مابعد نوآبادیات کے ادب پر اثرات


مابعد نوآبادیات جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے، نوآبادیات کے بعد کا دور کہلاتا ہے۔ یعنی نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارے کا دور۔ اس اصطلاح اور سوچ کو ایڈورڈ سعید کی 1978 میں شائع ہونے والی کتاب ،،اورنٹیل ازم، سے منسوب کیا جاتا ہے۔ لیکن ان سے کہیں پہلے ایمی سیزائر اور فرانز فینن نے یہ تصور اور اس کے اثرات کو پیش کیا۔ فرانز فینن کی کتاب ،،ریچڈ آف ارتھ، کا اردو ترجمہ ،،افتادگان خاک، کے عنوان سے 1978 سے پہلے شائع ہو چکا تھا۔ یہ ترجمہ غالباً محمد پرویز اور سجاد باقر رضوی نے کیا تھا۔

مابعد نوآبادیات تنقید کا ایک نیا طرز ہے، جو نوآبادیات اور مقامی باشندوں کے ثقافتی طرز کا مطالعہ کرتا ہے۔ کیونکہ دونوں کے ثقافتی رشتے نوآبادیاتی نظام کے تحت قائم ہوتے ہیں۔ اس نظام میں استعمار کار کو ہر سطح پر اجارہ حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے مذکورہ ثقافتی رشتے دراصل طاقت کے رشتے ہوتے ہیں۔ استعار کار طاقت کی اکثر صورتوں (مثلا: سیاسی، علمی، معاشی، تعلیمی، فنی) کو خلق کرنے اور اس کو نافذ کرنے کی پوزیشن کا حامل ہوتا ہے۔ مثلا انگریزی نوآبادیات نے برصغیر میں اپنے قیام اور استحکام کی خاطر بہت سے بیانیے وضع کیے۔ اور انھیں تعلیمی اور ادبی انجمنوں اور کتب کے ذریعے رائج کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو ادب میں قومیت پرستی، احتجاج، مزاحمت اور دوہری شخصیت کے رویے انھی بیانیوں کا ردعمل تھے۔

مابعد نوآبادیات کے اس حوالے کے لیے بہترین مثال میرا جی کی شخصیت نظر آتی ہے۔ اس ضمن میں میرا جی پر ناصر عباس نیر کی کتاب ،،اس کو ایک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں، قابل ذکر ہے۔ اس کتاب کے مطالعے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ مابعد نوآبادیاتی مطالعہ کو شروع کرنے کے لیے شاید میرا جی سے زیادہ موزوں شخصیت کوئی اور ہو بھی نہیں سکتی تھی۔ اس حوالے سے میرا جی کی نظم ،،اجنتا کے غار، قابل ذکر ہے۔ اس نظم میں انھوں نے جو تصور پیش کیا وہ اپنے وقت سے بہت آگے کا تصور ہے۔ نظم سے چند سطور ملاحظہ فرمائیں :

ایک ہی وقت سے۔ ایک ہی دور سے۔ رغبت کیوں ہے
ایک ہی نور میرے ذہن پہ کیوں چھایا ہے
نور کے رنگ کئی ہیں کون آئے۔ آئے
نور کا رنگ ہے صرف ایک، بدل دیتا ہے اس کو ماحول
وجہ تحریک ہیں پژمردہ نقوش
علم ہی سینہ ماضی میں لے جاتا ہے
ورنہ فردا بھی مجھے دوش کی مانند نظر آ جاتا
جیسے اب دوش نظر آتا ہے دیوار کی تصویروں میں
اور دیوار کی تصویریں بتاتی ہیں مجھے وقت کی رفتار کے ساتھ
ایک انسان لڑکپن سے جوانی میں گیا
اور جوانی کے گزرنے پر بڑھاپا آیا
ہاں وہی راج کمار۔ باغ میں جس کے نہ تھی کوئی بھی پژمردہ کلی
دوش و فردا ہی کی مصیبت سے آزاد ہوا

میرا جی کے بعد چند اور شعرا کی مثالیں دیکھیں جن کی شاعری میں مابعد نوآبادیات کا تاثر موجود ہے۔ مجید لاہوری اس صورت حال کی پیش کش یوں کرتے ہیں :

یہ کیسی آزادی ہے
یہ کیسی آزادی ہے بھئی! یہ کیسی آزادی ہے؟
کنگلے تو کنگلے ہی رہے اور دھن والے دھن وان ہوئے
رہزن رہزن بن بیٹھے جو غنڈے تھے پردھان ہوئے
جاہل تو فرزانے ٹھہرے اور عاقل نادان ہوئے
شہد لگا کر ہم نے چاٹے جتنے بھی اعلان ہوئے
حسن حمیدی کی نظم ،،وجدان، میں اس صورت حال کا تذکرہ کچھ ملتا ہے :۔
کیا غم کہ اپنے سر پہ غلامی کا تاج ہے
جب کہ تصورات کی دنیا پہ راج ہے
ہیں اپنے گردوپیش جہنم کی وادیاں
لیکن سنا رہا ہوں بہاروں کی داستاں
ایک صدی پہلے۔
ٹیپو کا لہو بیچنے والوں کا کرم ہے
پردے میں اجالوں کے وہی شام الم ہے
سہمی ہوئی آہوں کے جنازوں کو اٹھائے
کہتے ہیں کہ ہاتھوں میں بہاروں کا علم ہے
نظیر اکبر آبادی نے اپنی نظم ،،جبر مصلحت، میں اس صورت حال کو یوں پیش کیا ہے :۔
بے در و دیوار زیر آسماں رہنا پڑا
ہم کہاں کے رہنے والے تھے کہاں رہنا پڑا
بے وطن، بے گلستاں بے آشیاں رہنا پڑا
ہم کو غربت نے جہاں رکھا وہاں رہنا پڑا
ہادی مچھلی شہری نے نو آبادیاتی صورت حال کو اس طرح بیان کیا ہے :۔
نشانہ ستم روزگار ہے اب تک
جو بے قرار تھا دل بے قرار ہے اب تک
وطن پہنچ کر بھی لطف وطن نصیب نہیں
دل غریب الدیار ہے اب تک
وہ کارواں جسے گزرے ہوئے زمانہ ہوا
ہماری آنکھ میں اس کا غبار ہے اب تک

نوآبادیات کے بعد کی صورت حال کی واضح جھلک ان شعرا کے کلام میں نظر آتی ہے۔ کہ نوآبادیاتی غلبہ ختم ہونے کے بعد بھی ہم کس طرح اسی نظام کے زیر اثر جی رہے ہیں۔ اس کارواں کو گزرے ہوئے تو زمانہ ہو گیا ہے لیکن ہماری آنکھوں میں اب تک اسی کا غبار ہے۔

اگر فکشن پر نوآبادیات کے اثرات کو دیکھا جائے تو خدیجہ مستور کا ناول ،،زمین، اور علی اکبر ناطق کا ناول ،،نولکھی کوٹھی، اس حوالے سے بڑی مثالیں ہیں۔ ناول ،،زمین، میں دکھایا گیا ہے کہ تقسیم ہند کے بعد مہاجرین کو جو ملنا تھا اس میں نا انصافی ہوئی۔ یعنی فرنگی استعماریت کو برقرار رکھا گیا۔ المیہ یہ ہے کہ نوآبادیات کے بعد بھی اس ناول کے کرداروں کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ نوآبادیاتی صورت حال جیسا ہی تھا۔ ناول ،،نولکھی کوٹھی، میں بھی مابعد نوآبادیاتی صورت حال نظر آتی ہے۔ ناول کا مرکزی کردار ولیم جس خطے میں ایک عرصہ رہا، استعماریت کے بعد وہ خطہ پاکستان میں شامل ہو گیا۔ ولیم خود کو ہندوستانی سمجھتا تھا مگر تقسیم کے بعد مقامی لوگوں نے اسے ہندوستانی نہیں بننے دیا۔

صفدر زیدی کا ناول ،،چینی جو میٹھی نہ تھی، نوآبادیاتی جبر کے تاریخی تناظر میں لکھا گیا ہے۔ اس ناول کے کردار سامراج یا نوآبادیات کے جبر سے دو چار ہیں۔ یہ ناول ولندیزی نوآبادیات اور ہندوستانی نوآبادیات پر مبنی ہے۔ علاوہ ازیں شوکت صدیقی کا ناول ،،خدا کی بستی، عبداللہ حسین کا ناول ،،اداس نسلیں، مستنصر حسین تارڑ کا ناول ،،خس و خاشاک زمانے، اور سجاد ظہیر کا ناولٹ ،،لندن کی ایک شام، مابعد نوآبادیات کے زیر اثر ہیں۔

نوآباد کار جب بھی کسی ملک یا زمین کو اپنی کالونی بناتے ہیں تو وہاں پہلے سے موجود تمام نظام زندگی کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ برطانوی نوآباد کاروں نے بھی جہاں ایک طرف ہندوستان سے تمام اسباب اور وسائل لوٹ لیے، وہیں یہاں کا سماجی ڈھانچہ ایسا بدلا کہ آج ڈیڑھ دو سو صدیاں گزر جانے کے بعد بھی ہم اس کو ،،ڈی کلونیلائز، نہیں کر پائے۔ اور مزید یہ کہ ایسا ہوتا نظر بھی نہیں آ رہا۔ ہندوستان سے اس کی زبانیں چھین لی گئیں۔ اور ان کی جگہ غیر ملکی زبان دی گئی جس میں نوآباد کاروں کے اپنے مقاصد تھے۔ یونیورسٹیوں میں انگریز پروفیسر جہاں انگریزی زبان کی تعلیم دینے لگے وہیں مقامی زبانوں کی تحقیر کا بھی آغاز کیا گیا۔ یعنی یہ کہ ہندوستانی زبانیں اپنے اندر نئے علوم پیدا کرنے کی قابلیت نہیں رکھتیں۔

نوآبادیاتی فکر کا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ مقامی افراد کو یقین دلایا جائے کہ نئی فکر اور نیا نظام ہی ان کے لیے بہتر ہے۔ پرانا نظام اور پرانی فکر فرسودہ ہو چکی ہے۔ اور مغربی تہذیب کی پیروی ہی سے مقامی افراد اپنی فرسودہ روایات سے ایک مہذب دنیا میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے لارڈ میکالے نے ایک تعلیمی نظام وضع کیا۔ جس کا مقصد ایک ذہنی غلام نسل پیدا کرنا تھا۔ تاکہ ہندوستان میں سیاسی بالادستی کو آسانی سے برقرار رکھا جا سکے۔

اس نظام کے نتیجے میں دین سے دوری، اقدار سے بیزاری اور انگریز کی پیروی سامنے آئی۔ یہ تعلیمی نظام ابھی تک ہمارے ہاں رائج ہے یہی وجہ ہے کہ ہر معاملے میں مغرب کی طرف دیکھنے کی روایت آج بھی قائم ہے۔ اس طرح ہم نوآبادیات سے آزاد ہونے کے بعد بھی اسی کے زیر اثر ہیں۔ اور یہ مابعد نوآبادیاتی نظام ختم ہوتا نظر بھی نہیں آ رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments