکھا جا رہا ہے۔

متاثرہ صوبوں (خوست، پکتیا، پکتیکا) میں رفاہی کام کے حوالے سے خوست میں مرکزی کیمپ لگایا گیا تھا جہاں سے تمام معاملات کو دیکھا جاتا تھا اور باہر سے آنے والی تمام امداد پہلے خوست مرکزی امدادی کیمپ میں آتی تھی اور یہاں پھر کمیٹی جائزہ لیتی کہ کس شہر میں کس چیز کی ضرورت ہے، پھر متعلقہ چیز وہاں بھجوا دی جاتی۔ اگلے دن ہمیں مرکزی امدادی کیمپ کا گودام وزٹ کرنے کا موقع ملا تو یہ دیکھ کر انتہائی مسرت ہوئی کہ وہاں موجود سینکڑوں ٹن سامان جس میں اشیائے خوردونوش، خیمے، آٹا، کمبل، دوائیاں اور بہت کچھ تھا اس میں سے 90 فیصد سامان پاکستانی لوگوں کا بھیجا ہوا تحفہ تھا۔ وہیں پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ افغانستان کے مشکل حالات میں پاکستان کے لوگ باوجود معاشی بحران کے اپنے پڑوسی ہونے کی ذمہ داری بخوبی نبھا رہے ہیں۔

پاکستان کی مختلف رفاہی تنظیمیں افغانستان کے اندر زلزلہ زدگان کے لیے بھرپور کام کر رہی ہیں۔ گودام میں رکھے سامان کو دیکھا تو الخدمت فاؤنڈیشن، بیت السلام ٹرسٹ، فاتح فاؤنڈیشن، لبیک فاؤنڈیشن (کسی مذہبی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ) کی طرف سے بھجوائی گئی مختلف چیزیں دیکھیں،

اسکے علاوہ حکومتی ادارہ این ڈی ایم اے کا امدادی سامان بھی ہمیں وہاں دیکھنے کو ملا۔ عارضی خیمہ بستیوں کے لیے سینکڑوں خیمے گودام میں رکھے تھے جن پہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے لوگو لگے ہوئے تھے۔ ہزاروں بوریاں آٹے اور گندم کی وہاں موجود تھی جس پہ آزاد کشمیر کی کسی فلور مل کا نام لکھا تھا۔ درجنوں ڈبے مختلف دوائیوں کے دیکھے جو پاکستانی فارماسیوٹیکل کمپنی کی طرف سے بھجوائے گئے تھے۔

یہ جتنی بھی چیزیں، سامان یا امدادی سرگرمیاں وہاں پاکستانی ادارے کر رہے ہیں وہ سب پاکستان کے عوام کی مدد سے ہی ممکن ہو رہا ہے جس کا ادراک افغان حکومت کو بخوبی ہے، گورنر خوست کے نمائندے نے جب ہمارا لے جایا گیا سامان وصول کیا تو ہمیں ایک خط تھمایا جس میں حکومت افغانستان کی طرف سے اہل پاکستان کا اس گرانقدر تحفے پہ شکریہ ادا کیا گیا تھا۔ خوست سے جب ہم پاکستان واپسی کے لیے بارڈر پہ پہنچے تو وہاں پشاور کے تاجروں کی جانب سے بھجوائے گئے سامان سے لدے چھ ٹرک بارڈر کراس کرنے کو تیار کھڑے تھے۔ اس وقت مجھے اپنے دادا کی وہ نصیحت یاد آ گئی کہ بیٹا ہم خود چاہے جتنی بھی مشکل میں ہوں لیکن ہمیں دوسروں کی اتنی مدد ضرور کرنی چاہیے جتنی ہمارے بس میں ہو۔ الحمدللہ اہل پاکستان نے اپنے طرز عمل سے ہمیشہ کی طرح یہ ثابت کیا کہ وہ اپنی بساط سے بڑھ کر اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments