پنجاب کا نیا رانجھا


یہ درست ہے کہ عمران خان نے اس سے پہلے کوئی الیکشن اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور مدد کے بغیر نہیں جیتا تھا، مگر اب جیت لیا ہے، ضمنی انتخاب ہی سہی، لیکن واضح اکثریت سے جیت لیا ہے، اور وہ بھی پنجاب میں جہاں نواز شریف کی مسلم لیگ 1988 سے کبھی کسی سویلین سیٹ اپ میں ہونے والا انتخاب نہیں ہاری تھی، حتی کہ 2018 کے مشکوک انتخابات میں اور اس کے بعد کئی ضمنی انتخابات میں بھی مسلم لیگ نواز نے پنجاب میں اپنے حریفوں سے زیادہ ووٹلئے تھے اور پی ٹی آئی سے زیادہ نشستیں جیتی تھیں۔ تو پھر ضمنی انتخابات کے نتائج سے کیا اخذ کیا جائے، کیا 30 سال بعد پنجاب نواز شریف کے رومانس سے نکل رہا ہے؟ کیا عمران خان پنجاب کا نیا رانجھا بننے جا رہا ہے؟

اس سارے معاملے کو دیکھنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ’ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہوئی‘ ان بیس نشستوں میں سے تو کوئی بھی مسلم لیگ نون کی نشست نہیں تھی، یعنی پنجاب میں یہ نون کی سب سے کمزور نشستیں تھیں، ان میں سے سات پر تو 2018 میں مسلم لیگ کو امیدوار ہی نہیں ملے تھے، اور مسلم لیگ نے دو نشستیں پی ٹی آئی سے چھینی ہیں، دو آزاد امیدواروں سے، وغیرہ وغیرہ۔

تحریکِ عدم اعتماد کے بعد مرکزی حکومت سنبھالنے والے جانتے تھے کہ آئی ایم ایف کے معاہدے کی شرائط پوری کرنا ہوں گی، پٹرول بجلی کی قیمتیں بڑھانا ہوں گی، مہنگائی کا طوفان آئے گا، فضا میں عمومی مایوسی پھیلے گی، ووٹر بد دل ہوں گے۔ لیکن سوچ یہ تھی کہ ڈیڑھ سال کی ’اچھی حکومت‘ سے اس فضا کو بہتر کر لیا جائے گا۔ اس سب کی نوبت ہی نہیں آئی اور پنجاب میں ضمنی انتخابات نے مسلم لیگ نون کو اپنے نرغے میں لے لیا۔ مسلم لیگ نون ماضی میں کبھی موٹر وے بنا کر اور کبھی بارہ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے بعد عوام کی عدالت میں جاتی رہی تھی، یہ پہلی مرتبہ تھی کہ پارٹی مہنگائی کا داغ چہرے پر سجا کر ووٹ مانگنے نکلی۔مہنگائی میں پسے ہوئے عوام دلیلیں سننے کے موڈ میں نہیں ہوتے کہ یہ مہنگائی پچھلی حکومت کے آئی ایم ایف معاہدے کی وجہ سے ہے، اور ہمیں تو آئے ہوئے ابھی تین ماہ ہوئے ہیں۔بھوک سے بڑی کوئی دلیل نہیں ہوا کرتی! اور یہ بھی کیا طرفہ تماشا ہے کہ انتخابات میں ’امپورٹڈ حکومت‘ کو آئی ایم ایف نے شکست دے دی۔ آگے چلیے، مسلم لیگ نون نے ایک معاہدے کے تحت تمام منحرف ارکان کو ٹکٹ دیئے، اگر یہ امیدوار جیت جاتے تو کیا اگلے عام انتخابات میں بھی پارٹی انہیں ٹکٹ دیتی؟ یہ سوال حلقے کی سیاست کرنے والے نون کے سابق ٹکٹ ہولڈرز  کے لئے باعث تشویش تھا، جب مسلم لیگ کے علاقائی رہنما غیر متحرک ہوئے تو ان سے منسلک کئی دھڑے بھی سرد ہوگئے، جس سے مسلم لیگ کا ووٹر مایوس اور غیر متحرک ہو گیا۔ جب کے دوسری طرف خان صاحب نے کامیابی سے اپنے ووٹر میں ’انتقام کا جذبہ‘ پھونکا جو اسے پولنگ بوتھ تک لے گیا۔

سچ تو یہ ہے کہ عمران خان کی چھابڑی بکنے والے سودے سے لدی ہوئی ہے، اینٹی امریکہ، اینٹی اسٹیبلشمنٹ، مذہبی کارڈ یہ سب وہ اجناس ہیں جو ہمارے ہاں ہاتھوں ہاتھ بک جاتی ہیں۔ ویسے اسٹیبلشمنٹ کیلئے یہ نکتہ بھی غور طلب ہے کہ پاکستانی عوام ’ووٹ کو عزت دو‘ اور ’ میر جعفر، میر صادق‘ جیسے نعروں پر وجد میں کیوں آ جاتے ہیں؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کے سیاسی فوائد تو حاصل ہوئے لیکن اس موقف کے خطرات سے وہ یک سر محفوظ رہے گئے، وہ جسے چاہیں ’غدار‘ کہیں، عدالتوں کے فیصلے مانیں نہ مانیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جب کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ لیڈر تو اقتدار سے نکل کر پھانسی گھاٹ جاتا ہے یا جیل میں سڑتا ہے، اور یا جلا وطن کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا ووٹر کو یہ پیغام دیا گیاکہ اداروں میں عمران خان کی حمایت موجود ہے، وہ نواز شریف کی طرح زیرِ عتاب نہیں ہیں، وہ دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں (ویسے عمران خان کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے سے دور پار کا کوئی تعلق نہیں، وہ تو ان کی حمایت ختم ہونے پر برہم ہیں)۔ بہرحال، یہ درست ہے کہ مسلم لیگ نون اپنا ’ووٹ کو عزت دو‘ کا پر کشش بیانیہ دریا برد کر کے الیکشن لڑنے نکلی تھی، یعنی سال ہا سال سے اپنے مرکزی نعرے کو تج کے۔

اب ذرا اس سیاسی منظر نامے کا احاطہ کیجئے جس میں یہ انتخاب منعقد ہوئے۔ ملک میں دو بڑی پارٹیاں ہیں، ایک کے لیڈر عمران خان ہیں، دوسری جماعت مسلم لیگ نون ہے، اس کا لیڈر کون ہے؟ نواز شریف؟ مگر وہ تو جلا وطن ہیں، ان کی تو شکل دکھانے پر بھی پابندی ہے، وہ کیسے عمران خان کی جارحانہ سیاست کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ نواز شریف کی سیاسی جانشین ان کی بیٹی مریم نواز ہیں، مگرانہیں الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہے۔باقی بچے شہباز شریف اور حمزہ شہباز۔ یعنی تصویر کچھ یوں بنتی ہے کہ ووٹ نواز شریف کا، جلسے مریم نواز کے، اور وزیر اعظم بنیں گے شہباز شریف، جن میں بطور منتظم درجنوں خوبیاں ہیں، مگر عوامی سیاست ان کے مزاج کا حصہ کبھی بھی نہیں رہی۔ پارٹی قیادت کے حوالے سے مسلم لیگی ووٹر کا ذہن یقیناً دھندلایا ہوا ہے۔

اور اگرمقتدرہ کہہ رہی ہے کہ ہم اپنے آئینی دائرے میں لوٹ گئے ہیں تو امید ہے کہ اب دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو نہیں جائے گا، مگر اس دعویٰ کی سب سے بڑی گواہی تب آئے گی جب نواز شریف دشمنی کو خیرباد کہہ دیا جائے گا۔ دو پہلوانوں کی کشتی میں ایک پہلوان کے ہاتھ پاﺅں باندھ دینے والے کو’نیوٹرل‘ نہیں کہا جا سکتا۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments